ایک سو یونٹ تک بجلی کی کہانی
اب تو غریب سے غریب گھر بھی سو یونٹ سے زائد ہی بجلی استعمال کرتا ہے
وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صوبے بھر میں ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی مفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے اس اعلان کو ویسے تو سراہا ہی جایا رہا ہے لیکن تحریک انصاف کا موقف ہے کہ 17جولائی کو پنجاب میں ضمنی انتخاب کی وجہ سے یہ اعلان قابل قبول نہیں ہے۔
ادھر حمزہ شہباز کا موقف ہے کہ انھوں نے یہ سہولت پورے پنجاب کے صارفین کو دی ہے، لہٰذا اسے ضمنی انتخا بات سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ بہرحال سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کا بل متعلقہ محکمے کو حکومت پنجاب ادا کرے گی، یوں یہ صوبائی حکومت کی جانب سے اپنے وسائل سے دی جانے والی سبسڈی ہے۔
اس سبسڈی کے خدو خال پر بریفنگ کے لیے حکومت پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات راجہ منصور نے چیئرمین پی اینڈ ڈی علی سرفراز اور سیکریٹری توانائی حکومت پنجاب اجمل بھٹی کے ساتھ ایک نشست رکھی۔ میں نے علی سرفراز سے پوچھا کہ پنجاب میں ایسے کتنے بجلی صارفین ہیں جو ماہانہ سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ میری رائے میں ایسے صارفین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونی چاہیے۔
اب تو غریب سے غریب گھر بھی سو یونٹ سے زائد ہی بجلی استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے وفاقی حکومت نے بھی تین سو یونٹ کا بینچ مارک رکھا ہوا ہے۔ یہ حکومت پنجاب نے سو یونٹ کا نعرہ لگا کر سیاسی شعبدہ بازی کی ہے۔
علی سرفراز مسکرائے اور کہنے لگے نہیں، ایسا نہیں ہے۔ پنجاب میں سو یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والے نوے لاکھ صارفین ہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا، کتنے؟ تو انھوں نے کہا، یہ حقیقت ہے۔ اس طرح پنجاب میں نوے گھرانے ایسے ہیں جو سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح پنجاب میں نوے لاکھ گھر ایسے ہیں جہاں صرف ایک بلب اور ایک پنکھا بھی بمشکل چلتا ہے۔تا ہم پنجاب حکومت کی پالیسی میں 45لاکھ صارفین کے آنے کی توقع ہے۔
پنجاب حکومت نے ایک میرٹ بنایا ہے کہ جن صارفین کا بجلی کا بل پورے سال ایک سو یونٹ سے کم رہتا ہے، ان کا بل حکومت پنجاب دے گی۔ کیونکہ ایسے صارفین بھی ہیں جن کی گرمیوں کا بل سو یونٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ جب کہ سردیوں کا بل سو یونٹ سے کم ہوتا ہے۔ تا ہم حکومت پنجاب کی پہلی ترجیح وہ صارفین ہیں جن کا گرمیوں سردیوں میں بل سو یونٹ سے کم ہو۔ ہماری نظر یہ لوگ واقعی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن زندگی واقعی ایک بجلی کے بلب او رایک پنکھے تک محدود ہے۔ یہ لوگ کوئی ٹی وی واشنگ مشین استعمال نہیں کرتے۔ میں نے علی سرفراز سے پوچھا کہ کیا سو یونٹ میں ایک موبائل فون بھی چارج ہوجاتا ہے؟ انھوں نے کہا ہم نے جو تحقیق کرائی ہے، اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بجلی اور پنکھے کے ساتھ ایک موبائل بھی چارج کیا جائے تب بھی بل سو یونٹ سے کم ہی رہتا ہے۔ تا ہم اگر واشنگ مشین یا ٹی وی استعمال کیا جائے تو بل بڑھ جاتا ہے۔
میں نے علی سرفرا ز سے پوچھا کہ ان میں سے زیادہ صارفین کی تعداد کس علاقہ میں ہے۔ انھوں نے کہا سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی اکثریت جنوبی پنجاب میں ہے۔ محتاط اعداو و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب میں ایسے صارفین کی تعداد بائیس لاکھ سے زائد ہے۔لیکن ویسے یہ صارفین پنجاب کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔ میں نے کہا، لاہور میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا لاہور کے گردو نواح میں بھی موجود ہیں۔ پنجاب میں پانچ ڈسٹربیوشن کمپنیاں بجلی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں لیکسو، فیسکو، گیپکو، میپکو اور آئیکسو شامل ہیں۔ اعداو و شمار کے مطابق تمام ڈسٹریبیوشن کمپنیوں میں ایسے صارف موجود ہیں۔ اس لیے یہ سبسڈی کسی ایک خاص علاقے میں نہیں ہے۔
