قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے
بارشوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی ہوئی ہے
ملک میں مون سون سیزن کا آغاز قبل از وقت ہوچکا ہے، بارشوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی ہوئی ہے، بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے، عوام کی مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں۔ دوسری جانب سندھ میں مختلف مراحل میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں ، جب کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پر سترہ جولائی کو انتخابی معرکا ہوگا۔
قوم ہکا بکا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ خود ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہیں لیکن قوم کو قطار میں کھڑا ہونے کا کہا جاتا ہے کہ اسی میں ان کی بقا اور سلامتی ہے۔ گزشتہ دنوں جے یو آئی نے پی پی پی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی الیکشن سانگھڑ میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی ہے جس کی پارٹی پر زور مذمت کرتی ہے۔ اب قوم سوچ رہی ہے کہ پی ڈی ایم کا حصہ تو پی پی پی بھی ہے اور عدم اعتماد میں سب نے بھرپور طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔
کامیابی کے بعد پھر سیاسی روایات وہی ہوں گی، جو ماضی میں تھیں پنجاب کے الیکشن میں بھی جو ضمنی ہیں سب اپنی اپنی پارٹیوں کے تحت لڑ رہے ہیں کہاں ہے پی ڈی ایم؟ اس کا جواب ہے قوم کے لیے 2023 میں جب الیکشن ہوں گے تو ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کا صرف نام ہو اور الیکشن سب الگ الگ لڑیں۔ عدم اعتماد کے وقت تو تمام پارٹیوں کے ایم این ایز ایک پلیٹ فارم پر تھے لیکن جب ضمنی الیکشن کا وقت آیا تو ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی۔
ماضی میں بھی عوام اور آج بھی اس امید پر ووٹ دیتے آرہے ہیں کہ شاید ان کے نمایندے بنیادی مسائل حل کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہ ماضی میں ہوا اور نہ مستقبل میں امید ہے۔
حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ملنے پر مبارک باد کے پیغامات دیے جاتے ہیں کہ معیشت میں بہتری ہو جائے گی، یعنی قوم قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تالیاں بجائے۔ جب سیاسی جماعتیں برسراقتدار آجاتی ہیں تو قرض اتارنے کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ ملک کا بچہ بچہ اب آئی ایم ایف کا مقروض ہے یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد تعلیم یافتہ طبقہ حواس باختہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ سیاست دان مخالفین کو ملک دشمن اور چور کہتے ہیں اور پھر ان کی پشت پناہی کرنے والے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔
اخبارات کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی دواؤں پر ماہانہ ایک کروڑ کے اخراجات آئے جبھی تو سیاسی طور پر آئی ایم ایف کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف جماعت اسلامی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے، شہرقائد کی سیاست میں جماعت اسلامی فعال کردار کر رہی ہے۔ شہر کو درپیش مسائل کے حل اور بلدیاتی قوانین کے حوالے سے اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ بعض حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ اس دفعہ بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کریں گے جماعت اسلامی نے مسائل پر آواز اٹھا کر ہمدردی سمیٹ لی ہے اور پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا۔
ادھر پی ڈی ایم میں اختلافات پائے جاتے ہیں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے اختلافات، مسلم لیگ (ق) اسمبلیوں میں بھی تقسیم، رہا معاملہ عوام کا تو وہ تو اس جمہوریت کے ناتے کولہو کے بیل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور شاید آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔
گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ قوم چائے پینا کم کردے، میرے محترم ایک سوال کا جواب آپ بھی دے دیں یہ جو 15 افراد پر مشتمل اجلاس ہوتے ہیں ان میں منرل واٹر کی بوتلیں رکھی ہوتی ہیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر اجلاس میں بے شمار گلدستے رکھے جاتے ہیں جن کا بل یقیناً ہزاروں میں ہوتا ہوگا، ان گلدستوں کو کس لیے رکھا جاتا ہے اس کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ ضرور آگاہ کرے۔ آج تک کسی کو پتا نہیں چلا، ان گلدستوں کی کیا افادیت ہے؟
قائد اعظم کے ملٹری سیکریٹری نے ایک بل محترم قائد کو دیا کہ '' یہ چائے کا بل ہے سائن کردیں'' وہ بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ '' آیندہ اس قسم کا کوئی بل مجھے نہ دیں لوگوں سے کہیں چائے گھر سے پی کر آئیں'' جب کہ یہاں ایک گھنٹے کے اجلاس کے لیے گلدستوں کی بارش ٹیبل پر ہوتی ہے۔
سلامت رہے آئی ایم ایف، کابینہ میں 3 معاون خصوصی کا اضافہ ہو گیا جن کی تعداد 55 ہوگئی یہ تو بہت کم ہے کہاں بائیس کروڑ عوام کہاں صرف 55 وزرا، یہ وزرا کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 55 افراد کس طرح 20 کروڑ عوام کے مسائل کا حل تلاش کریں گے لہٰذا ان کی تعداد مسائل کو دیکھتے ہوئے کم ازکم ایک ہزار تو ہونی چاہیے یہ 55 افراد کیسے مسائل حل کرسکیں گے، کیا خوب شاعر جون ایلیا نے کہا :
حال ایسا کہ زندگی بھی حرام
دین میں تو خودکشی بھی حرام
ایک معروف سیاسی شخصیت کا بیان ہے کہ عوام جولائی میں بجلی اور سردیوں میں گیس بحران کے لیے تیار ہو جائیں، بجائے اس کا کوئی حل نکالا جائے یقین دہانی کرائی جا رہی ہے جی عوام تیار رہیں۔ دراصل بجلی اور گیس کے لیے بہت ضروری ممکنہ اقدامات کی ضرورت ہے، بنیادی سہولتوں کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے اس قوم کو بیانات دیتے ہوئے یہ سیاسی لوگ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے، ناکامی دل گرفتہ کا تو یہ حال ہے جس چیز پر اب روشنی ڈالی جائے گی وہ آپ عوام کے دلوں کی آواز ہوگی بقر عید اتوارکی ہے اور آپ یہ کالم جمعہ کو پڑھ رہے ہوں گے ، بکرے انتہائی مہنگے داموں فروخت کیے جارہے ہیں نہ تو ملک میں بکروں کا قحط ہے نہ کوئی وبا پھیلی ہوئی ہے، جو شخص بکرے کی اتنی زیادہ قیمت مانگ رہا ہے اس کا اگر آپ حلیہ دیکھ لیں تو اس قوم کو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے۔ یہ سلسلہ کراچی سے لے کر خیبر تک پھیل چکا ہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی کے حوالے سے یہ ایک سوالیہ نشان ہے اگر اسی سال اس پر توجہ نہیں دی گئی تو اگلے سال یہ روایت بڑھ کر برقرار رہے گی۔ سی آئی اے کے معزز افسران اور ان کے رکن بازاروں میں قیمت کا سروے سنجیدگی سے کریں ، ڈی سی، اے ڈی سی کمشنر حضرات اس پر پہلی فرصت میں توجہ دیں، بقر عید کے بعد تیر کمان سے نکل جائے گا اور کمان سے نکلنے کے بعد تیر واپس نہیں آتا لہٰذا پہلی فرصت میں ان ناجائز منافع خوروں کو پکڑیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلے سال 16 یا 17 کلو کا بکرا ایک لاکھ میں ملے گا ،اگر ملک میں جانوروں کے حوالے سے کوئی آفت آگئی ہے تو بات سمجھ آتی ہے یہ خودساختہ ریٹ اس قوم کو قربانی سے محروم کریں گے اس کا جواب ہمارے سیاسی حضرات کو دینا ہوگا۔ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس مسئلے پر پہلی فرصت میں قدم اٹھائیں۔
15 کلو کے بکرے کا گوشت 1500 روپے فروخت ہوتا ہے اس میں قصائی کو بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے 15 کلو کا بکرا 1500 روپے کلو کے حساب سے 22,500 کا ہوا اور یہ لوگ 15 کلو بکرے کے 60,000 مانگ رہے ہیں،وہ بھی داداگیری سے یعنی کے 4000 روپے کلو کا قربانی کا جانور فروخت ہو رہا ہے۔ اس پر سخت ایکشن لیا جائے۔ لوگ اب غیظ و غضب کا شکار ہوتے جا رہے ہیں لوگ اب اس سیاست کو برا کہہ رہے ہیں مہنگائی نے جینا حرام کردیا ہے ، متعلقہ ادارے منافع خوروںکی ناک میں نکیل ڈالیں کہ انھیں پتا لگے کہ یہ ملک قانونی طور پر ابھی مکمل یتیم نہیں ہوا ہے۔
قوم ہکا بکا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ خود ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہیں لیکن قوم کو قطار میں کھڑا ہونے کا کہا جاتا ہے کہ اسی میں ان کی بقا اور سلامتی ہے۔ گزشتہ دنوں جے یو آئی نے پی پی پی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی الیکشن سانگھڑ میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی ہے جس کی پارٹی پر زور مذمت کرتی ہے۔ اب قوم سوچ رہی ہے کہ پی ڈی ایم کا حصہ تو پی پی پی بھی ہے اور عدم اعتماد میں سب نے بھرپور طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔
کامیابی کے بعد پھر سیاسی روایات وہی ہوں گی، جو ماضی میں تھیں پنجاب کے الیکشن میں بھی جو ضمنی ہیں سب اپنی اپنی پارٹیوں کے تحت لڑ رہے ہیں کہاں ہے پی ڈی ایم؟ اس کا جواب ہے قوم کے لیے 2023 میں جب الیکشن ہوں گے تو ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کا صرف نام ہو اور الیکشن سب الگ الگ لڑیں۔ عدم اعتماد کے وقت تو تمام پارٹیوں کے ایم این ایز ایک پلیٹ فارم پر تھے لیکن جب ضمنی الیکشن کا وقت آیا تو ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی۔
ماضی میں بھی عوام اور آج بھی اس امید پر ووٹ دیتے آرہے ہیں کہ شاید ان کے نمایندے بنیادی مسائل حل کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہ ماضی میں ہوا اور نہ مستقبل میں امید ہے۔
حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ملنے پر مبارک باد کے پیغامات دیے جاتے ہیں کہ معیشت میں بہتری ہو جائے گی، یعنی قوم قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تالیاں بجائے۔ جب سیاسی جماعتیں برسراقتدار آجاتی ہیں تو قرض اتارنے کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ ملک کا بچہ بچہ اب آئی ایم ایف کا مقروض ہے یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد تعلیم یافتہ طبقہ حواس باختہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ سیاست دان مخالفین کو ملک دشمن اور چور کہتے ہیں اور پھر ان کی پشت پناہی کرنے والے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔
اخبارات کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی دواؤں پر ماہانہ ایک کروڑ کے اخراجات آئے جبھی تو سیاسی طور پر آئی ایم ایف کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف جماعت اسلامی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے، شہرقائد کی سیاست میں جماعت اسلامی فعال کردار کر رہی ہے۔ شہر کو درپیش مسائل کے حل اور بلدیاتی قوانین کے حوالے سے اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ بعض حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ اس دفعہ بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کریں گے جماعت اسلامی نے مسائل پر آواز اٹھا کر ہمدردی سمیٹ لی ہے اور پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا۔
ادھر پی ڈی ایم میں اختلافات پائے جاتے ہیں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے اختلافات، مسلم لیگ (ق) اسمبلیوں میں بھی تقسیم، رہا معاملہ عوام کا تو وہ تو اس جمہوریت کے ناتے کولہو کے بیل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور شاید آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔
گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ قوم چائے پینا کم کردے، میرے محترم ایک سوال کا جواب آپ بھی دے دیں یہ جو 15 افراد پر مشتمل اجلاس ہوتے ہیں ان میں منرل واٹر کی بوتلیں رکھی ہوتی ہیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر اجلاس میں بے شمار گلدستے رکھے جاتے ہیں جن کا بل یقیناً ہزاروں میں ہوتا ہوگا، ان گلدستوں کو کس لیے رکھا جاتا ہے اس کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ ضرور آگاہ کرے۔ آج تک کسی کو پتا نہیں چلا، ان گلدستوں کی کیا افادیت ہے؟
قائد اعظم کے ملٹری سیکریٹری نے ایک بل محترم قائد کو دیا کہ '' یہ چائے کا بل ہے سائن کردیں'' وہ بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ '' آیندہ اس قسم کا کوئی بل مجھے نہ دیں لوگوں سے کہیں چائے گھر سے پی کر آئیں'' جب کہ یہاں ایک گھنٹے کے اجلاس کے لیے گلدستوں کی بارش ٹیبل پر ہوتی ہے۔
سلامت رہے آئی ایم ایف، کابینہ میں 3 معاون خصوصی کا اضافہ ہو گیا جن کی تعداد 55 ہوگئی یہ تو بہت کم ہے کہاں بائیس کروڑ عوام کہاں صرف 55 وزرا، یہ وزرا کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 55 افراد کس طرح 20 کروڑ عوام کے مسائل کا حل تلاش کریں گے لہٰذا ان کی تعداد مسائل کو دیکھتے ہوئے کم ازکم ایک ہزار تو ہونی چاہیے یہ 55 افراد کیسے مسائل حل کرسکیں گے، کیا خوب شاعر جون ایلیا نے کہا :
حال ایسا کہ زندگی بھی حرام
دین میں تو خودکشی بھی حرام
ایک معروف سیاسی شخصیت کا بیان ہے کہ عوام جولائی میں بجلی اور سردیوں میں گیس بحران کے لیے تیار ہو جائیں، بجائے اس کا کوئی حل نکالا جائے یقین دہانی کرائی جا رہی ہے جی عوام تیار رہیں۔ دراصل بجلی اور گیس کے لیے بہت ضروری ممکنہ اقدامات کی ضرورت ہے، بنیادی سہولتوں کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے اس قوم کو بیانات دیتے ہوئے یہ سیاسی لوگ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے، ناکامی دل گرفتہ کا تو یہ حال ہے جس چیز پر اب روشنی ڈالی جائے گی وہ آپ عوام کے دلوں کی آواز ہوگی بقر عید اتوارکی ہے اور آپ یہ کالم جمعہ کو پڑھ رہے ہوں گے ، بکرے انتہائی مہنگے داموں فروخت کیے جارہے ہیں نہ تو ملک میں بکروں کا قحط ہے نہ کوئی وبا پھیلی ہوئی ہے، جو شخص بکرے کی اتنی زیادہ قیمت مانگ رہا ہے اس کا اگر آپ حلیہ دیکھ لیں تو اس قوم کو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے۔ یہ سلسلہ کراچی سے لے کر خیبر تک پھیل چکا ہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی کے حوالے سے یہ ایک سوالیہ نشان ہے اگر اسی سال اس پر توجہ نہیں دی گئی تو اگلے سال یہ روایت بڑھ کر برقرار رہے گی۔ سی آئی اے کے معزز افسران اور ان کے رکن بازاروں میں قیمت کا سروے سنجیدگی سے کریں ، ڈی سی، اے ڈی سی کمشنر حضرات اس پر پہلی فرصت میں توجہ دیں، بقر عید کے بعد تیر کمان سے نکل جائے گا اور کمان سے نکلنے کے بعد تیر واپس نہیں آتا لہٰذا پہلی فرصت میں ان ناجائز منافع خوروں کو پکڑیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلے سال 16 یا 17 کلو کا بکرا ایک لاکھ میں ملے گا ،اگر ملک میں جانوروں کے حوالے سے کوئی آفت آگئی ہے تو بات سمجھ آتی ہے یہ خودساختہ ریٹ اس قوم کو قربانی سے محروم کریں گے اس کا جواب ہمارے سیاسی حضرات کو دینا ہوگا۔ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس مسئلے پر پہلی فرصت میں قدم اٹھائیں۔
15 کلو کے بکرے کا گوشت 1500 روپے فروخت ہوتا ہے اس میں قصائی کو بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے 15 کلو کا بکرا 1500 روپے کلو کے حساب سے 22,500 کا ہوا اور یہ لوگ 15 کلو بکرے کے 60,000 مانگ رہے ہیں،وہ بھی داداگیری سے یعنی کے 4000 روپے کلو کا قربانی کا جانور فروخت ہو رہا ہے۔ اس پر سخت ایکشن لیا جائے۔ لوگ اب غیظ و غضب کا شکار ہوتے جا رہے ہیں لوگ اب اس سیاست کو برا کہہ رہے ہیں مہنگائی نے جینا حرام کردیا ہے ، متعلقہ ادارے منافع خوروںکی ناک میں نکیل ڈالیں کہ انھیں پتا لگے کہ یہ ملک قانونی طور پر ابھی مکمل یتیم نہیں ہوا ہے۔