ساحر لدھیانوی مزاحمتی شاعری سے فلمی شاعری تک
ساحر لدھیانوی کی شاعری نے محلوں میں رہنے والوں کو خوفزدہ کر دیا تھا
ایک وہ دور تھا جب ہندوستانی فلموں کے نامور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی مزاحمتی شاعری کے دل دادہ تھے اور ترقی پسند اردو تحریک کے صف اول کے لکھنے والوں میں شامل تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان (غیر منقسم) کے ادیبوں اور شاعروں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈالی تھی اور اس انجمن میں جو سب سے زیادہ سرگرم رائٹرز تھے۔
ان میں علی سردار جعفری، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، کیفی اعظمی اور جان نثار اختر بھی شامل تھے۔ اس وقت ساحر لدھیانوی کی مزاحمتی شاعری نوجوان نسل اور دیگر ادبی حلقوں میں شعلے برساتی شاعری تصور کی جاتی تھی۔ ساحر کی بعض نظموں نے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا، ان نظموں میں خاص طور پر سماجی ناانصافیوں، معاشرتی ناہمواریوں اور اخلاقی پستیوں کو اجاگر کیا گیا تھا جیسے کہ ساحر لدھیانوی کی چند مندرجہ ذیل نظموں کے خاص اشعار اور عنوانات نے پڑھنے والوں کو ساحر لدھیانوی کی شاعری کا گرویدہ بنادیا تھا۔ جیسے کہ ان کی یہ شاعری۔
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کاررواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
......
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
......
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو یہ زہر بھی پی لیا میں نے
......
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کسی تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
......
بدلا تو ایسا بدلا ہے کچھ رنگ گلستاں
اک پھول پر بہار ہے اک پھول پر خزاں
......
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
......
خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
اور پھر ساحر لدھیانوی نے تاج محل پر جو ایک نظم کہی تھی، اس نظم نے تو اشرافیہ اور سامراجی نظام پر بڑی کاری ضرب لگائی تھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
تاج ترے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی کی شاعری نے محلوں میں رہنے والوں کو خوفزدہ کر دیا تھا اور سیاسی ایوانوں میں بھی ایک اضطراب پیدا کردیا تھا۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فلمی دنیا کے لوگوں نے ساحر لدھیانوی کو مزاحمتی شاعری سے وقتی طور پر جدا کرکے فلمی دنیا کی رونقوں میں سمیٹ لیا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا کا رخ کیا تو وہاں بے تکی شاعری کا راج تھا، ساحر لدھیانوی نے فلمی گیتوں کو بھی ترقی پسند رنگ دیا اور فلمی گیتوں کا انداز ہی بدل دیا تھا۔
ساحر لدھیانوی نے اپنا پہلا فلمی گیت فلم ''نوجوان'' کے لیے لکھا۔ اس فلم کے ہدایت کار مہیش کول تھے اور فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے۔ اس فلم میں تلنی جیونت، پریم ناتھ اور نواب کاشمیری مرکزی کردار تھے یہ گیت فلم کی ہیروئن تلنی جیونت پر فلمایا گیا تھا اور گیت کے بول تھے:
ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں
رُت ہے جواں تم کو یہاں
کیسے بلائیں
دل کے فسانے دل بھی نہ جانے
تم کو سجن دل کی لگن کیسے بتائیں
ٹھنڈی ہوائیں
اور ساحر لدھیانوی نے اپنا پہلا فلمی نغمہ موسیقار ایس ڈی برمن کی دھن پر لکھا تھا، یہ فلم 1951 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور فلمی دنیا میں ساحر لدھیانوی کی آمد کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ساحر لدھیانوی کی فلمی زندگی کی طرف آؤں کچھ اس کی ابتدائی زندگی پر بھی روشنی ڈالتا چلوں۔ ساحر لدھیانوی کا گھریلو نام عبدالحئی تھا، اس کا ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔
باپ ایک ظالم شخص تھا اور عیار بھی تھا، اس نے اپنی بیوی کو کبھی کوئی سکھ نہیں دیا تھا۔ بلکہ وہ اپنی بیوی پر ظلم بھی کیا کرتا تھا اور عبدالحئی اپنی کمسنی کے ساتھ یہ سارے ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا تھا۔ اس کو اپنے باپ سے نفرت ہوگئی تھی، جب یہ سن شعور کو پہنچا تو اس نے اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔ ''ماں! میں تم کو ایک دن مصیبتوں کی زندگی سے ضرور نجات دلاؤں گا'' پھر لاہور کالج سے اس نے بی اے کی ڈگری لی اور پھر ادبی دنیا سے اس نے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا۔ مزاحمتی شاعری اس کے مزاج میں بچپن ہی سے آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا چکی تھی۔
پھر جب اس نے مختلف رسالوں اور اخبارات میں لکھنا شروع کیا تو اس کی شاعری کا انداز ہی سب سے جدا تھا۔ اس کی اس دور میں ساری سلگتی ہوئی شاعری تھی، اس نے لاہور کے مشہور ادبی رسالے ادب لطیف میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر وہ اس کے ایڈیٹر بھی ہوگئے تھے، مگر پھر ساحر لدھیانوی نے اپنی ماں کو ساتھ لے کر دہلی کا رخ کیا اور لاہور کی ساری تلخ یادوں کو بھلا دیا تھا۔ دہلی میں ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی اور کھل کر اپنی شاعری سے معاشرے کی دکھتی رگوں پر شاعری کا آغاز کیا، جس انداز کی شاعری ساحر لدھیانوی کی تھی اس کی شاعری نے لاکھوں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔
اس کی شہرت بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی تھی اس کی بعض غزلیں اور نظمیں فلم سازوں کی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی تھیں، اسی دوران فلمی دنیا میں اس کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی تھی۔
فلم ''نوجوان'' کے بعد جس فلم نے سب سے زیادہ ساحر لدھیانوی کو شہرت بخشی وہ فلم تھی ''پھر صبح ہوگی۔'' اس فلم کے پروڈیوسر و ڈائریکٹر رمیش سہگل تھے اور فلم کے موسیقار خیام تھے۔ جنھوں نے ساحر لدھیانوی سے ملاقات کے دوران بتایا کہ وہ ان کی شاعری کے ایک عرصے سے دیوانے رہے ہیں اور وہ ان کی چند غزلوں کی دھنیں بھی بنا چکے ہیں۔
(جاری ہے۔)
ان میں علی سردار جعفری، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، کیفی اعظمی اور جان نثار اختر بھی شامل تھے۔ اس وقت ساحر لدھیانوی کی مزاحمتی شاعری نوجوان نسل اور دیگر ادبی حلقوں میں شعلے برساتی شاعری تصور کی جاتی تھی۔ ساحر کی بعض نظموں نے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا، ان نظموں میں خاص طور پر سماجی ناانصافیوں، معاشرتی ناہمواریوں اور اخلاقی پستیوں کو اجاگر کیا گیا تھا جیسے کہ ساحر لدھیانوی کی چند مندرجہ ذیل نظموں کے خاص اشعار اور عنوانات نے پڑھنے والوں کو ساحر لدھیانوی کی شاعری کا گرویدہ بنادیا تھا۔ جیسے کہ ان کی یہ شاعری۔
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کاررواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
......
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
......
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو یہ زہر بھی پی لیا میں نے
......
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کسی تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
......
بدلا تو ایسا بدلا ہے کچھ رنگ گلستاں
اک پھول پر بہار ہے اک پھول پر خزاں
......
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
......
خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
اور پھر ساحر لدھیانوی نے تاج محل پر جو ایک نظم کہی تھی، اس نظم نے تو اشرافیہ اور سامراجی نظام پر بڑی کاری ضرب لگائی تھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
تاج ترے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ساحر لدھیانوی کی شاعری نے محلوں میں رہنے والوں کو خوفزدہ کر دیا تھا اور سیاسی ایوانوں میں بھی ایک اضطراب پیدا کردیا تھا۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فلمی دنیا کے لوگوں نے ساحر لدھیانوی کو مزاحمتی شاعری سے وقتی طور پر جدا کرکے فلمی دنیا کی رونقوں میں سمیٹ لیا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا کا رخ کیا تو وہاں بے تکی شاعری کا راج تھا، ساحر لدھیانوی نے فلمی گیتوں کو بھی ترقی پسند رنگ دیا اور فلمی گیتوں کا انداز ہی بدل دیا تھا۔
ساحر لدھیانوی نے اپنا پہلا فلمی گیت فلم ''نوجوان'' کے لیے لکھا۔ اس فلم کے ہدایت کار مہیش کول تھے اور فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے۔ اس فلم میں تلنی جیونت، پریم ناتھ اور نواب کاشمیری مرکزی کردار تھے یہ گیت فلم کی ہیروئن تلنی جیونت پر فلمایا گیا تھا اور گیت کے بول تھے:
ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں
رُت ہے جواں تم کو یہاں
کیسے بلائیں
دل کے فسانے دل بھی نہ جانے
تم کو سجن دل کی لگن کیسے بتائیں
ٹھنڈی ہوائیں
اور ساحر لدھیانوی نے اپنا پہلا فلمی نغمہ موسیقار ایس ڈی برمن کی دھن پر لکھا تھا، یہ فلم 1951 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور فلمی دنیا میں ساحر لدھیانوی کی آمد کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ساحر لدھیانوی کی فلمی زندگی کی طرف آؤں کچھ اس کی ابتدائی زندگی پر بھی روشنی ڈالتا چلوں۔ ساحر لدھیانوی کا گھریلو نام عبدالحئی تھا، اس کا ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔
باپ ایک ظالم شخص تھا اور عیار بھی تھا، اس نے اپنی بیوی کو کبھی کوئی سکھ نہیں دیا تھا۔ بلکہ وہ اپنی بیوی پر ظلم بھی کیا کرتا تھا اور عبدالحئی اپنی کمسنی کے ساتھ یہ سارے ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا تھا۔ اس کو اپنے باپ سے نفرت ہوگئی تھی، جب یہ سن شعور کو پہنچا تو اس نے اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔ ''ماں! میں تم کو ایک دن مصیبتوں کی زندگی سے ضرور نجات دلاؤں گا'' پھر لاہور کالج سے اس نے بی اے کی ڈگری لی اور پھر ادبی دنیا سے اس نے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا۔ مزاحمتی شاعری اس کے مزاج میں بچپن ہی سے آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا چکی تھی۔
پھر جب اس نے مختلف رسالوں اور اخبارات میں لکھنا شروع کیا تو اس کی شاعری کا انداز ہی سب سے جدا تھا۔ اس کی اس دور میں ساری سلگتی ہوئی شاعری تھی، اس نے لاہور کے مشہور ادبی رسالے ادب لطیف میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر وہ اس کے ایڈیٹر بھی ہوگئے تھے، مگر پھر ساحر لدھیانوی نے اپنی ماں کو ساتھ لے کر دہلی کا رخ کیا اور لاہور کی ساری تلخ یادوں کو بھلا دیا تھا۔ دہلی میں ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی اور کھل کر اپنی شاعری سے معاشرے کی دکھتی رگوں پر شاعری کا آغاز کیا، جس انداز کی شاعری ساحر لدھیانوی کی تھی اس کی شاعری نے لاکھوں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔
اس کی شہرت بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی تھی اس کی بعض غزلیں اور نظمیں فلم سازوں کی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی تھیں، اسی دوران فلمی دنیا میں اس کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی تھی۔
فلم ''نوجوان'' کے بعد جس فلم نے سب سے زیادہ ساحر لدھیانوی کو شہرت بخشی وہ فلم تھی ''پھر صبح ہوگی۔'' اس فلم کے پروڈیوسر و ڈائریکٹر رمیش سہگل تھے اور فلم کے موسیقار خیام تھے۔ جنھوں نے ساحر لدھیانوی سے ملاقات کے دوران بتایا کہ وہ ان کی شاعری کے ایک عرصے سے دیوانے رہے ہیں اور وہ ان کی چند غزلوں کی دھنیں بھی بنا چکے ہیں۔
(جاری ہے۔)