آئینی و قانونی معاملات میں مصا لحت کی گنجائش
پنچایتی اور جرگہ کے نظام انصاف میں فوری انصاف تو ممکن ہے لیکن یہ نظام انصاف کسی آئین وقانون کے پابند نہیں ہیں
سپریم کورٹ کے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے فیصلے کے حوالے سے ایک شور ہے کہ یہ فیصلہ آئین و قانون کے بجائے مفاہمتی فیصلہ ہے۔ بہر حال یہ ایک Consentآرڈر تھا ۔ یعنی ایک ایسا حکم جو فریقین کے درمیان عدالت کے باہر ہونیوالے ایک معاہدہ کی وجہ سے دیا گیا۔ ایسے احکامات پر آئین وقانون کی وہ حد لاگو نہیں ہوتی جوان عدالتی فیصلوں پر ہوتی ہے جو عدالت فریقین کو سن کر کرتی ہے۔ عدالت بہر حال آئین و قانون کی پابند ہے جبکہ فریقین باہمی معاہدہ کرتے ہوئے آئین وقانون کے اس طرح پابند نہیں ہوتے۔
پنچایتی اور جرگہ کے نظام انصاف میں فوری انصاف تو ممکن ہے لیکن یہ نظام انصاف کسی آئین وقانون کے پابند نہیں ہیں۔ ان کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ پنچایت کے ارکان اور سرپنچ برابر کے انصاف کے بھی پابند نہیں ہوتے' ان کی مرضی یہ ان کی دانائی اور صوابدید پر منحصر ہے کہ کسی جرم پر نرم سزا دیں یا سخت سزا دیں۔ اس لیے پنچایتی نظام کے ہوتے ہوئے عدالتی نظام بنایا گیا تا کہ پنچایتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جا سکے۔
جرگہ میں بھی ایسی خامیاں موجود ہیں ۔ جرگہ بھی کسی قانون اور آئین کا پابند نہیں ہے۔ پھر پنچایت کے سرپنچ اور جرگہ کے سردار کسی تعلیمی قابلیت قانون کی سمجھ بوجھ یا انصاف کے ماہر ہونے کی وجہ سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے منتخب ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی سماجی حیثیت ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے۔ پنچایتی اور جرگہ کا نظام انصاف کسی انسانی حقوق کا بھی پابند نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف جدید عدالتی نظام باقاعدہ ریاست کے آئین وقانون کا پابند ہوتا ہے۔ اس میں اپیل کا حق ہے۔ غلط فیصلوں کو درست کرنے کا راستہ موجود ہے۔ امیر اور غریب کے لیے ایک جیسے قانون بنائے گئے ہیں اور عدالتوں کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ امیر و غریب کے ساتھ برابر انصاف کر سکیں۔ ترقی یافتہ دنیا نے عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے اس میں ہی جیوری کا نظام بھی متعارف کروایا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیوری نے عدالتی انصاف کے اندر بہت سی خامیوں کو دور کیا ہے۔ اس میں انصاف کی فراہمی میں عام آدمی کی شمولیت ممکن ہوئی ہے۔ کسی کو مجرم قرار دینے کا اختیار جج سے جیوری کو دیا گیا ہے۔
لیکن یہ صرف فوجداری مقدمات میں ہوا ہے۔ آئینی و قانون معاملات جج ہی طے کرتے ہیں۔ اسی طرح دیوانی معاملات میں بھی جج اور عدالتی نظام کی بالادستی موجود ہے۔ اس لیے جیوری کے نظام میں بھی عدالتی نظام کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ آئین و قانون کی پابندی نے عدالتی نظام انصاف کو پرانے نظام انصاف پر ترجیح دی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام کے اندر رہتے ہوئے مصالحتی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہے۔ جہاں فریقین کو باہمی تنازعات مصالحت سے طے کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا صرف باہمی تنازعات میں ہی ہونا چاہیے۔
لین دین اور دیگر باہمی تنازعات میں فریقین کو مصالحت کا موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن قتل اور دیگر فوجداری جرائم میں مصالحت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی لیے جدید نظام انصاف میں سنگین جرائم میں ریاست کو خود بھی مدعی بننے کا اختیار دیا گیا۔ اس کا واحد مقصد مصالحت اور مفاہمت کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے روکنا ہے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ اب اگر مخالف فریق ملزم کو معاف بھی کر دے تو ریاست سزا دے سکتی ہے۔ کیونکہ جرم بہر حال جرم ہے۔ اس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ پنچایت اور جرگہ کے نظام میں یہ خامی تھی۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں آئینی معاملات میں مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کسی ایک اہم آئینی نقطہ پر فریقین کے درمیان مصا لحت اگر آئین و قانون کے تا بع نہیں ہے تو اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دو فریقین کی باہمی رضامندی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی دو فریق مل کر ملک کے آئین و قانون سے انحراف نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے عدالتی نظام نے پہلے ہی نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کر کے نظام انصاف ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت ماضی میں دیے گئے فیصلے کوئی قابل تقلید نہیں سمجھے جاتے۔ عدلیہ خود بھی ان نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلوں کو قابل فخر نہیں سمجھتی ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلوں میں آئین و قانون سے انحراف نظر آتا ہے۔ یہ فیصلے بے شک حالات و واقعات کے تحت بہترین ہیں۔
