پنجاب 20 سر اور ایک ’’پگ‘‘ کی جنگ

حکومت کے سخت فیصلوں، مہنگائی نے ووٹرز کو متاثر کیا تو حمزہ شہباز کی ’’پگ‘‘ زمین پر گرسکتی ہے

حکومتی اتحاد پنجاب کی ’’پگ‘‘ بچانے کی کوشش کرے گا۔ (فوٹو: فائل)

لاہور:
کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ سیاستدان، مقتدر اشرافیہ، بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے چند ہزار خواص، عوام کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ ان کا یہ اتحاد اتنا مضبوط ہے کہ یہ چند ہزار کروڑوں پر بھاری ہیں۔

میرے ذہن میں اس خدشے کو تب تقویت ملی جب میں نے دیکھا کہ رات کے اندھیرے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، دن کی روشنی میں عدالتیں ایسے فیصلے کرتی ہیں کہ معصوم عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ میرے خیال کو تب بھی تقویت ملتی ہے جب سیاستدان، سول اور ملٹری بیوروکریٹ، جوڈیشری کے لوگ اپنی مراعات، پنشنز کے حوالے سے تو اتفاق کرلیتے ہیں، لیکن جہاں ایک عام آدمی اور ملک کی بات آتی ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایک طرف تو امریکی سازش اور مداخلت کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی جماعت سے تعلق رکھنے والا ''صدر مملکت'' امریکی سفیر کو گارڈ آف آنر دے رہا ہوتا ہے۔ اپنے مفادات کےلیے تو مفاہمت کی جاتی ہے، عوام اور ملک کےلیے مفاہمت کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟

قومی مفاہمت کی ضرورت جتنی آج پاکستان کو ہے شاید ہی کبھی رہی ہو۔ ملک میں شدت سے تقسیم ہے، معاشی بحران ہے، ہر طرف سے سیاسی چپقلش کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ اگر سیاسی مفاہمت کے حوالے سے ہلکی سی کرن بھی پھوٹے تو نعمت سے کم نہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کے بحران کا غیر روایتی حل نکالتے ہوئے 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب یا رن آف الیکشن کا حکم دیا ہے۔ اس معاملے میں پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی کا ایک پیج پر ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب بعد از ضمنی انتخاب ہوگا، خیر اس مفاہمت سے نہ تو مہنگائی میں کمی آئے گی اور نہ ہی عوام کو سکھ کا سانس ملے گا۔ یہ ضرور ہوگا کہ چند دن عوام کو دریاں بچھانے، پوسٹر لگانے، نعرے مارنے کا موقع ضرور ملے گا۔

پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن کی تیاری عروج پر ہے۔ پی ٹی آئی منحرفین، ن لیگ، پیپلز پارٹی آپس میں جڑ گئے ہیں۔ حکومتی اتحاد پنجاب کی ''پگ'' بچانے کی کوشش کرے گا تو عمران خان اپنی مقبولیت کا بڑا امتحان پاس کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان 20 ارکان کی بدولت حکومت بھی تبدیل ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ عدالت عظمیٰ پی ٹی آئی، ق لیگ کی مشروط آمادگی پر حمزہ شہباز کو ''این آر او'' دے چکی ہے۔ این آر او کی مدت کم مقابلہ سخت ہے۔ ضمنی الیکشن کے بعد عام انتخابات بھی دور نہیں۔ یہ پورے پنجاب سے ارکان ہیں تو ایک اچھا نمونہ بھی مل جائے گا کہ اگلے الیکشن کیسے ہوں گے؟ جیتنے والی پارٹی درست انداز میں جیتی تو آئندہ کے رخ کا تعین ہوجائے گا۔ بازو مروڑ کر جیتنے کی کوشش کی گئی تو پھر ن لیگ تو رہے گی لیکن سیاست کو دھچکا ضرور لگے گا۔


گزشتہ انتخابات میں جو الیکٹیبلز آزاد حیثیت میں جیتے تھے، اب انہیں ن لیگ کا سہارا لینے کی ضرورت پڑگئی۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ن لیگ کے خلاف جیت کر آئے، سخت باتیں بھی کیں، اب آزاد امیدواروں کے جیتنے کے مواقع زیادہ نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی ٹکٹ کے بغیر ان کا جیتنا مشکل ہے۔ اس الیکشن میں ن لیگ میں جانے والوں کی اخلاقی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اب یہ اپنے ووٹرز کو وزارتوں اور ترقیاتی کاموں کا جھانسہ دے رہے ہیں۔

یہ ضمنی انتخابات اب اسمبلی کی خالی سیٹوں کو بھرنے کے ساتھ ساتھ بیانیے اور کارکردگی کی جنگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے ہیوی ویٹس کے ساتھ اس بار کچھ نئے چہروں کو بھی میدان میں اتارا ہے۔ پی ٹی آئی وفاق کی طرح پنجاب میں بھی حکومت تبدیلی کو امریکی سازش سے منسوب کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ عوام میں مقبول تو ہوا ہے اور خیبرپختونخوا کے ووٹرز کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب رہا ہے، لیکن کیا یہ بیانہ پنجاب کے ووٹرز کے جذبات کو جگانے میں کامیاب رہے گا؟ ایک ایک حلقے پر نظر دوڑائی جائے تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ ن لیگ کےلیے مطلع صاف نہیں اور نہ پی ٹی آئی کےلیے یہ ابر رحمت ہونے کا کوئی امکان ہے۔ پی ٹی آئی کو دھند کا خدشہ ہے تو ن لیگ کو مطلع صاف ہونے کا یقین۔

اصل جوڑ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہے لیکن جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار بھی میدان میں ہیں، جو کسی بھی امیدوار کی جیت میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ مقابلہ سخت بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ حکومت کے سخت فیصلوں، مہنگائی نے ووٹرز کو متاثر کیا تو حمزہ شہباز کی ''پگ'' زمین پر گرسکتی ہے، چند دن کی عزت خاک ہوسکتی ہے۔ ریت پر بنائے گئے گھروندے میں کھڑے رہنے کی کتنی طاقت ہے، یہ فیصلہ اب عوام کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے تو پھونک سے گرادیں، چاہیں تو مضبوط بنیاد فراہم کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story