ماحولیاتی تغیر کے منفی اثرات

مون سون میں 87 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں


Editorial July 08, 2022
فوٹو: فائل

لاہور: وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمن کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک مون سون اور پری مون سون کی لپیٹ میں ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے، مون سون میں 87 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں، برف پھٹنے کے 16 گلاف ایونٹس ہوئے، بارشوں کے سبب 77 افراد جاں بحق ہوئے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیری رحمن نے کہا کہ دوسرے ممالک کے گرین ہاؤس گیسز کے اثرات پاکستان میں رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو جی ڈی پی کا 9.2 فیصد نقصان ہو رہا ہے، ملک میں طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر میں 49 فیصد، بلوچستان میں 274 فیصد اور سندھ میں 262 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، 77 اموات ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں، اداروں کی وارننگ کو سنجیدہ لینے سے اموات کم ہوسکتی ہیں۔

بلاشبہ ہم گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن من حیث القوم اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارا قومی رویہ اور کردار غفلت اور کوتاہی پر مبنی ہے۔

بارش اور سیلاب کو '' قدرتی آفات '' قرار دے کر، ہمارے سرکاری ادارے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں، آج کے جدید سائنسی دور میں انھیں کسی طور پر قدرتی آفات قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ جدید ترین سائنسی آلات کی مدد سے موسم کی ساری صورتحال کئی ہفتے پہلے ہی معلوم ہوجاتی ہے، کتنی گرمی ہوگی، کتنی سردی پڑے گی، کتنی بارش ہوگی، جب ایک عام آدمی کو اپنے موبائل پر یہ ساری معلومات دستیاب ہیں، تو پھر ہمارے سرکاری انتظامی محکمے پیشگی اور حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتے۔

ہر برس کراچی، لاہور ، پشاور ، حیدرآباد ، سکھر، فیصل آباد ، کوئٹہ سمیت ملک کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں میں بارش کے بعد سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ بارشوں سے پہلے ندی ، نالے اور بالخصوص گٹر صاف نہیں کیے جاتے ، یہی وجہ ہے کہ ملک تمام شہروں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے ۔

نکاسی آب کے نالوں پر گھر بن گئے ہیں ، شہروں میں بغیر کسی پلاننگ کے ان گنت بے ہنگم بستیاں آباد ہوچکی ہیں ، جہاں سیوریج کا نظام سرے سے وجود نہیں رکھتا۔ اسی ساری صورتحال کی ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ محکموں پر عائد ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا نہ کبھی بارش اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ سرے سے بنایا ہی نہیں ہے، بلوچستان میں صورتحال بھی ابتر ہے۔

ہر سال موسم برسات میں جب غیر معمولی بارشوں سے سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے سے اونچے درجے کا سیلاب آتا ہے تو ہماری لہلہاتی فصلیں ، آبادیاں ، کھیت ، کھلیان سب اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سیلاب کے باعث جانی اور مالی نقصانات بھی ہوتے ہیں اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی بھی کرنی پڑتی ہے۔

انسانی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے اور جن علاقوں میں بارش اور سیلاب کا پانی کھڑا رہتا ہے وہ معمول کی زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ عارضی طور پر منتقل کی جانے والی آبادی کے لیے خوراک ، پانی رہائش ، علاج معالجے ضروریات کا انتظام کیا جاتا ہے اور لا تعداد سرکاری محکمے ، ادارے اور تنظیمیں اس مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ راولپنڈی میں نالہ لئی اس کی واضح مثال ہے جب مارگلہ کی پہاڑیوں اور دوسرے ملحقہ علاقوں میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوتی ہیں تو نالہ لئی میں طغیانی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس سے نالہ لئی کے کناروں اور قرب و جوار کے مکین اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اچانک موسلا دھار بارش سے انھیں سنبھلنے کی بھی مہلت نہیں ملتی اور ان کا مال و اسباب سیلابی ریلے و طغیانی کی نذر ہو جاتا ہے۔

اگرچہ مقامی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی طرف سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال ہمیں نالہ لئی میں تباہی کے مناظر نظر آتے ہیں اور اس سے راولپنڈی کے مخصوص نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں جس سے زندگی درھم برہم ہو جاتی ہے ، اسی طرح کراچی تین برس قبل اربن فلڈنگ کا شکار ہوا تھا۔

مقامی سطح کے علاوہ اگر ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ دنیا میں وقت تیزی سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ زمین بردگی کا شکار ہورہی ہے، جس سے زمین کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ موسموں کے مزاج بدل گئے ہیں ، گرمی میں سردی اور سردی میں گرمی کی کیفیت ہوتی ہے۔

یہ حقائق ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ آبی ، زمین اور فضائی آلودگی اور تیزی سے ناپید ہونے والے جنگلات ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا نہ کی تو مستقبل میں ماحولیاتی تغیر کے منفی اثرات کے طور پر ہولناک تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جو خطرہ ہمارے سرپر منڈلا رہا ہے اور جس طرح تباہی ہمارے در پر دستک دے رہی ہے ہمیں اس کا ابھی انفرادی سطح پر ادراک نہیں اور نہ ہی ہم اس طرف کوئی توجہ دے رہے ہیں۔