لیکن آئین و قانون کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے اچھے نہیں سمجھے جاتے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ہم نے دیکھا ہے کہ نظریہ ضرورت کے بعد نظریہ اخلاقیات کو بھی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہم نے دیکھاکہ اعلیٰ عدلیہ نے آئینی معاملات کو اخلاقیات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بات اخلاقی ہے یا نہیں۔حالانکہ یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے وہ ملک کا آئین وقانون اخلاقیات کے تحت بنائے۔ عدلیہ کا کام ہے جو بھی آئین وقانون موجود ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی اس کے تحت فیصلے کرے۔جو کام ان کا نہیں ہے وہ انہیں نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کے آئین وقانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ارکان اسمبلی اگر ملک سے باہر ہوں تو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کا انتخاب ملتوی کر دیا جائے۔ کسی ووٹر کے بیرون ملک ہونے کے باعث انتخاب ملتوی ہونے کی آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کسی بھی وجہ سے ایوان کی کچھ سیٹیں خالی ہیں اور ان پر ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں تو ایسے میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی ہونے کی آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ کیا یہ دلیل آئین و قانون کے مطابق ہے کہ ایوان مکمل نہیں اس لیے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی کر دیا جائے۔ ایسے معاملات سے نبٹنے کے لیے آئین میں عدم اعتماد کا راستہ موجود ہے۔ لیکن انتخاب ملتوی کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے ضمنی انتخاب کے نتائج تک وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی کرنے پر اگر فریقین نے مصا لحت اور مفاہمت بھی کر لی ہے تو یہ آئین وقانون کے دائرے میں نہیں ہے۔ ارکان ملک میں نہیں چاہے حج پر ہی گئے ہیں۔آئین میں اس بنیاد پر بھی انتخاب ملتوی ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
میری صرف اتنی گزارش ہے کہ آئینی و قانونی معاملات کے فیصلے آیندہ کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ ان کا ملک میں آئین وقانون کی سربلندی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ آئین کی سربلندی ہی جمہوریت کی سربلندی ہے۔ آئین سے باہر دیے گئے فیصلے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں وہ جمہوریت کے لیے اچھے نہیں ہیں۔
پنچایتی اور جرگہ کے نظام انصاف میں فوری انصاف تو ممکن ہے لیکن یہ نظام انصاف کسی آئین وقانون کے پابند نہیں ہیں۔ ان کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ پنچایت کے ارکان اور سرپنچ برابر کے انصاف کے بھی پابند نہیں ہوتے' ان کی مرضی یہ ان کی دانائی اور صوابدید پر منحصر ہے کہ کسی جرم پر نرم سزا دیں یا سخت سزا دیں۔ اس لیے پنچایتی نظام کے ہوتے ہوئے عدالتی نظام بنایا گیا تا کہ پنچایتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جا سکے۔
جرگہ میں بھی ایسی خامیاں موجود ہیں ۔ جرگہ بھی کسی قانون اور آئین کا پابند نہیں ہے۔ پھر پنچایت کے سرپنچ اور جرگہ کے سردار کسی تعلیمی قابلیت قانون کی سمجھ بوجھ یا انصاف کے ماہر ہونے کی وجہ سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے منتخب ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی سماجی حیثیت ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے۔ پنچایتی اور جرگہ کا نظام انصاف کسی انسانی حقوق کا بھی پابند نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف جدید عدالتی نظام باقاعدہ ریاست کے آئین وقانون کا پابند ہوتا ہے۔ اس میں اپیل کا حق ہے۔ غلط فیصلوں کو درست کرنے کا راستہ موجود ہے۔ امیر اور غریب کے لیے ایک جیسے قانون بنائے گئے ہیں اور عدالتوں کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ وہ امیر و غریب کے ساتھ برابر انصاف کر سکیں۔ ترقی یافتہ دنیا نے عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے اس میں ہی جیوری کا نظام بھی متعارف کروایا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیوری نے عدالتی انصاف کے اندر بہت سی خامیوں کو دور کیا ہے۔ اس میں انصاف کی فراہمی میں عام آدمی کی شمولیت ممکن ہوئی ہے۔ کسی کو مجرم قرار دینے کا اختیار جج سے جیوری کو دیا گیا ہے۔
