اسلام آباد کچہری حملہ کیس سپریم کورٹ کاچیف کمشنراورآئی جی کی رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار

آئی جی اورچیف کمشنرحملہ آوروں کی تعداد نہیں بتاسکتے، دارالحکومت میں یہ صورتحال ہے تو باقی شہروں میں کیا ہوگا، چیف جسٹس


ویب ڈیسک March 10, 2014
واقعے کی تحقیقات کے لئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بن گئی ہے، چیف کمشنر فوٹو: فائل فوٹو: فائل

KARACHI: سپریم کورٹ نے اسلام آباد کچہری حملہ کیس میں چیف کمشنر اور آئی جی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کو دو ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اسلام آباد کچہری پر حملے کے از خود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران آئی جی پولیس اسلام آباد نے تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی جس میں کہا گیا کہ کچہری میں حملہ کرنے والے 2 تھے جنہوں نے فائرنگ کرنے کے بعد خود کو بھی دھماکے سے اڑا لیا، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کہتے ہیں کہ حملہ آور کافی زیادہ تھے۔ دوسری جانب چیف کمشنر اسلام آباد کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آور 2 سے زیادہ تھے، واقعے کی تحقیقات کے لئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بن گئی ہے جس نے اب تک 154 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے حملہ آوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوئی کوشش کی، واقعے کے بعد اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے بلاک کئے گئے یا پھر واقعے کے بعد حملہ آوروں کا پیچھا کیا گیا؟، آئی جی اور چیف کمشنر دونوں حملہ آوروں کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہیں، جب وفاقی دارالحکومت میں یہ صورتحال ہے تو باقی شہروں میں کیا ہوگا۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اسلام آباد کے مقابلے میں دیگر شہروں کی عدالتوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے اور حملہ آور فرار ہوتے ہیں تو پولیس عملی کارروائی کے بجائے لکیریں پیٹتی رہتی ہیں۔سماعت کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے جج رفاقت اعوان کی عدالت کے پیش کار خالد نون نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان سے مرضی کا بیان لینے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے، اس نے خود دیکھا کہ ایک شخص کمرے میں داخل ہوا اور اس نے فائرنگ کرکے رفاقت اعوان کو ہلاک کیا جبکہ پولیس چاہتی ہے کہ وہ بیان دے کہ کوئی بھی شخص کمرہ عدالت میں داخل نہیں ہوارفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ جس پر رفاقت اعوان کے بھائی نے خالد نون کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت میں فائرنگ کا کوئی نشان نہیں، کیا حملہ آور ہرکولیس تھا جس کی ایک لات پر دروازہ کھل گیا اور حملہ آور نے فائرنگ ہی کرناتھی تو جج کے علاوہ کوئی دوسرا فرد نشانہ کیوں نہیں بنا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں