افغانستان کی صورتحال

افغانستان میں اسلامی طرز حکومت ناگزیر ہے

حالیہ افغانستان میں حالات جیسے بھی ہیں لیکن دنیا بھر میں طالبان کے حوالے سے تشویش پہلے کی طرح اب بھی برقرار ہے۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں، سوال اٹھ رہے ہیں اور یہ بے چینی، بے قراری کی سی کیفیت محسوس کرلی گئی ہے، نئی حکومت گزشتہ برس اگست میں آئی تو خیال تھا کہ دوبارہ اسی انداز سے شورش ابھرے گی اور بات پھر سے سرخ سگنل پر جاکر رک جائے گی لیکن فی الحال اندازے اس قدر درست ثابت نہیں ہو رہے جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

پہلی بار افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ اخوند زادہ کابل پہنچے اور قومی جرگے کے ذریعے منظر عام پر آئے، انھوں نے پشتو زبان میں تقریر کی اور گزشتہ دس مہینوں میں انھوں نے جوکچھ محسوس کیا اسے زبان دے ڈالی۔ انھوں نے اپنے ایک گھنٹے کے خطاب میں جو سرکاری ریڈیو سے بھی نشر ہوا تھا اس بات پر اصرار کیا کہ افغانستان میں اسلامی طرز حکومت ناگزیر ہے اور کامیاب اسلامی ریاست کا واحد نمونہ شرعی قوانین ہیں۔

ان کے مطابق افغانستان کو اسلامی ریاست کے نمونے کی طرز کے قیام پر انھیں دنیا بھر سے مبارک بادیں وصول ہو رہی ہیں۔ اس قومی جرگے میں تین ہزار سے زائد علما نے شرکت کی تھی۔ انھیں اس بات کا گلہ بھی ہے کہ کیوں دنیا ان کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے؟ امریکی فوج افغانستان میں جو کچھ کرچکی ہے لیکن افغانی سرحد سے نکل جانے کے بعد افغان سرکار نے انھیں معاف کردیا تھا۔

اتنے مہینوں کی خاموشی کے بعد اب طالبان کے سربراہ کا قومی جرگہ سے خطاب دراصل اندرونی اور بیرونی ان تمام سازشی عناصر کو باور کرانا ہے کہ ایک طویل جنگ اور قدرتی آفات کے بعد بھی وہ پرعزم ہیں۔ انھوں نے واضح الفاظ میں دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ اب انھیں دنیا یہ بتانا بند کردے کہ افغانستان کو کیسے چلانا ہے؟

افغانستان گزشتہ چالیس بیالیس برسوں سے مختلف جنگوں اور مسائل کا گڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل بھی خانہ جنگیوں کی شورش سنی گئی تھی۔ ایسے کٹھن حالات سے گزر کر اور اب بھی مشکل وقت میں ان کا یہ عزم قابل تعریف ہے لیکن کیا طالبان کے کنٹرول میں افغانستان ہے؟

پاکستان ایک طویل عرصے سے افغانستان کے ساتھ پڑوسی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر کھڑا رہا۔ باوجود اس کے وہاں سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا بھی ہوا لیکن سرحد کے اس پار آگ اور خون کی اس جنگ کو بجھانے اور سلجھانے میں ہمارا اپنا دامن بھی کئی بار آگ کی لپیٹ میں آیا۔


طالبان کے سربراہ ہبیت اللہ اخوند زادہ کی اس تقریر کا کیا اثر نکلنا ہے، یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان حکومت مختلف حکومتی اداروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن درحقیقت ایسا ابھی پوری طرح ممکن نہیں ہے کیونکہ بہت سے سرکاری ادارے اب بھی ان کے کنٹرول سے باہر ہیں یا معاملات غیر واضح ہیں۔

افغانستان کے ستر یا ایک اندازے کے مطابق اس سے بھی زیادہ سفارتی مشن حکومت سے الگ اور کابل سے بغیرکسی مالی معاونت کے کام کر رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کیونکہ دنیا میں کئی ممالک اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، پر شاید اب برف کچھ پگھل رہی ہے۔ افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے روس، پاکستان، چین اور ترکمانستان میں اپنے سفیر بھیجے لیکن دشواریاں اب بھی ان کی راہ میں حائل ہیں۔

گو پاکستان اور بھارت میں افغان باشندے کثرت سے آباد ہیں لیکن پھر بھی حکومتی سطح پر روابط میں ان تمام امورکو دیکھا جا رہا ہے جس پر انھیں دنیا بھر سے طعنوں و تشنوں کا سامنا کرنا پڑا، درحقیقت یہ تمام امور قابل توجہ ہیں مثلاً خواتین کی تعلیم اور نوکریوں سے متعلق مسائل جس پر ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً باتیں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔

پچھلے مہینے زلزلے کے بعد بدترین تباہی سے افغانستان پر مزید بوجھ بڑھ گیا ، دوحہ میں امریکا اور طالبان کے رہنماؤں کے درمیان امداد کے حوالے سے بات چیت ہوئی جس میں امریکا میں افغانستان کے منجمد اثاثے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بحال کرنے کے لیے ممکنات کو تلاش کیا گیا۔

امریکا اب بھی اس بات پر متزلزل ہے کہ آیا یہ اثاثے اور زرمبادلہ کو متاثرین زلزلہ کے سلسلے میں ہی خرچ کیا جائے گا یا نہیں۔ گو امریکا کی جانب سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز کی نئی امداد کا عندیہ تو دیا گیا ہے لیکن کیا واقعی امریکا یہ رقم ریلیز کرے گا اورکیا واقعی زلزلے سے متاثر عوام تک یہ مدد پہنچ سکے گی۔

پاکستان خواہش مند ہے کہ افغانستان پر سے پابندیاں اٹھانی ضروری ہیں ورنہ وہاں مسائل کا انبار بلند تر ہوتا جائے گا اور وہ دیوالیہ ہو جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ امریکا افغانستان پر سے پابندیاں ختم کرے اور اس کے منجمد کیے پانچ بلین ڈالرز واپس کردے۔

امید پر دنیا قائم ہے طالبان نے ماضی سے کیا سیکھا اور کیا وہ ان تجربوں کی روشنی میں مستقبل کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں گے کہ جس پر چل کر وہ اندرونی طور پر ایک مضبوط اسلامی قوانین پر مبنی حکومت پروان چڑھائیں اور بیرونی دنیا سے بھی اسی طرح روابط رکھیں جس طرح ماضی میں اسلامی حکومتیں رکھتی آئی تھیں۔
Load Next Story