کسی پر یقین نہیں اپنا استاد خود ہوں تاز

’راک سٹار‘‘ بننے کی خواہش پروالدین ناراض ہوگئے، لاہورکی مصالحہ فش اورگلاب جامن پسند ہیں، تاز


Qaiser Iftikhar March 11, 2014
گلوکار تاز (سٹیریونیش) کی ’ایکسپریس فورم ‘ میں گفتگو۔ فوٹو : شہباز ملک

لاہور: میں کسی استاد پریقین نہں رکھتا، اگرآپ میں صلاحیت ہے تواستاد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

میں گانا خود لکھتا،خود کمپوزکرتا اورخود ہی گاتا ہوں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی نظروں میں کوئی گانا اتنا اچھا نہیں ہوتا لیکن پبلک میں وہ سُپرہٹ ہوجاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی گانا بہت دل سے تیار کیا جاتا ہے لیکن لوگ اس کوزیادہ پسند نہیں کرتے۔ گیت ''نچاں گے ساری رات '' لکھا توخود ہی پڑھ کراس کاغذ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، لیکن میرے دوستوں نے وہ کاغذ ٹوکری سے نکال کر سیدھا کیا اورمجھے مجبورکیا کہ میں اسے ضرور گاؤں ، جب میں نے اسے گایا تووہ گیت سپرہٹ ہوگیا۔

 photo 8_zps9097fb13.jpg

دوسری جانب میرا گیت ''عشق ہوگیا'' کوبڑے دل سے لکھا تھا اوربڑی محنت سے اس کی دھن بھی تیارکی تھی لیکن اس گیت کو لوگوں میں زیادہ مقبولیت نہیں مل سکی تھی۔ ان خیالات کا اظہار بھارتی نژاد برطانوی پاپ بینڈ سٹیریونیشن کے روح رواں ترسیم سنگھ سیانی (تاز) نے ''ایکسپریس فورم'' میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پران کا کہنا تھا کہ میں جب بھی کوئی نیا گیت تیار کرتا ہوں تو میں سب سے پہلے اسے گنگنا کر اس کا ردھم بناتا ہوں اورپھراس کے بول لکھتا ہوں۔ میری پہلی کوشش ہوتی ہے کہ کسی گانے کو کاپی نہ کروں بلکہ کوئی نئی اور اچھوتی چیز تیار کروں۔ نئے گلوکاروں کے گانے مقبول نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے گلوکاروں کی کاپی کرتے ہیں، ان گانوں کے بول نا قابل فہم اورمیوزک بولوں پر حاوی ہوتا ہے۔

بول جب سننے والے کی زبان پرنہیں چڑھتے تووہ گانا مقبول کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ جوگانا لوگوں کی زبان پرنہیں چڑھے گا ، وہ مقبول کیسے ہوگا۔ ویسے بھی نئے گلوکار دیکھتے ہیں کہ کسی بڑے سٹاردھیمے مزاج کا کوئی گانا تیار کیا ہے توسب کے سب دھیمے انداز کے گیت بنانے لگ جاتے ہیں، بڑے گلوکار فوک گاتے ہیں توباقی بھی فوک گانا شروع کردیتے ہیں۔ ایک عجیب سی بھیڑچال میں وہ اپنی جگہ بناہی نہیں پاتے۔ اس وقت بالی وڈ میں جو لوگ ریپ، پاپ اورہپ ہاپ سمیت دیگر اصناف میں کام کررہے ہیں ، وہ صرف دو ، تین برس ہی شہرت کا مزہ اٹھاتے ہیں اور پھر کہیں کھوجاتے ہیں۔ ان کا کام دیرپا نہیں ہے۔ مارکیٹ میں مستقل جگہ بنانے کیلئے منفردکام جب تک نہ کیا جائے اس وقت تک آپ کی جگہ نہیں بن پاتی۔



انہوں نے کہا کہ گزشتہ 26 برس سے میوزک کی فیلڈ میں ہوں اورمیں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میں وہ انداز پیش کروں جس کوکوئی اورنہ کررہا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے پاپ انڈسٹری میں قدم رکھا تو میرے میوزک کو بہت پسندکیا گیا۔ میرا کام دوسروں سے مختلف تھا اوراسی وجہ سے ان کو آج بھی لوگ اسی طرح سنتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ترسیم سنگھ سیانی (تاز) کا کہنا تھا کہ میں کسی خاص انداز کا میوزک نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں بنایا جانے والا میوزک پسند کرتا ہوں۔ عربی، افریقی اوریورپ سمیت دیگر ممالک کے میوزک نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اسی لئے میرے پسندیدہ میوزک اور گانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں ملکہ ترنم نورجہاں، استادنصرت فتح علی خاں سمیت دیگرکے گیت بہت پسند ہیں۔

جہاں تک بات پاکستان میں کسی سنگر کے ساتھ کام کرنے کی ہے تو مجھے گلوکارہ شازیہ منظور بہت پسند ہیں اوران کے ساتھ کام بھی کرونگا۔ اس حوالے سے جونہی میں نے ایک ریڈیو چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات کاتذکرہ کیا توشازیہ منظورنے فون کال کی اور میری اس خواہش کو بہت سراہا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جانب میں نے پاکستان میں بہت سے نوجوان گلوکاروں کوکام کرنے کا موقع دیا ہے۔ ہم بہت سے نوجوان گلوکاروں کو میوزک کی فیلڈ میں بہترانداز سے متعارف کروانے کیلئے کوشاں ہیں اوراس کیلئے ہم نے بہترین گلوکاروں کا انتخاب کیا ہے جن کے گیت اورویڈیو بھی بنائے جائیں گے۔



اپنی نجی زندگی کے بارے میں مختصر گفتگو کرتے ترسیم سنگھ سیانی نے کہا کہ میری پیدائش برطانیہ میں ہوئی لیکن گھر ہمیں انگریزی بولنے کی بالکل اجازت نہ تھی اورہم گھر پرپنجابی بولتے تھے۔ انڈسٹریل ڈیزائن میں انجینئرنگ کررہا تھا کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں ''راک سٹار'' بننا چاہتاہوں تو وہ بہت ناراض ہوئے میں نے گانا شروع کردیا تو میرے والدین پانچ برس تک مجھ سے ناراض رہے اور بول چال بھی بند رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری کامیابی کی بڑی وجہ میرا اپنے اوپر یقین تھا کہ میں یہ کام کرگزروں گا اور یہی یقین میری کامیابی کی سیڑھی بھی بنا۔

ترسیم سنگھ سیانی المعروف تاز نے گفتگوکے آخر میں بتایاکہ پاکستان اکثرآتا رہتاہوں یہاں اتنی گڑبڑ نہیں ہے جتنی مغربی میڈیا دکھاتا ہے۔ وہ چھوٹی سی خبرکو بڑا بنا دیتا ہے۔ میرا تویہاں ہمیشہ اچھا وقت گزرتا ہے۔ مجھے یہاں پر لوگوں نے بہت پیاردیا ، مزے مزے کے کھانے کھائے، مجھے لاہور میں مصالحہ فش اورمیٹھے میں گلاب جامن بہت پسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خصوصاً لاہور کے زندہ دل لوگوں کی کیا بات ہے۔ یہاں کا کلچر، لوگوں کی مہمان نوازی اور لذیز پکوان مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر بسنت کے نہ ہونے کا افسوس بھی ہے۔ بہت ہی خوبصورت فیسٹیول تھا جو لاہور کی پہچان تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں