ایک خوبصورت شعری روایت کا معدوم ہونا
شاعری میں نظم اور غزل دو بنیادی اصناف ہیں البتہ غزل ایک نہاہت ہی نازک صنف ہے
BARCELONA:
عظیم شعراء کے ہاں شاعری سارے بند توڑ کر اترتی ہے۔ اسی لیے ولیم ورڈز ورتھ نے شاعری کو Out flow of powerful feelingsکہا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کو اسی تناظر میں اس طرح بیان کیا ہے، میں صورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج۔۔ کرتا ہے میرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۔شاعری تسخیرِِ قلوب کا عمل ہے جو دلوں تک سفر کرتے جذبوں کو منعکس کرتا ہے۔ یہ گنگناتے حروف کی بازگشت زمین پر بہتی شفاف ندیوں اور آسمان پر فرشتوں کی پھڑ پھڑاہٹ میں ایک ساتھ سنائی دیتی ہے۔
شاعری میں نظم اور غزل دو بنیادی اصناف ہیں البتہ غزل ایک نہاہت ہی نازک صنف ہے۔ ِفن غزل کے تقاضوں کو اچھی طرح نبھانا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ کلام موثر بھی ہو، اُس کے اندر جاذبیت اور خوبصورتی بھی ہو۔ شاعری کو مؤثر اور خوبصورت بنانے یعنی شاعری کو مزین کرنے کے لیے جو ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔
ان کی کئی اصطلاحات ہیں۔ ان کو صنایع بدایع کی اصطلاحات کہا گیا ہے مثلا ً تشبیع،استعارہ۔ لف و نشر،صنعتِ تضاد،صنعت حسِں تعلیل، صنعتِ مراعات النظیر،صنعتِ مبالغہ، صنعتِ ترصیع اور مرصع کاری۔صنایع لفظی و معنوی سے فنی تقاضوں اور باریکیوں کو نکھار کر کلام میں خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے۔ اسے آپ صنعتِِ ترصیع بھی کہہ سکتے ہیں اور مرصع کاری بھی۔
روایت کے دور میں حروفِ تہجی کے ایک ہی ہجے یا ایک ہی آواز کے الفاظ کو ایک سے زیادہ دفعہ استعمال کر کے شاعرانہ کلام کو خوبصورت بنانے، مزین کرنے کا بہت رواج تھا۔شاعری میں اس فن کو Alliterationکہتے ہیں۔میں شرمندہ ہوں کہ اس انگریزی لفظ کا اردو متبادل میرے پاس نہیں ہے۔ہم آواز الفاظ کے صوتی اثرات سے کلام کو نکھارنے کا سلیقہ معدوم ہوتا نظر آ رہا ہے۔عہدِ حاضر میں ڈھونڈنے سے چند ایک شعراء ملیں گے جو Alliterationکا استعمال بخوبی کر پاتے ہیں۔ اسداﷲ خان نے غالب آکر ہی رہنا ہوتا ہے۔ غالب اس ہنر میں بہت طاق تھے۔
اس کالم کے آخر میں ان کے ہی ایک بہت خوبصورت شعر کا تذکرہ ہوگا اور یہ اس لیے ہوگا کہ مجھے اردو شاعری میں Alliterationکے استعمال کی اس شعر سے بہتر نظیر نہیں مل سکی۔ روایت کے دور میں اس قسم کا نمونہ عام تھا جب کہ اب جدت کے نام پر یہ عنصر کم کم ہے ماسوائے چند ایسے شعراء کے ہاں جو روایت اور جدت کو ایک ساتھ لے کر چل رہے ہیں ورنہ اب زیادہ تر قافیہ پیمائی ہے۔ مومن خان مومن کا ایک ایسا ہی خوبصورت شعر دیکھیے، لکھتے ہیں۔
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی، کبھی تم بھی تھے آشنا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ انگریزی ادب اس قسم کی مرصع کاری یعنی Alliterationکے استعمال سے بھرا پڑا ہے۔ جان ملٹن کی مشہور رزمیہ نظم پیراڈائز لاسٹ کی صرف ایک لائن دیکھیے کہ اس میں انگریزی حروفِ تہجی کے لفظB کا استعمال کیا گیا ہے۔ Behemoth,biggest born of earth upheavelled.ٹینی سن کی نظم سر گیلاہارڈ میںWکا تکرار دیکھیے۔I was weary with wandering and want me to rest. ایمیلی ڈیکنسن کی ایک لائن میںSکا تکرار ملاحظہ کریںThe soul selects her own society.Then shuts the door.شیکسپیئر اپنے مشہورِ زمانہ پلے ہیملٹ میں Cکا استعمال یوں کرتا ہے۔
And beseech you,bend you to remain-here,in the cheer and comfort of our eye- our chiefest courtier,cousin and son.جیمز جوائس اپنی مشہور نظم The Deadمیں S کا تکرار اس طرح کرتا ہےHis soul swooned slowly as he heard the Snow.اسی طرح ایک اور انگریزی شاعر Sکا استعمال ان الفاظ میں کرتا ہےSally sells Sea shells by the Sea Shore. رومیو اور جیولیٹ میں Fکا استعمال ملاحظہ ہو۔From forth,the fatal lions of these two foes.
اردو شاعری میںAlliterationکے استعمال کے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں۔
حضرتِ داغ فرماتے ہیں۔
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی توبہ کہ ایمان تو گیا
جناب جلیل مانکپوری لکھتے ہیں، آتے آتے آئے گا ان کا خیال، جاتے جاتے بے خیالی جائے گی۔ مشہور شاعر جناب صوفی تبسم یوں رقم طراز ہیں، ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقشِ پا کا گماں۔۔ قدم قدم پہ تیرے رہ گزر سے گزرے ہیں۔ عبدالحمید عدم فرماتے ہیں۔ کانٹے بہت تھے دامنِ فطرت میں اے عدم۔۔کچھ پھول اور کچھ میرے ارمان بن گئے۔ حضرت علامہ اقبال لفظ وہی کا استعمال کیا خوبصورتی سے کرتے ہیں۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر۔ وہی قرآن، وہی فرقان وہی یٰسین وہی طہٰ۔ احمد فراز کو دیکھیے لفظ قلم کا کیسے تکرار کرتے ہیں۔ میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی۔ میرا قلم تو امانت میرے ضمیر کی ہے۔ داغ دہلوی لفظ گلہ کی Alliterationکچھ یوں کرتے ہیں۔
کچھ تعلق تو رہے، شکوہ بے جا ہی سہی۔۔ نہ کیا تم نے گلہ، اس کا گلہ کرتے ہیں۔ امیر مینائی لفظ غصہ کی تکرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔ اُن کو آتا ہے پیار پر غصہ۔۔ہم کو غصے پر پیار آتا ہے۔ میرزا ذوق آئینہ یوں دکھاتے ہیں۔
۔جہاں کے آئینے سے دل کا آئینہ ہے جدا۔۔ اس آئینے میں ہم آئینہ گر کو دیکھتے ہیں۔جناب فیض احمد فیض کے ہاں اس فن کا استعمال دیکھیئے۔ یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحرکہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔دورِ حاضر کے قادرالکلام شاعر جناب شاہ نواز سواتی اقرار اور انکار کے دو ہم صوتی الفاظ سے ایک خوبصورت آہنگ پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔ میں اس کی دورخی کو جانتا ہوں،اسے اقرار بھی،انکار بھی ہے۔ایک اور شعر میں لفظ صدا کا خوبصورت تکرار دیکھیئے۔ہر صدا جب صدا بہ صحرا ہو۔۔پھر کسی کو صدا نہ دی جائے۔
اب لوٹتے ہیں غالب کے شعر کی جانب۔ شیریں اور فرہاد کے قصے میں فرہاد کے کمالِ فن کو بیان کرتے ہوئے لفظ کی اتنی خوبصورت Alliteration کی گئی ہے جو غالب جیسے شاعر کے ہی حصے میں آ سکتی ہے۔دیکھیئے اور سر دُھنیے۔ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا۔ جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے۔ ایک ہی مصرعے میں کا کہ کسی اور کمال کی تکرار بہت خوب اور لا جواب ہے۔اب یہ خوبصورتی،یہ مرصع کاری،جدت کی دھول میں کہیں گم ہو گئی ہے۔شعراء اگر ایسی روایات کو زندہ رکھیں تو اردو ادب اور شاعری پھر سے جگمگا اُٹھے۔
عظیم شعراء کے ہاں شاعری سارے بند توڑ کر اترتی ہے۔ اسی لیے ولیم ورڈز ورتھ نے شاعری کو Out flow of powerful feelingsکہا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کو اسی تناظر میں اس طرح بیان کیا ہے، میں صورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج۔۔ کرتا ہے میرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۔شاعری تسخیرِِ قلوب کا عمل ہے جو دلوں تک سفر کرتے جذبوں کو منعکس کرتا ہے۔ یہ گنگناتے حروف کی بازگشت زمین پر بہتی شفاف ندیوں اور آسمان پر فرشتوں کی پھڑ پھڑاہٹ میں ایک ساتھ سنائی دیتی ہے۔