میں نے سوال کیا کہ کیا حکومت پنجاب کا اب ساری عمر ان لوگوں کا بل دینے کا ارادہ ہے۔ یا اس سبسڈی کوئی مدت ہے۔ علی سرفراز نے کہا کوئی مدت تو نہیں ہے۔ لیکن حکومت پنجاب کی پلاننگ میں یہ بات موجود ہے کہ اس کو لمبے عرصہ تک نہیں چلانا ہے۔ اس لیے متبادل پلاننگ کی جا رہی ہے۔ جس میں اس بات کا جائزہ لیا بھی جا رہا ہے کہ ان کو سولر لگا دیا جائے۔ لیکن اس پر ابھی سوچ بچار ہو رہی ہے۔
ہمارے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ یہ انتہائی غریب لوگ ہیں۔ اس لیے اگر ہم ان کو مفت سولر دے بھی دیں تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ جب یہ اپنی غربت سے تنگ ہوں تو سولر کی پلیٹ بیٹری اور انورٹر بیچ دیں۔ ایسے میں حکومت کیا کرے گی۔ تا ہم حکومت کی کوشش ہے کہ یہ سبسڈی تا حیات نہ دینی پڑے، اس کا کوئی متبادل حل نکلنا چاہیے۔
میں نے سوال کیا کہ متبادل حل کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ، ہم ایسا بھی سوچ رہے ہیں کہ مختلف علاقوں میں سولر پارک لگائے جائیں ۔ یہ سولر پارک واپڈا کے گرڈ اسٹیشن کی قریب لگائے جائیں اور یہ سولر پارک بجلی واپڈا کو دے دیں۔ اس طرح حکومت پنجاب جتنی بجلی پر سبسڈی دے رہی ہوگی، اتنے ہی یونٹ واپس بھی دے رہی ہوگی۔ اس طرح بیلنس کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے کہا واپڈا خریدتا سستی ہے اور بیچتا مہنگی ہے۔
وہ کہنے لگے اس کو بھی دیکھ رہے۔ اس کا بھی حل نکالا جا رہا ہے۔ لیکن پورے پنجاب میں سولر پارک لگانے پر کام ہو رہا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے سولر پارک بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ابھی کچھ فائنل نہیں ہے۔ تا ہم سوچ بچار جاری ہے۔ اور ایک مربوط حل نکل آئے گا۔ میں نے سوال کیا کہ یہ کتنے مالیت کی سبسڈی ہے ۔ علی سرفراز نے کہا ایک محتاط انداذے کے مطابق 35ارب کی سبسڈی دی جائے گی۔
تاہم یہ بڑھ بھی سکتی ہے۔ یہ سبسڈی لینے کا ایک طریقہ کار ہے۔ صارفین کو حکومت پنجاب کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کرانا ہوگی۔اس کے بعد ہم یہ چیک کریں گے کہ یہ اس معیار پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔ میں نے کہاجو ایک دفعہ رجسٹر ہو گیا اور اس کا اگلے ماہ بل سو یونٹ سے زیادہ آگیا تو کیا رجسٹریشن ختم ہو جائے گی تو انھوں نے کہا نہیں۔ رجسٹریشن قائم رہے گی لیکن جس ماہ بل سو یونٹ سے زیادہ ہوگا، اسے سبسڈی نہیں ملے گی۔ میں نے کہا آجکل اور بلنگ کی بہت گونج ہے۔ میٹر ریڈر بھی تنگ کر سکتا ہے کہ مجھے خوش کرو نہیں تو بل سو یونٹ سے زیادہ کر دوں گا۔
انھوں نے کہا اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہاں حکومت پنجاب کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ میٹر ریڈنگ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔ سو یونٹ بجلی مفت دینے کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں غربت کی صحیح صورتحال کیا ہے۔ جب ہم اے سی چلاتے ہیں تو کچھ لوگ پنکھا چلانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ کئی بجلی کا ایک بلب جلانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والا طبقہ ملک و معاشرے کا وہ چہرہ ہیں جو خوشحال طبقے کودولت کے نشے کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