کرہ ارض پر زندگی کے بقا کے لیے جنگلات کی اہمیت اسی طرح ہے جس روح اور جسم ، انسان آکسیجن ، پانی اور خوراک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور ان سب کے حصول کے لیے زمین اور ماحول بنیادی اہمیت کے حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو زرخیز سونا اگلتی سر زمین ، فلک بوس پہاڑوں ، دریاؤں ، چاروں موسموں ، جفاکش ، محنتی اور ذہین افراد ی قوت ، سورج کی حدت سے نوازا ہے اور اگر ہم ان قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کریں تو ہم نہ صرف زرعی پیداوار میں دنیا کے سر فہرست ملکوں میں شمار ہو سکتے بلکہ صنعتی ترقی میں بھی نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ تشویشناک حد تک کم ہے، ہم جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اس مقام پر واقع ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے حالانکہ اس کے مقابلے میں ماحولیاتی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں شمار کیے جانے والے ملکوں میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

یادش بخیر ! کہ ماضی میں ملک میں صنعتوں، کارخانوں، ملوں کے جال بچھ رہے تھے۔ زراعت کی ترقی تیزی سے جاری و ساری تھی۔ محکمہ آبپاشی و انہار اِس قدر مسائل کا شکار نہ تھا۔ پانی کی قلت کا سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ ہمارے راوی ، ستلج ، چناب ، جہلم اور بیاس خوب بھرے رہتے تھے ، کیا یہ دو چار سال کا قصہ ہے یا بات پرانی ہے؟ جو کھیت کھلیان کبھی سونا اگلتے ، دریاؤں کی روانی ماحول کو معطر کرتی تھی ، کیا وہاں آج رہائشی سوسائٹیاں نہیں بن چکیں؟ یہ سچ ہے کہ چند لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کچھ کر دیا جو کوئی دشمن بھی نہ کر پایا۔ہر سال موسم بہار اور موسم برسات کے دوران قومی سطح پر شجری کاری کی مہمات شروع کی جاتی ہیں جن کا مقصد قومی سطح پر شعوری بیداری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو باور کرانا ہوتا ہے کہ عوام اپنی مذہبی ، سماجی ، اخلاقی اور قومی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے شجر کاری میں عملی طور پر حصہ لیں اور اپنے ماحول کو آلودگی اور تباہی سے بچانے کے لیے پودے لگائیں۔

جب تک ہم باہم مل کر اور یک جان ہو کر اس قومی مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کی جستجو نہیں کریں گے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، پاکستانی قوم کے تمام افراد ملی اور قومی جذبے کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوں ، ہر شہری اپنے حصے کا پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرکے اسے تناور درخت بنائے تو ملک کے چپے چپے کو سرسبز و شاداب بنایا جاسکتا ہے اب تو گھروں و بلند و بالا عمارتوں میں بھی چھتوں اور بالکونیوں میں پودے اگا کر ماحول کو سرسبز بنانے کا رجحان عالمی سطح پر فروغ پا رہا ہے اور جن ملکوں کے عوام اس میں عملی طور پر شریک ہیں وہاں واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں بھی عوامی سطح پر یہ جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم پھلوں کی کھٹلیاں صاف کرکے اگر موجود ہ موسم برسات میں نرم گیلی زمین میں دبا دیں تو ان سے پھل دار پودے پھوٹ سکتے ہیں۔ اسی طرح صرف درختوں کی شاخیں بھی زمین میں لگا دینے سے گھنے اور سایہ دار درخت ہمارے لیے آکسیجن اور سائے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہمارے ذرایع ابلاغ ، علمائے کرام، منتخب عوامی نمایندوں ، سماجی کارکنان ، سول سوسائٹی اور ماحولیاتی ماہرین پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی سطح پر درختوں کی اہمیت اجاگر کرنے اور آنے والے خطرات سے آگا ہ کرنے کے لیے بھر پور مہم شروع کریں۔ شجرکاری کو فروغ دیں۔

جنگلات کو نقصانات و تباہی سے بچانے کا شعور بیدار کریں اور ان محکموں اور اداروں کی معاونت کریں جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں، اور اداروں اور افراد کی کوتاہی کی بھی نشاندہی کریں جن کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار ممکن نہیں کہ قدرت نے ماحول کی صورت میں ہمیں جو خوبصورتی عطا کی ہے اگر ہم نے اس میں بگاڑ کا عمل اسی طرح جاری رکھا اور صنعتی ترقی سے کرہ ارض میں آلودگی اسی طرح پھیلاتے رہے تو اس کا خمیازہ نہ صرف خود ہمیں بلکہ ہماری آیندہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

حرف آخر ملک میں اس وقت مون سیزن کے قبل از وقت آغاز ہی جو مسائل جنم لے رہے ہیں ، ان کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار کرنا چاہیے ، جب وفاق صوبوں کو فنڈز دے رہا ہے اور صوبے خود بھی ٹیکسز کی صورت میں خوب آمدن حاصل کررہے ہیں ، تو پھر یہ تمام رقم بارشوں سے بچاؤ اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے خرچ کیوں نہیں کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں