انسان کا المیہ
جب سارا زور ہی مالی وسائل پر ہوگیا تو بچے کے اندر انسان کون پیداکرے گا
MADRID:
پرانی پاکستانی فلموں کاایک مزاحیہ اداکارتھا لہری ہوا کرتا تھا، لہری کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ادھر ادھرکی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے مزاح نہیں پیدا کرتاتھابلکہ مکالموں کے ذریعے بہت نفیس قسم کا مزاح پیدا کرتا تھا، سناہے اس کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ وہ کسی کے لکھے ہوئے جملے نہیں بولتاتھا بلکہ خود ہی موقع کی مناسبت سے مکالمہ بولتا تھا۔
بعد کے زمانوں میں وہ عمرشریف کے اسٹیج شوزوغیرہ میں بھی آتا تھا،ایک پروگرام میں ایک نوجوان اس سے ملتاہے تولہری بولتا ہے،بھئی کیسے ہو برخوردار، کہاں ہوتے ہو، آج کل دکھائی نہیں دیتے۔ نوجوان کہتاہے، انکل میں نے دوبھینسیں خریدلی ہیں، انھیں پالتاہوں اوردودھ بیچتا ہوں۔ اس پر لہری کہتاہے، ہاں برخوردار، یہ فیمیل کی کمائی ہے ہی ایسی کہ ایک دفعہ جس کاچسکاپڑجائے تو چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی۔
اداکار لہری نے مزاح کے پیرائے میں حقیقت بیان کی ہے، واقعی جن لوگوں کو فیمیل کی کمائی کا چسکا پڑجاتا ہے، وہ کسی کام کا نہیں رہتا اور یہ ''سعادت'' مردوں کو آسانی سے حاصل نہیں ہوئی ہے،اس کے لیے اس نے ''برین واش''عورت کے آگے آزادی، برابری اورہمسری کی ایسی بانسری بجائی ہے کہ وہ صرف یہ ''اعزاز'' حاصل کرنے کے لیے کہ عورت کسی سے کم نہیں ہے، عورت زیادہ باصلاحیت ہے، عورت سب کچھ کر سکتی ہے، عورت صنف نازک نہیں صرف کرخت ہے۔
تعریف تو بڑی جان لیواچیزاورسرچڑھ کر بولنے والا جادو ہے، اس لیے صدیوں سے دماغ کے کثرت استعمال سے اپنے ذہن کو شیطانی بنانے والے مرد نے یہی حربہ استعمال کیاکہ عورت یہ بھی کرسکتی ہے، وہ بھی کرسکتی ہے، سب کچھ کرسکتی ہے بلکہ مردسے زیادہ اوراچھاکرسکتی ہے۔
اسے پتہ بھی نہیں چلاکہ مرد نے اسے ایک اور''دام'' میں پھنسا لیا،اپنے حصے کاکام بھی اس سے کروانے لگا۔اب یہاں ان دونوں مرد وعورت کے بارے میں تھوڑی سی علمی جانکاری بھی ضروری ہے۔
یہ بات میں اکثراپنے کالموں میں بتاتا ہوں کہ اس سارے عالم تحقیق وتکوین یعنی کائنات میں ہرہرجگہ ایک نظام ''تنویت'' یانظام ازواج جاری وساری ہے ، ہرہرمقام پرجو بھی پیدائش ہوتی ہے، ارتقاہوتی ہے، حرکت ہوتی ہے تو اس میں منفی اورمثبت کی یکجائی لازم ہے اوریہ پوری کائنات جس زوج پر مشتمل ہے وہ ہے ''مادے اورتوانائی'' کا زوج۔ اکیلے مادہ بھی بیکار ، بے جان اور بے حرکت ہوتاہے اورتوانائی بھی مادے کے بغیرنامکمل اوربے قرار محض ہوتی ہے۔
مادے کو پانچ انسانی حواس سے معلوم کیاجاسکتاہے لیکن توانائی کسی بھی انسانی حس سے معلوم نہیںکی جاسکتی، صرف مادے کے ساتھ ملن کے بعداس کی کارکردگی کا پتہ چلتاہے، اس سلسلے میں اکثربجلی کی مثال دی جاتی ہے جوتوانائی کی شکل ہے لیکن اگر اسے مادی تاروں کھمبوں اور دوسرے لوازمات کی مدد حاصل نہ ہوتو کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ مادی آلات، مشینوں، موٹروں، بلبوں وغیرہ میں جاکر ہی کچھ کرسکتی ہے، اسی طرح ذکرشدہ مادی آلات بھی اس کے بغیربے جان رہتے ہیں، اسی اصول پر انسان کاوجود بھی قائم ہے ، اس کے اندر توانائی اورمادے کاملن ہی اسے جانداربناتاہے۔
بات کو مختصرکرتے ہوئے مرد اورعورت کے زوج کو لیتے ہیں جو مل کر انسانی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں اورانسان بجائے خودایک زوج پر مشتمل ہے، مادی جسم اوراس جسم کے اندر ایک ذہن یادماغ یاروح کچھ بھی نام دے لیجیے جو غیرمادی ہوتاہے ۔
اب ازواج ''تنویت'' اورسلسلہ تخلیق وتکوین اورارتقاکی روشنی میں مرد اورعورت بھی ایک زوج ہے اوراس زوج کاکام اورذمے داری انسانی نسل کوآگے بڑھانا اورانسانیت کو فروغ دیناہے، ان دونوں کے اشتراک سے جو بچہ پیداہوتاہے، اسے ایک اچھا انسان بنانا، ان دونوں کی ذمے داری ہے چنانچہ اس بچے کی مادی اورجسمانی ضروریات ''مرد'' کی ذمے داری ہوتی ہے، وہ کماکر لائے گا اوران دونوں کوپالے گا جب کہ ماں کی ذمے داری اس بچے کی اندرونی تعمیرہے۔
یہ ماں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بچے کی باطنی تعمیرکرکے اسے ایک اچھا انسان بنائے، وہ اسے نو مہینے اپناخون نچوڑ نچوڑ کر پالتی ہے، پھر اسے گود میں رکھ کر وہ سب کچھ سکھاتی ہے جو ایک اچھے انسان کے لیے ضروری ہے۔سیدھی سادی اور دوٹوک تقسیم ہے، بیرونی تعمیرمرد کاکام اور اندرونی تعمیرعورت کی ذمے داری ۔اب اگر عورت کو آپ مرد کی ذمے داری دے دیں اورمرد نہایت چالاکی سے اپنا مالی بوجھ بھی اس پرڈالے تو بچے کی اندرونی تعمیرکا ضروری کام کون کرے گا؟ اوریہی آج کل دیکھنے میں آرہا ہے ۔
گھرمیں بھی عورت، دفتر میں بھی عورت، بازارمیں بھی عورت، کھیت میں بھی عورت، فیکٹری میں بھی عورت جب کہ نکھٹو مرد گھر میں یا کسی دربار، کسی ڈیرے پر آرام فرما رہا ہوتا ہے ، اور بچوں کی نگہداشت کا ضروری کام ''نوکروں''پر چھوڑدیا گیا ہے۔
اب ظاہری بات ہے کہ اس طرح وہ بچہ جسے انسان بنناہے، وہ بھی بوتل کے دودھ، نوکروں کی پرورش اورخالص نفع خورتعلیمی اداروں کے ہاتھ میں بچہ یہی کچھ بنے گا جو آج بناہواہے۔
اسے بڑوں سے بات کرنے کی تمیز ہے نہ اسکول میں اسے معاشرتی علوم پڑھائے جاتے ہیں، جب سارا زور ہی مالی وسائل پر ہوگیا تو بچے کے اندر انسان کون پیداکرے گا، باہرکے لوگ تو اسے اپنی طرح کمائی کی مشین ہی بنائیں گے اوروہ بن گیاہے، ڈاکٹر،انجنیئر،استاد،منتظم، سائنس دان، افسرسب کچھ بن جاتاہے لیکن انسان نہیں بنتاہے کیوں کہ یہ کام کرنے والی کوتوآپ نے مردکی ذمے داریاں دی ہوئی ہیں جب کہ اندرونی تعمیرصرف ایک ماں ہی کرسکتی ہے ، نتیجہ یہ کہ آج کے انسان کے اندر ایک ایسا ''خلا''رہ گیاہے جو کبھی اورکسی طرح بھی پرنہیں ہوسکتا۔
