وزیراعظم کا چین میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب

جغرافیائی طور پر پاکستان واقعی عوامی جمہوریہ چین اور دنیا کے درمیان رابطے کا آسان اور سستا ذریعہ ہے


Editorial September 13, 2012
عالمی اقتصادی طاقتیں چاہیں توپاکستان کے حالات کو معمول پر لانے میں مدد فراہم کرکے چین ، منگولیا اور وسط ایشیا تک رسائی حاصل کرسکتیں ہیں. فوٹو: آئی این پی

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے چین میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ''پاکستان کے بارے میں بزنس انٹر ایکشن گروپ'' کے مباحثے کی سربراہی کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی دنیا کے لیے پاکستان توانائی' تجارت' سرمایہ کاری' نقل و حمل اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کی کثیر جہتی راہ گزر کے لیے رابطہ پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

معیشت کے تمام شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھلے ہیں۔ سرمایہ لے جانے پر کوئی پابندی نہیں اور سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش ملک ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے یہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔عوامی جمہوریہ چین پہلے ہی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

چینی کمپنیاں بڑے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھرپور معاونت کر رہی ہیں۔ بجلی کی پیداوار' ہیوی انڈسٹری، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں میں پاکستان چینی انجینئروں کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔بلوچستان میں سینڈک پراجیکٹ اور گوادر منصوبہ بھی سب کے سامنے ہے۔

پاکستانی منڈیاں چینی مال سے بھری پڑی ہیں۔ملبوستات ہوں یا جوتے ، الیکڑانک اشیاء ہوں یا سرامک، پاکستان میں چین کا مال ہر طرف نظر آتا ہے ۔ اس وقت توانائی اور دیگر شعبوں میں یورپین کمپنیاں بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں معدنیات کو نکالنے اور مزید معدنیات کی تلاش کے لیے بھی غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں۔ اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی والا ملک پاکستان بجلی کی پیداوار' تیل و گیس کی تلاش اور انفرااسٹرکچر کی ترقی کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پر کشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

قابل تجدید توانائی' سولر ٹیوب ویلوں اور پن بجلی کی پیداوار کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی اپنے دور میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی اور پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کیا۔ اب موجودہ وزیراعظم نے بھی اسی عمل کا اعادہ کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ غیر ملکیوں کے لیے پاکستان سرمایہ کاری کی جنت ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر انھیں اپنی جانب راغب نہیں کر پا رہا اور وہ اپنا سرمایہ یہاں لگانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

ادھر مقامی سرمایہ کار بھی مایوسی کا شکار ہے۔ جمہوریت کا تسلسل نہ ہونے اور سیاسی فضا میں غیر یقینی کے باعث یہاں اقتصادی پالیسیوں میں کبھی استحکام نہیں رہا اور ہر آنے والی حکومت اس میں ردوبدل کرتی رہی جس سے غیر ملکی سرمایہ کار کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی ، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، اغوا برائے تاوان اور جرائم کی وارداتوں نے بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کا خوف زدہ کر رکھا ہے اور وہ یہاں پر سرمایہ لگانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہی پر کیا بعید ملکی سرمایہ کار معیشت کی ترقی کے لیے فضا کو سازگار نہ پاتے ہوئے اپنا سرمایہ بڑی تیزی سے بیرون ملک منتقل کر رہا ہے ۔

توانائی کے بحران نے ملک میں موجود صنعتی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی صنعت کار اپنی ٹیکسٹائل صنعت بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے سے اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور عوام کی قوت خرید متاثر ہونے سے اشیاء کی مارکیٹ میں کھپت میں کمی کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے جو صنعتی ترقی کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ وزیراعظم غیر ملکی سرمایہ کاروں کا دعوت تو دے رہے ہیں لیکن کیا ان کے لیے یہاں وہ تمام سہولتیں موجود ہیں جو معاشی افزونی کے لیے بنیادی جز ہیں۔

پر امن ماحول' سستی لیبر اور مضبوط انتظامی انفراسٹرکچر موجود ہو تو سرمایہ خود بخود اس جانب کھنچا چلا آتا ہے مگر جہاں ان چیزوں کا فقدان ہو وہاں موجود سرمایہ بھی بیرون ملک پرواز کر جاتا ہے۔ اس وقت ریلوے کی زبوں حالی کے باعث ملکی معیشت اور کاروباری نقل و حمل کو دھچکا لگا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہے۔ ٹریفک قوانین کا احترام نہ ہونے کے باعث ٹریفک گھنٹوں جام رہتی ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کار اسی وقت آئے گا جب اسے یہاں معاشی ماحول ساز گار ملے گا۔ سرمایہ کاری کی صورت میں جب اسے طویل لوڈشیڈنگ' دہشت گردی کی وارداتوں' جرائم' بجلی' گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیداواری لاگت کے متاثر ہونے کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ اپنا سرمایہ فوری طور پر بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ پاکستان میں بہت سے شعبوں میں چینی اور یورپین کمپنیاں سرمایہ کاری تو کر رہی ہیں مگر یہ سرمایہ کاری محدود پیمانے پر ہو رہی ہے۔ اگر حکومت ملک میں بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی خواہشمند ہے تو اسے یہاں کی صورتحال بھی بہتر بنانا ہو گی۔

جہاں تک راہگزر کا تعلق ہے تو جغرافیائی طور پر پاکستان واقعی عوامی جمہوریہ چین اور دنیا کے درمیان رابطے کا آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ چین کے لیے مڈل ایسٹ اور افریقہ تک رسائی بحر ہند سے ممکن ہے۔ اسی طرح بحر ہند کے ممالک کے لیے چین تک رسائی پاکستان سے ممکن ہے۔ لیکن اس موقع سے فائدہ بھی اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب یہاں امن ہوگا بہرحال عالمی اقتصادی طاقتیں چاہیں توپاکستان کے حالات کو معمول پر لانے میں مدد فراہم کرکے چین ، منگولیا اور وسط ایشیا تک رسائی حاصل کرسکتیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں