آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے جسٹس مظہر عالم کا اختلافی نوٹ
صدر مملکت کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس سیاسی نوعیت کا ہے، جسٹس مندو خیل
کراچی:
سپریم کورٹ کے جسٹس مظہر عالم کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق 17 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کا معاملے پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا جس میں انہوں نے لکھا کہ آرٹیکل 63 اے میں منحرف اراکین کیخلاف کاروائی کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے لکھا کہ آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی تو اس سے دیگر آئینی شقیں متاثر ہونگی اور یہ آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگا، ریفرنس کو بغیر رائے دیئے واپس بھجوایا جاتا ہے، پارلیمنٹ اگر منحرف اراکین پر خود سے کوئی سزا یا پابندیاں عائد کرنا چاہے تو وہ اس معاملے میں آئینی طور پر آزاد ہے اور اگر ریفرنس کو الیکشن کمیشن نے منظور کرلیا تو رکن کی سیٹ خالی تصور کی جائے گی۔
انہوں نے لکھا کہ آئین پاکستان میں منحرف اراکین کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق ہے جبکہ اس کا ووٹ بھی شمار کیا جاتا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کی اکثریتی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، اکثریتی رائے کی تفصیل جاری ہونے کا انتظار کیا مگر تاحال تفصیل جاری نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے 17 مئی کو صدارتی ریفرنس پر رائے دی اور 13 جولائی کو ریٹائرمنٹ سے قبل اختلافی نوٹ تحریری کیا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا 15 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
جسٹس مندو خیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 63 اے میں انحراف سے متعلق مکمل طریقہ کار موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں، ججز کو دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے آئین کی تشریح کرنی چاہیے، صدر مملکت کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس سیاسی نوعیت کا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ججز کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ریفرنس بغیر رائے دیئے واپس بھجوایا جاتا ہے، انحراف کرنے والے ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنا آزادی اظہار رائے کیخلاف ہوگا، 17 مئی کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے دی۔
صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی اور بینچ میں شامل دو ججز جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس مظہر عالم کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق 17 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کا معاملے پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا جس میں انہوں نے لکھا کہ آرٹیکل 63 اے میں منحرف اراکین کیخلاف کاروائی کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے لکھا کہ آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی تو اس سے دیگر آئینی شقیں متاثر ہونگی اور یہ آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگا، ریفرنس کو بغیر رائے دیئے واپس بھجوایا جاتا ہے، پارلیمنٹ اگر منحرف اراکین پر خود سے کوئی سزا یا پابندیاں عائد کرنا چاہے تو وہ اس معاملے میں آئینی طور پر آزاد ہے اور اگر ریفرنس کو الیکشن کمیشن نے منظور کرلیا تو رکن کی سیٹ خالی تصور کی جائے گی۔
انہوں نے لکھا کہ آئین پاکستان میں منحرف اراکین کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق ہے جبکہ اس کا ووٹ بھی شمار کیا جاتا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کی اکثریتی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، اکثریتی رائے کی تفصیل جاری ہونے کا انتظار کیا مگر تاحال تفصیل جاری نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے 17 مئی کو صدارتی ریفرنس پر رائے دی اور 13 جولائی کو ریٹائرمنٹ سے قبل اختلافی نوٹ تحریری کیا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا 15 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
جسٹس مندو خیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 63 اے میں انحراف سے متعلق مکمل طریقہ کار موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں، ججز کو دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے آئین کی تشریح کرنی چاہیے، صدر مملکت کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس سیاسی نوعیت کا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ججز کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ریفرنس بغیر رائے دیئے واپس بھجوایا جاتا ہے، انحراف کرنے والے ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنا آزادی اظہار رائے کیخلاف ہوگا، 17 مئی کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے دی۔
صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی اور بینچ میں شامل دو ججز جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا۔