پرانی پاکستانی فلموں کاایک مزاحیہ اداکارتھا لہری ہوا کرتا تھا، لہری کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ادھر ادھرکی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے مزاح نہیں پیدا کرتاتھابلکہ مکالموں کے ذریعے بہت نفیس قسم کا مزاح پیدا کرتا تھا، سناہے اس کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ وہ کسی کے لکھے ہوئے جملے نہیں بولتاتھا بلکہ خود ہی موقع کی مناسبت سے مکالمہ بولتا تھا۔
بعد کے زمانوں میں وہ عمرشریف کے اسٹیج شوزوغیرہ میں بھی آتا تھا،ایک پروگرام میں ایک نوجوان اس سے ملتاہے تولہری بولتا ہے،بھئی کیسے ہو برخوردار، کہاں ہوتے ہو، آج کل دکھائی نہیں دیتے۔ نوجوان کہتاہے، انکل میں نے دوبھینسیں خریدلی ہیں، انھیں پالتاہوں اوردودھ بیچتا ہوں۔ اس پر لہری کہتاہے، ہاں برخوردار، یہ فیمیل کی کمائی ہے ہی ایسی کہ ایک دفعہ جس کاچسکاپڑجائے تو چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی۔
اداکار لہری نے مزاح کے پیرائے میں حقیقت بیان کی ہے، واقعی جن لوگوں کو فیمیل کی کمائی کا چسکا پڑجاتا ہے، وہ کسی کام کا نہیں رہتا اور یہ ''سعادت'' مردوں کو آسانی سے حاصل نہیں ہوئی ہے،اس کے لیے اس نے ''برین واش''عورت کے آگے آزادی، برابری اورہمسری کی ایسی بانسری بجائی ہے کہ وہ صرف یہ ''اعزاز'' حاصل کرنے کے لیے کہ عورت کسی سے کم نہیں ہے، عورت زیادہ باصلاحیت ہے، عورت سب کچھ کر سکتی ہے، عورت صنف نازک نہیں صرف کرخت ہے۔
تعریف تو بڑی جان لیواچیزاورسرچڑھ کر بولنے والا جادو ہے، اس لیے صدیوں سے دماغ کے کثرت استعمال سے اپنے ذہن کو شیطانی بنانے والے مرد نے یہی حربہ استعمال کیاکہ عورت یہ بھی کرسکتی ہے، وہ بھی کرسکتی ہے، سب کچھ کرسکتی ہے بلکہ مردسے زیادہ اوراچھاکرسکتی ہے۔
اسے پتہ بھی نہیں چلاکہ مرد نے اسے ایک اور''دام'' میں پھنسا لیا،اپنے حصے کاکام بھی اس سے کروانے لگا۔اب یہاں ان دونوں مرد وعورت کے بارے میں تھوڑی سی علمی جانکاری بھی ضروری ہے۔
یہ بات میں اکثراپنے کالموں میں بتاتا ہوں کہ اس سارے عالم تحقیق وتکوین یعنی کائنات میں ہرہرجگہ ایک نظام ''تنویت'' یانظام ازواج جاری وساری ہے ، ہرہرمقام پرجو بھی پیدائش ہوتی ہے، ارتقاہوتی ہے، حرکت ہوتی ہے تو اس میں منفی اورمثبت کی یکجائی لازم ہے اوریہ پوری کائنات جس زوج پر مشتمل ہے وہ ہے ''مادے اورتوانائی'' کا زوج۔ اکیلے مادہ بھی بیکار ، بے جان اور بے حرکت ہوتاہے اورتوانائی بھی مادے کے بغیرنامکمل اوربے قرار محض ہوتی ہے۔
