اوئے میں کوئی پاغل آں
آج ذرا خود پر غور کیجے گا جب آپ گھر سے نکلیں اور آپ کو کوئی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئیں یا کالا چشمہ پہنے۔۔۔
آج ذرا خود پر غور کیجے گا جب آپ گھر سے نکلیں اور آپ کو کوئی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئیں یا کالا چشمہ پہنے سفید چھڑی ہلاتے فٹ پاتھ پے ملیں یا اسی فٹ پاتھ پر دونوں پیر گھسٹتے دکھائی دیں، ہم میں سے بیشتر ان لوگوں کے لیے ایک لمحاتی ہمدردی محسوس کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ہماری طرح کے ان نارمل دماغ و دل کے لوگوں کو ہماری ہمدردی سے زیادہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بیمار نہیں کہ آپ ان پر عیادت بھری نگاہ ڈالیں۔یہ ناکام نہیں کہ آپ ان پر ترس کھائیں۔یہ نکھٹو نہیں ، بھکاری نہیں۔یہ بھی ایک خوبصورت اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں مگر ہم آپ جیسے نام نہاد جسمانی نارمل لوگوں کی ہمدردی و ترس ان کے لیے سب سے بڑا تازیانہ بن جاتا ہے۔آخر ہم ان کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ایک نارمل رویے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے۔
اس وقت اس دنیا کے ہر سو میں سے پندرہ لوگ کسی نا کسی جسمانی یا زہنی کمی میں مبتلا ہیں اور ان میں سے ستر تا اسی فیصد ترقی پذیر دنیا میں رہتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی و ذہنی کمی کے شکار لوگوں کا کوئی سائنسی سروے موجود نہیں لیکن انیس سو اٹھانوے کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں پونے تین ملین معذور افراد تھے اور اس تناسب سے اندازہ ہے کہ گذشتہ سولہ برس میں ان کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔اور یہ تعداد ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت جیسے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ ہے۔
لیکن ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت سمیت بیشتر امیر یا متوسط ممالک میں معذوری بوجھ سمجھے جانے کے بجائے رفتہ رفتہ محض ایک جسمانی کمی کے درجے تک لائی جاچکی ہے۔ ان ممالک میں روزگار کے اکثر شعبوں میں کوئی بھی جسمانی کمی کا شکار اپنے صلاحتیوں کے حساب سے کوئی بھی کام منتخب کرنے میں آزاد ہے۔فٹ پاتھوں سے لے کر عمارتوں ، بسوں ، ٹرینوں کے ریمپس تک ایسے بنائے گئے ہیں کہ جسمانی معذوروں کو مدد کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ان کے لیے پبلک پرائیویٹ پارکنگ ایریاز میں جگہیں مختص ہونا ایک عام سی بات ہے۔وہ اپنے استعمال کے لیے ڈیوٹی فری آلات اور گاڑیاں امپورٹ کرسکتے ہیں۔ان کے اوقاتِ کار لچک دار رکھے گئے ہیں اور سرکاری و نجی طبی و سماجی ادارے ان کی بھرپور معاونت سے کبھی نہیں ہچکچاتے چنانچہ ان معاشروں میں شائد ہی کوئی ایسا زن و مرد ہو جو محض کسی جسمانی کمی کے سبب زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو۔گویا ان معاشروں نے ان کی کمی کو اپنی توجہ سے اپنے اندر جذب کرلیا ہے۔
مگر ہم جیسے معاشروں میں کہانی خود ترسی سے شروع ہوتی ہے اور خدا ترسی پر ختم ہوجاتی ہے۔جس طرح ذہنی مسائل کے سلجھاؤ کے لیے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا عیب کی بات سمجھی جاتی ہے اور ایسے مشورے کو '' اوئے میں کوئی پاغل ہاں '' کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے اسی طرح ذہنی یا جسمانی کمی کے شکار بچوں اور بڑوں کے بارے میں بھی یہ سوچ کر بغیر سوچے سمجھے انااللہ پڑھ لی جاتی ہے کہ صبر سے کام لو اللہ کو یہی منظور تھا۔حالانکہ اگر صرف بھکاریوں کی ہی تعداد کو گنا جائے تو ہٹے کٹے بھکاری جسمانی و ذہنی کمی کے شکار حاجت مندوں سے کئی گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔اگر کمی کے شکار شخص کو ذرا سا بھی سماجی دھکا مل جائے تو بہت سے معذور اس دنیا کو نام نہاد اچھے بھلوں کے لیے اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
آخر اشاروں کی زبان کو ترقی دینے والی ہیلن کیلر بھی تو نابینا اور بہری تھی۔کیمبرج میں بیٹھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ماہر فلکیات و فزکس سٹیونز ہاکنز اپنے پورے مفلوج جسم کے ساتھ سوائے دماغ کے اور کیا ہے۔کیا پولیو میکسیکو کے فریڈا کاہلو کو ایک بڑا مصور بننے سے روک سکا ؟ بہرے موسیقار بیتھوون نے اس دنیا کو کیسی کیسی جادوئی دھنوں سے بھر دیا کہ آج تک مغربی موسیقی بیتھوون سے بچ کر نہیں نکل پائی۔ سدھا چندرن کی جب ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تب اسے پتہ چلا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی رقاصہ بننے کا راستہ تو اب کھلا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ بھلے جو بھی رائے رکھیں مگر وہ پاکستان کے شائد پہلے اور اب تک کے آخری حکمراں ہیں جنہوں نے معذوروں ، آہستہ رو اور خصوصی تعلیم کے ضرورت مند بچوں کے لیے قانون سازی بھی کی اور ادارہ سازی میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔انھیں اپنی لاڈلی بیٹی زین سے یہ سبق ملا کہ ہم قدم نا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ قدم ہی نہیں بڑھایا جاسکتا۔کہنے کو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح سے متعلق قانون انیس سو اکیاسی سے نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں دو فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی کمی کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا کہ معذور افراد کی مختلف انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ دو فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔
یہ بھی ڈھنڈورا ہے کہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرکاری اسپتالوں میں تو غیر معذوروں کے لیے بھی بظاہر مفت علاج کی سہولت ہے۔ویسے بھی ساٹھ فیصد سے زائد معذور افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے متاثرین بھی کیا مفت علاج کے لیے اسلام آباد ، لاہور یا کراچی جائیں ؟ معذور افراد کے لیے ڈیوٹی فری گاڑیوں کی امپورٹ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس سے بھی زیادہ اہم اشیا یعنی وہیل چییرز ، ٹرائی سائکلز اور مصنوعی اعضا بھی ڈیوٹی فری منگوائے جاسکتے ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
سرکاری بیت المال کے پاس کروڑوں روپے موجود ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس خاندان میں دو معذور افراد ہوں اس خاندان کو پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔لیکن اگر کسی خاندان میں صرف ایک معذور پایا جائے تو وہ کیا کرے اور کہاں جائے ؟ یہ بھی کوئی نہیں بتاتا۔
پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات ( مقابلے کا امتحان ) میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن کے شعبے کھلے ہیں۔خصوصی تعلیم کی وزارت انیس سو چھیاسی سے کام کررہی ہے اور اس کے تحت خصوصی تعلیم کے چھیالیس مراکز بھی فعال ہیںمگر وہاں بریل کتابوں ، مددگار تعلیمی آلات اور ماہر اساتذہ کی کمی کا رونا ہے۔پبلک لائبریریوں میں بھی بریل کتابوں کے نام پر ایک آدھ الماری موجود ہوتی ہے مگر اس پر اکثر زنگ آلود تالہ ہی دیکھا گیا ہے۔
جسمانی کمی کے شکار بچوں کی آدھی سے زیادہ تعداد نارمل اسکولوں میں بھی پڑھ سکتی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اسکول کمرشل وجوہات کی بنا پر معذور بچوں کو اپنے ہاں داخلہ دینے کی بہت قرینے سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اگر کمی کے شکار بچے نارمل اسکولوں میں داخل ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ کلاس فیلوز حتیٰ کہ اساتذہ تک انھیں ایک خصوصی مخلوق کے طور پر دیکھتے اور برتتے ہیں۔اس رویے کے سبب جسمانی کمی کے شکار بچوں کی نارمل صلاحتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔
ایک جانب شائد ہی کسی کا دھیان جاتا ہو اور وہ ہے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی۔اس کا شکار بچہ دیکھنے میں تو بالکل نارمل لگتا ہے لیکن ناکافی غذائیت کے سبب اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما ایک نارمل بچے کے مقابلے میں آدھی رھ جاتی ہے۔ لگ بھگ اٹھائیس فیصد پاکستانی بچے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی کا شکار ہیں لیکن ان پر الگ سے توجہ دینے کے بجائے ان پر پھسڈی ، نکمے ، کام چور اور کند ذہن کا لیبل لگا کے ان کے اپنے ہی گھر اور سماج والے نادانستہ طور پر خود سے الگ تھلگ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ فٹ پاتھوں ، رہائشی و کمرشل عمارات اور ٹرانسپورٹ کو بغیر کسی اضافی بجٹ کے ڈس ایبل فرینڈلی بنایا جاسکتا ہے۔بس تعمیراتی ٹھیکیدار کو بتانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور ٹرین کی بوگیوں کو خریدتے وقت کمپنی کو یہ سہولتیں نصب کرنے کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم جسمانی کمی کے شکار لوگوں اور ان کے مسائل کو محسوس کرسکیں۔مگر ہمیں تو کوئی اپنے علاوہ نظر ہی نہیں آتا۔تو پھر نابینا کون ہوا ؟
معذوروں کی مدد تو خیر ہم سے کیا ہوگی۔ہم تو ان ممالک میں شامل ہیں جہاں معذور سازی ہوتی ہے۔یقین نہ آئے تو پولیو کی ویکسینیشن کرنے والے رضاکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ لیا کریں۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )