نہ ہونے سے کچھ ہونا …
پیپلز پارٹی کی حکومت نے 14 برس میں چند بسیں پرانے طریقہ کار کے تحت چلائیں تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا
کراچی میں پیپلز بس سروس کا آغاز ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے 14سال کے طویل دور حکومت میں پہلی دفعہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں کے لیے کچھ ہوا ہے مگر کراچی والوں کو اس کے ساتھ یہ خبر بھی ملی ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے مستقبل قریب میں شروع ہونے کے امکانات نہیں ہیں ، اگر چین نے سی پیک منصوبے کے تحت سرمایہ کاری پر اتفاق کیا تو شاید اس منصوبے پر پیش رفت ممکن ہوسکے۔
بلاول بھٹو زرداری نے چین سے درآمد کی گئی، ایئرکنڈیشن بس سروس کا افتتاح کیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ، شرجیل میمن ، مرتضی وہاب اور شرمیلا فاروقی نے بھی اس ایئرکنڈیشن بس کا لطف اٹھایا ، وزیر محنت سعید غنی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
بتایا گیا ہے کہ چین سے 250 بسیں در آمد کی جارہی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کراچی پہنچ گئی ہیں اور کچھ بحری جہاز پر لاد دی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ بسیں دو روٹ پر چلیں گی، کم از کم کرایہ 25 روپے اور زیادہ سے زیادہ 50 روپے ہوگا۔ مستقبل میں 6 روٹس پر یہ بس دوڑیں گی۔ ان بسوں کے لیے اس طرح کے ٹریک تعمیر نہیں کیے گئے ہیں جس طرح کے ٹریک لاہور ، ملتان ، اسلام آباد اور پشاور میں تعمیر ہوئے ہیں۔ لاہور ، ملتان اور اسلام آباد کی میٹرو بس کا کرایہ طے شدہ 30 روپے ہے اور علیحدہ ٹریک ہونے کی بناء پر وہ اپنی منزل پر طے شدہ وقت کے مطابق پہنچتی ہیں۔
کراچی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گرین بس سروس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ اس بس سروس کے لیے علیحدہ ٹریک تعمیر ہوا ، اگرچہ طویل عرصہ تک یہ منصوبہ زیرِ التواء رہا مگر اب بڑا بورڈ سے پرانی نمائش تک یہ سفر کا جدید ذریعہ ہے۔اس منصوبے کو اورنگی سے ملانے کے لیے سندھ حکومت کا منصوبہ تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔
کراچی میں ایک زمانے میں بسوں کا جدید نظام تھا ، ڈبل ٹریک بسیں اور ٹرام چلا کرتی تھیں۔ کراچی میں جب دور دراز علاقوں میں نئی بستیاں آباد ہوئیں تو پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا۔ 60ء کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے تعمیر ہوئی ، یوں پپری اور لانڈھی سے شہر آنے کی بہتر اور سستی سواری عام آدمی کو میسر آئی۔ دوسری طرف سرکلر ریلوے سائٹ ایریا کو مرکزی ریلوے لائن کے ذریعہ لانڈھی سے منسلک کرتی تھی۔
کراچی میں بڑے تجارتی گروپوں نے مختلف روٹس پر بسیں چلانا شروع کیں مگر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (KTC) سرکاری سطح پر قائم ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سویڈن نے جدید ایئرکنڈیشن بسوں کا ایک فلیٹ تحفے کے طور پر دیا تھا ، اگرچہ یہ بالکل نئی نہیں تھیں مگر شہریوں کے لیے یہ نعمت سے کم نہیں تھی۔ کے ٹی سی اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی جامعہ میں آمد و رفت کے لیے بسوں کا ایک فلیٹ فراہم کرتی تھی مگر کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی کو نظرانداز کرنا شروع کیا ، بدعنوانی کا کلچر تقویت پانے لگا۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں ہی ٹرانسپورٹ مافیا طاقتور ہونے لگی اور یہ تجویز منظور ہوئی کہ ٹرام وے سروس کو ختم کیا جائے۔ بیوروکریسی کے کارندوں اور پولیس کے اہلکاروں نے یہ منطق پیش کی کہ ٹرام سے سڑک پر رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ اس وقت اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ دنیا کے جدید شہروں میں اندرون شہر یہ ٹرام سروس آمدورفت کا بہتر ذریعہ ہے۔