مادے کو پانچ انسانی حواس سے معلوم کیاجاسکتاہے لیکن توانائی کسی بھی انسانی حس سے معلوم نہیںکی جاسکتی، صرف مادے کے ساتھ ملن کے بعداس کی کارکردگی کا پتہ چلتاہے، اس سلسلے میں اکثربجلی کی مثال دی جاتی ہے جوتوانائی کی شکل ہے لیکن اگر اسے مادی تاروں کھمبوں اور دوسرے لوازمات کی مدد حاصل نہ ہوتو کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ مادی آلات، مشینوں، موٹروں، بلبوں وغیرہ میں جاکر ہی کچھ کرسکتی ہے، اسی طرح ذکرشدہ مادی آلات بھی اس کے بغیربے جان رہتے ہیں، اسی اصول پر انسان کاوجود بھی قائم ہے ، اس کے اندر توانائی اورمادے کاملن ہی اسے جانداربناتاہے۔
بات کو مختصرکرتے ہوئے مرد اورعورت کے زوج کو لیتے ہیں جو مل کر انسانی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں اورانسان بجائے خودایک زوج پر مشتمل ہے، مادی جسم اوراس جسم کے اندر ایک ذہن یادماغ یاروح کچھ بھی نام دے لیجیے جو غیرمادی ہوتاہے ۔
اب ازواج ''تنویت'' اورسلسلہ تخلیق وتکوین اورارتقاکی روشنی میں مرد اورعورت بھی ایک زوج ہے اوراس زوج کاکام اورذمے داری انسانی نسل کوآگے بڑھانا اورانسانیت کو فروغ دیناہے، ان دونوں کے اشتراک سے جو بچہ پیداہوتاہے، اسے ایک اچھا انسان بنانا، ان دونوں کی ذمے داری ہے چنانچہ اس بچے کی مادی اورجسمانی ضروریات ''مرد'' کی ذمے داری ہوتی ہے، وہ کماکر لائے گا اوران دونوں کوپالے گا جب کہ ماں کی ذمے داری اس بچے کی اندرونی تعمیرہے۔
یہ ماں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بچے کی باطنی تعمیرکرکے اسے ایک اچھا انسان بنائے، وہ اسے نو مہینے اپناخون نچوڑ نچوڑ کر پالتی ہے، پھر اسے گود میں رکھ کر وہ سب کچھ سکھاتی ہے جو ایک اچھے انسان کے لیے ضروری ہے۔سیدھی سادی اور دوٹوک تقسیم ہے، بیرونی تعمیرمرد کاکام اور اندرونی تعمیرعورت کی ذمے داری ۔اب اگر عورت کو آپ مرد کی ذمے داری دے دیں اورمرد نہایت چالاکی سے اپنا مالی بوجھ بھی اس پرڈالے تو بچے کی اندرونی تعمیرکا ضروری کام کون کرے گا؟ اوریہی آج کل دیکھنے میں آرہا ہے ۔
گھرمیں بھی عورت، دفتر میں بھی عورت، بازارمیں بھی عورت، کھیت میں بھی عورت، فیکٹری میں بھی عورت جب کہ نکھٹو مرد گھر میں یا کسی دربار، کسی ڈیرے پر آرام فرما رہا ہوتا ہے ، اور بچوں کی نگہداشت کا ضروری کام ''نوکروں''پر چھوڑدیا گیا ہے۔
اب ظاہری بات ہے کہ اس طرح وہ بچہ جسے انسان بنناہے، وہ بھی بوتل کے دودھ، نوکروں کی پرورش اورخالص نفع خورتعلیمی اداروں کے ہاتھ میں بچہ یہی کچھ بنے گا جو آج بناہواہے۔
اسے بڑوں سے بات کرنے کی تمیز ہے نہ اسکول میں اسے معاشرتی علوم پڑھائے جاتے ہیں، جب سارا زور ہی مالی وسائل پر ہوگیا تو بچے کے اندر انسان کون پیداکرے گا، باہرکے لوگ تو اسے اپنی طرح کمائی کی مشین ہی بنائیں گے اوروہ بن گیاہے، ڈاکٹر،انجنیئر،استاد،منتظم، سائنس دان، افسرسب کچھ بن جاتاہے لیکن انسان نہیں بنتاہے کیوں کہ یہ کام کرنے والی کوتوآپ نے مردکی ذمے داریاں دی ہوئی ہیں جب کہ اندرونی تعمیرصرف ایک ماں ہی کرسکتی ہے ، نتیجہ یہ کہ آج کے انسان کے اندر ایک ایسا ''خلا''رہ گیاہے جو کبھی اورکسی طرح بھی پرنہیں ہوسکتا۔