لیکن یہ صرف فوجداری مقدمات میں ہوا ہے۔ آئینی و قانون معاملات جج ہی طے کرتے ہیں۔ اسی طرح دیوانی معاملات میں بھی جج اور عدالتی نظام کی بالادستی موجود ہے۔ اس لیے جیوری کے نظام میں بھی عدالتی نظام کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ آئین و قانون کی پابندی نے عدالتی نظام انصاف کو پرانے نظام انصاف پر ترجیح دی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام کے اندر رہتے ہوئے مصالحتی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہے۔ جہاں فریقین کو باہمی تنازعات مصالحت سے طے کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا صرف باہمی تنازعات میں ہی ہونا چاہیے۔
لین دین اور دیگر باہمی تنازعات میں فریقین کو مصالحت کا موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن قتل اور دیگر فوجداری جرائم میں مصالحت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی لیے جدید نظام انصاف میں سنگین جرائم میں ریاست کو خود بھی مدعی بننے کا اختیار دیا گیا۔ اس کا واحد مقصد مصالحت اور مفاہمت کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے روکنا ہے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ اب اگر مخالف فریق ملزم کو معاف بھی کر دے تو ریاست سزا دے سکتی ہے۔ کیونکہ جرم بہر حال جرم ہے۔ اس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ پنچایت اور جرگہ کے نظام میں یہ خامی تھی۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں آئینی معاملات میں مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کسی ایک اہم آئینی نقطہ پر فریقین کے درمیان مصا لحت اگر آئین و قانون کے تا بع نہیں ہے تو اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دو فریقین کی باہمی رضامندی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی دو فریق مل کر ملک کے آئین و قانون سے انحراف نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے عدالتی نظام نے پہلے ہی نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کر کے نظام انصاف ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت ماضی میں دیے گئے فیصلے کوئی قابل تقلید نہیں سمجھے جاتے۔ عدلیہ خود بھی ان نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلوں کو قابل فخر نہیں سمجھتی ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت دیے گئے فیصلوں میں آئین و قانون سے انحراف نظر آتا ہے۔ یہ فیصلے بے شک حالات و واقعات کے تحت بہترین ہیں۔
لیکن آئین و قانون کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے اچھے نہیں سمجھے جاتے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ہم نے دیکھا ہے کہ نظریہ ضرورت کے بعد نظریہ اخلاقیات کو بھی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہم نے دیکھاکہ اعلیٰ عدلیہ نے آئینی معاملات کو اخلاقیات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بات اخلاقی ہے یا نہیں۔حالانکہ یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے وہ ملک کا آئین وقانون اخلاقیات کے تحت بنائے۔ عدلیہ کا کام ہے جو بھی آئین وقانون موجود ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی اس کے تحت فیصلے کرے۔جو کام ان کا نہیں ہے وہ انہیں نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کے آئین وقانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ارکان اسمبلی اگر ملک سے باہر ہوں تو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کا انتخاب ملتوی کر دیا جائے۔ کسی ووٹر کے بیرون ملک ہونے کے باعث انتخاب ملتوی ہونے کی آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کسی بھی وجہ سے ایوان کی کچھ سیٹیں خالی ہیں اور ان پر ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں تو ایسے میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی ہونے کی آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ کیا یہ دلیل آئین و قانون کے مطابق ہے کہ ایوان مکمل نہیں اس لیے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی کر دیا جائے۔ ایسے معاملات سے نبٹنے کے لیے آئین میں عدم اعتماد کا راستہ موجود ہے۔ لیکن انتخاب ملتوی کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے ضمنی انتخاب کے نتائج تک وزیر اعلیٰ کا انتخاب ملتوی کرنے پر اگر فریقین نے مصا لحت اور مفاہمت بھی کر لی ہے تو یہ آئین وقانون کے دائرے میں نہیں ہے۔ ارکان ملک میں نہیں چاہے حج پر ہی گئے ہیں۔آئین میں اس بنیاد پر بھی انتخاب ملتوی ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
میری صرف اتنی گزارش ہے کہ آئینی و قانونی معاملات کے فیصلے آیندہ کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ ان کا ملک میں آئین وقانون کی سربلندی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ آئین کی سربلندی ہی جمہوریت کی سربلندی ہے۔ آئین سے باہر دیے گئے فیصلے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں وہ جمہوریت کے لیے اچھے نہیں ہیں۔