شاعری میں نظم اور غزل دو بنیادی اصناف ہیں البتہ غزل ایک نہاہت ہی نازک صنف ہے۔ ِفن غزل کے تقاضوں کو اچھی طرح نبھانا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ کلام موثر بھی ہو، اُس کے اندر جاذبیت اور خوبصورتی بھی ہو۔ شاعری کو مؤثر اور خوبصورت بنانے یعنی شاعری کو مزین کرنے کے لیے جو ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔
ان کی کئی اصطلاحات ہیں۔ ان کو صنایع بدایع کی اصطلاحات کہا گیا ہے مثلا ً تشبیع،استعارہ۔ لف و نشر،صنعتِ تضاد،صنعت حسِں تعلیل، صنعتِ مراعات النظیر،صنعتِ مبالغہ، صنعتِ ترصیع اور مرصع کاری۔صنایع لفظی و معنوی سے فنی تقاضوں اور باریکیوں کو نکھار کر کلام میں خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے۔ اسے آپ صنعتِِ ترصیع بھی کہہ سکتے ہیں اور مرصع کاری بھی۔
روایت کے دور میں حروفِ تہجی کے ایک ہی ہجے یا ایک ہی آواز کے الفاظ کو ایک سے زیادہ دفعہ استعمال کر کے شاعرانہ کلام کو خوبصورت بنانے، مزین کرنے کا بہت رواج تھا۔شاعری میں اس فن کو Alliterationکہتے ہیں۔میں شرمندہ ہوں کہ اس انگریزی لفظ کا اردو متبادل میرے پاس نہیں ہے۔ہم آواز الفاظ کے صوتی اثرات سے کلام کو نکھارنے کا سلیقہ معدوم ہوتا نظر آ رہا ہے۔عہدِ حاضر میں ڈھونڈنے سے چند ایک شعراء ملیں گے جو Alliterationکا استعمال بخوبی کر پاتے ہیں۔ اسداﷲ خان نے غالب آکر ہی رہنا ہوتا ہے۔ غالب اس ہنر میں بہت طاق تھے۔
اس کالم کے آخر میں ان کے ہی ایک بہت خوبصورت شعر کا تذکرہ ہوگا اور یہ اس لیے ہوگا کہ مجھے اردو شاعری میں Alliterationکے استعمال کی اس شعر سے بہتر نظیر نہیں مل سکی۔ روایت کے دور میں اس قسم کا نمونہ عام تھا جب کہ اب جدت کے نام پر یہ عنصر کم کم ہے ماسوائے چند ایسے شعراء کے ہاں جو روایت اور جدت کو ایک ساتھ لے کر چل رہے ہیں ورنہ اب زیادہ تر قافیہ پیمائی ہے۔ مومن خان مومن کا ایک ایسا ہی خوبصورت شعر دیکھیے، لکھتے ہیں۔
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی، کبھی تم بھی تھے آشنا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ انگریزی ادب اس قسم کی مرصع کاری یعنی Alliterationکے استعمال سے بھرا پڑا ہے۔ جان ملٹن کی مشہور رزمیہ نظم پیراڈائز لاسٹ کی صرف ایک لائن دیکھیے کہ اس میں انگریزی حروفِ تہجی کے لفظB کا استعمال کیا گیا ہے۔ Behemoth,biggest born of earth upheavelled.ٹینی سن کی نظم سر گیلاہارڈ میںWکا تکرار دیکھیے۔I was weary with wandering and want me to rest. ایمیلی ڈیکنسن کی ایک لائن میںSکا تکرار ملاحظہ کریںThe soul selects her own society.Then shuts the door.شیکسپیئر اپنے مشہورِ زمانہ پلے ہیملٹ میں Cکا استعمال یوں کرتا ہے۔
And beseech you,bend you to remain-here,in the cheer and comfort of our eye- our chiefest courtier,cousin and son.جیمز جوائس اپنی مشہور نظم The Deadمیں S کا تکرار اس طرح کرتا ہےHis soul swooned slowly as he heard the Snow.اسی طرح ایک اور انگریزی شاعر Sکا استعمال ان الفاظ میں کرتا ہےSally sells Sea shells by the Sea Shore. رومیو اور جیولیٹ میں Fکا استعمال ملاحظہ ہو۔From forth,the fatal lions of these two foes.
اردو شاعری میںAlliterationکے استعمال کے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں۔
حضرتِ داغ فرماتے ہیں۔
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی توبہ کہ ایمان تو گیا
جناب جلیل مانکپوری لکھتے ہیں، آتے آتے آئے گا ان کا خیال، جاتے جاتے بے خیالی جائے گی۔ مشہور شاعر جناب صوفی تبسم یوں رقم طراز ہیں، ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقشِ پا کا گماں۔۔ قدم قدم پہ تیرے رہ گزر سے گزرے ہیں۔ عبدالحمید عدم فرماتے ہیں۔ کانٹے بہت تھے دامنِ فطرت میں اے عدم۔۔کچھ پھول اور کچھ میرے ارمان بن گئے۔ حضرت علامہ اقبال لفظ وہی کا استعمال کیا خوبصورتی سے کرتے ہیں۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر۔ وہی قرآن، وہی فرقان وہی یٰسین وہی طہٰ۔ احمد فراز کو دیکھیے لفظ قلم کا کیسے تکرار کرتے ہیں۔ میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی۔ میرا قلم تو امانت میرے ضمیر کی ہے۔ داغ دہلوی لفظ گلہ کی Alliterationکچھ یوں کرتے ہیں۔
کچھ تعلق تو رہے، شکوہ بے جا ہی سہی۔۔ نہ کیا تم نے گلہ، اس کا گلہ کرتے ہیں۔ امیر مینائی لفظ غصہ کی تکرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔ اُن کو آتا ہے پیار پر غصہ۔۔ہم کو غصے پر پیار آتا ہے۔ میرزا ذوق آئینہ یوں دکھاتے ہیں۔
۔جہاں کے آئینے سے دل کا آئینہ ہے جدا۔۔ اس آئینے میں ہم آئینہ گر کو دیکھتے ہیں۔جناب فیض احمد فیض کے ہاں اس فن کا استعمال دیکھیئے۔ یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحرکہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔دورِ حاضر کے قادرالکلام شاعر جناب شاہ نواز سواتی اقرار اور انکار کے دو ہم صوتی الفاظ سے ایک خوبصورت آہنگ پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔ میں اس کی دورخی کو جانتا ہوں،اسے اقرار بھی،انکار بھی ہے۔ایک اور شعر میں لفظ صدا کا خوبصورت تکرار دیکھیئے۔ہر صدا جب صدا بہ صحرا ہو۔۔پھر کسی کو صدا نہ دی جائے۔
اب لوٹتے ہیں غالب کے شعر کی جانب۔ شیریں اور فرہاد کے قصے میں فرہاد کے کمالِ فن کو بیان کرتے ہوئے لفظ کی اتنی خوبصورت Alliteration کی گئی ہے جو غالب جیسے شاعر کے ہی حصے میں آ سکتی ہے۔دیکھیئے اور سر دُھنیے۔ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا۔ جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے۔ ایک ہی مصرعے میں کا کہ کسی اور کمال کی تکرار بہت خوب اور لا جواب ہے۔اب یہ خوبصورتی،یہ مرصع کاری،جدت کی دھول میں کہیں گم ہو گئی ہے۔شعراء اگر ایسی روایات کو زندہ رکھیں تو اردو ادب اور شاعری پھر سے جگمگا اُٹھے۔