ریلوے کے نظام میں خرابیوں سے سرکلر ریلوے کی افادیت کم کرنی شروع کی۔ ریل گاڑیاں لیٹ ہونے لگیں اور ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہونے شروع ہوئیں۔ ریلوے کا خسارہ بڑھنے لگا اور کے سی آر لاپتہ ہوگئی۔ 1986 میں کراچی میں خون ریز فسادات ہوئے۔ اگرچہ ان فسادات کو بظاہر لسانی فسادات کہا گیا مگر حقیقتاً ان فسادات کی بنیادی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا دم توڑتا نظام تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں صرف مسافروں کی عزت نفس ہی متاثر نہیں ہوتی تھی بلکہ مرغا بن کر سفر کرنے سے جسمانی ساخت بھی بری متاثر ہوتی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کا ذکر تو ہوا مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ماس ٹرانزٹ پروگرام کا سنگِ بنیاد رکھا لیکن حکومت کی توجہ دیگر معاملات کی طرف مبذول ہوگئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں لاہور اور اسلام آباد موٹر وے کا منصوبہ شروع کیا ، یوں ملک میں بین الاقوامی معیار کی سڑکوں کی تعمیر کی بنیاد رکھی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ کراچی کی ترقی میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔
ان کی کم عمری اور جوانی کا ایک مختصر حصہ ناظم آباد میں گزار تھا۔ ان کے دورِ اقتدار میں بلدیاتی نظام کے ذریعہ ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔ شہر میں اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر ہوئے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔
پہلے سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کی کوششوں سے نئی بسیں چلنے لگیں۔ مختلف علاقوں کے لیے سیٹ بائی سیٹ چھوٹی گاڑیاں بھی چلیں مگر پھر یہ سب کچھ عارضی ثابت ہوا۔ شہر میں ڈیزل اور پٹرول اور سی این جی کے نرخ بڑھنے سے منافع کی شرح کم ہوئی۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث ٹرانسپورٹ مالکان کو اس کاروبار سے مایوسی ہونے لگی اور بسوں کی تعداد کم ہونے لگی، آخرکار بڑی بسیں غائب ہوگئیں۔ ایک زمانہ میں نیو کراچی سے ٹاور تک W-11چلنے والی مزدا بہت مشہور تھیں۔ یہ منی بسیں ساری رات چلتی تھیں مگر اب یہ روٹ بھی مردہ ہوچکا ہے۔
پیپلز پارٹی سے بڑی امیدیں تھیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں چین کے ان گنت دورے کیے مگر وہ کراچی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے ایسی کوئی اسکیم نہیں لائے جیسی شہباز شریف ترکی سے میٹرو بس کے جدید ٹریک کی تعمیر کا منصوبہ لائے اور اس کو عملی طور پر لاہور میں نافذ بھی کیا۔ سندھ کی حکومت نے بھی سرکلر ریلوے کی بحالی کے کام پر دلچسپی نہیں لی۔
جب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ بنے تو انھوں نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ چین سی پیک کے تحت اس منصوبے کے لیے قرضہ فراہم کرے گا۔ اس زمانہ میں جاپان کا ادارہ جائیکا سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ تیار کرچکا تھا مگر جاپان کے اس ادارہ کو منع کردیا گیا۔ چین نے اس منصوبہ میں خاطر خواہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے حکم پر سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تعمیر ہونے والی تجاوزات کو ختم کیا گیا ، یوں ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے محروم کیا گیا۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید سرکلر ریلوے کی بحالی کی نوید سناتے رہے مگر حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔ اب ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کراچی کے دورہ میں واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں، آخری امید چین کی حکومت ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے 14 برس میں چند بسیں پرانے طریقہ کار کے تحت چلائیں تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ حکومت سندھ گزشتہ 14 برس سے مختلف ناموں سے بسوں کو چلانے کے روٹس کا اعلان کرتی ہے مگر ابھی تک کوئی روٹ شروع نہیں ہو پایا ، مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال اس مہنگائی کے دور میں سیکڑوں مسافر سکون سے سفر کرسکیں گے، کراچی والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے چین سے درآمد کی گئی، ایئرکنڈیشن بس سروس کا افتتاح کیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ، شرجیل میمن ، مرتضی وہاب اور شرمیلا فاروقی نے بھی اس ایئرکنڈیشن بس کا لطف اٹھایا ، وزیر محنت سعید غنی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
بتایا گیا ہے کہ چین سے 250 بسیں در آمد کی جارہی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو کراچی پہنچ گئی ہیں اور کچھ بحری جہاز پر لاد دی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ بسیں دو روٹ پر چلیں گی، کم از کم کرایہ 25 روپے اور زیادہ سے زیادہ 50 روپے ہوگا۔ مستقبل میں 6 روٹس پر یہ بس دوڑیں گی۔ ان بسوں کے لیے اس طرح کے ٹریک تعمیر نہیں کیے گئے ہیں جس طرح کے ٹریک لاہور ، ملتان ، اسلام آباد اور پشاور میں تعمیر ہوئے ہیں۔ لاہور ، ملتان اور اسلام آباد کی میٹرو بس کا کرایہ طے شدہ 30 روپے ہے اور علیحدہ ٹریک ہونے کی بناء پر وہ اپنی منزل پر طے شدہ وقت کے مطابق پہنچتی ہیں۔
کراچی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گرین بس سروس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ اس بس سروس کے لیے علیحدہ ٹریک تعمیر ہوا ، اگرچہ طویل عرصہ تک یہ منصوبہ زیرِ التواء رہا مگر اب بڑا بورڈ سے پرانی نمائش تک یہ سفر کا جدید ذریعہ ہے۔اس منصوبے کو اورنگی سے ملانے کے لیے سندھ حکومت کا منصوبہ تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔
کراچی میں ایک زمانے میں بسوں کا جدید نظام تھا ، ڈبل ٹریک بسیں اور ٹرام چلا کرتی تھیں۔ کراچی میں جب دور دراز علاقوں میں نئی بستیاں آباد ہوئیں تو پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا۔ 60ء کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے تعمیر ہوئی ، یوں پپری اور لانڈھی سے شہر آنے کی بہتر اور سستی سواری عام آدمی کو میسر آئی۔ دوسری طرف سرکلر ریلوے سائٹ ایریا کو مرکزی ریلوے لائن کے ذریعہ لانڈھی سے منسلک کرتی تھی۔
کراچی میں بڑے تجارتی گروپوں نے مختلف روٹس پر بسیں چلانا شروع کیں مگر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (KTC) سرکاری سطح پر قائم ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سویڈن نے جدید ایئرکنڈیشن بسوں کا ایک فلیٹ تحفے کے طور پر دیا تھا ، اگرچہ یہ بالکل نئی نہیں تھیں مگر شہریوں کے لیے یہ نعمت سے کم نہیں تھی۔ کے ٹی سی اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی جامعہ میں آمد و رفت کے لیے بسوں کا ایک فلیٹ فراہم کرتی تھی مگر کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی کو نظرانداز کرنا شروع کیا ، بدعنوانی کا کلچر تقویت پانے لگا۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں ہی ٹرانسپورٹ مافیا طاقتور ہونے لگی اور یہ تجویز منظور ہوئی کہ ٹرام وے سروس کو ختم کیا جائے۔ بیوروکریسی کے کارندوں اور پولیس کے اہلکاروں نے یہ منطق پیش کی کہ ٹرام سے سڑک پر رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ اس وقت اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ دنیا کے جدید شہروں میں اندرون شہر یہ ٹرام سروس آمدورفت کا بہتر ذریعہ ہے۔
ریلوے کے نظام میں خرابیوں سے سرکلر ریلوے کی افادیت کم کرنی شروع کی۔ ریل گاڑیاں لیٹ ہونے لگیں اور ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہونے شروع ہوئیں۔ ریلوے کا خسارہ بڑھنے لگا اور کے سی آر لاپتہ ہوگئی۔ 1986 میں کراچی میں خون ریز فسادات ہوئے۔ اگرچہ ان فسادات کو بظاہر لسانی فسادات کہا گیا مگر حقیقتاً ان فسادات کی بنیادی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا دم توڑتا نظام تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں صرف مسافروں کی عزت نفس ہی متاثر نہیں ہوتی تھی بلکہ مرغا بن کر سفر کرنے سے جسمانی ساخت بھی بری متاثر ہوتی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کا ذکر تو ہوا مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ماس ٹرانزٹ پروگرام کا سنگِ بنیاد رکھا لیکن حکومت کی توجہ دیگر معاملات کی طرف مبذول ہوگئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں لاہور اور اسلام آباد موٹر وے کا منصوبہ شروع کیا ، یوں ملک میں بین الاقوامی معیار کی سڑکوں کی تعمیر کی بنیاد رکھی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ کراچی کی ترقی میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔
ان کی کم عمری اور جوانی کا ایک مختصر حصہ ناظم آباد میں گزار تھا۔ ان کے دورِ اقتدار میں بلدیاتی نظام کے ذریعہ ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔ شہر میں اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر ہوئے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔
پہلے سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کی کوششوں سے نئی بسیں چلنے لگیں۔ مختلف علاقوں کے لیے سیٹ بائی سیٹ چھوٹی گاڑیاں بھی چلیں مگر پھر یہ سب کچھ عارضی ثابت ہوا۔ شہر میں ڈیزل اور پٹرول اور سی این جی کے نرخ بڑھنے سے منافع کی شرح کم ہوئی۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث ٹرانسپورٹ مالکان کو اس کاروبار سے مایوسی ہونے لگی اور بسوں کی تعداد کم ہونے لگی، آخرکار بڑی بسیں غائب ہوگئیں۔ ایک زمانہ میں نیو کراچی سے ٹاور تک W-11چلنے والی مزدا بہت مشہور تھیں۔ یہ منی بسیں ساری رات چلتی تھیں مگر اب یہ روٹ بھی مردہ ہوچکا ہے۔
پیپلز پارٹی سے بڑی امیدیں تھیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں چین کے ان گنت دورے کیے مگر وہ کراچی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے ایسی کوئی اسکیم نہیں لائے جیسی شہباز شریف ترکی سے میٹرو بس کے جدید ٹریک کی تعمیر کا منصوبہ لائے اور اس کو عملی طور پر لاہور میں نافذ بھی کیا۔ سندھ کی حکومت نے بھی سرکلر ریلوے کی بحالی کے کام پر دلچسپی نہیں لی۔
جب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ بنے تو انھوں نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ چین سی پیک کے تحت اس منصوبے کے لیے قرضہ فراہم کرے گا۔ اس زمانہ میں جاپان کا ادارہ جائیکا سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ تیار کرچکا تھا مگر جاپان کے اس ادارہ کو منع کردیا گیا۔ چین نے اس منصوبہ میں خاطر خواہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے حکم پر سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تعمیر ہونے والی تجاوزات کو ختم کیا گیا ، یوں ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے محروم کیا گیا۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید سرکلر ریلوے کی بحالی کی نوید سناتے رہے مگر حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔ اب ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کراچی کے دورہ میں واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں، آخری امید چین کی حکومت ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے 14 برس میں چند بسیں پرانے طریقہ کار کے تحت چلائیں تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ حکومت سندھ گزشتہ 14 برس سے مختلف ناموں سے بسوں کو چلانے کے روٹس کا اعلان کرتی ہے مگر ابھی تک کوئی روٹ شروع نہیں ہو پایا ، مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال اس مہنگائی کے دور میں سیکڑوں مسافر سکون سے سفر کرسکیں گے، کراچی والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