عوام میں لاوا پک رہا ہے

سیاستدان نوشتہ دیوار پڑھیں، الزام تراشی اور گالم گلوچ کے بجائے قومی مفاہمت کی جانب بڑھیں


اظہر تھراج July 09, 2022
یہ لاوا ابل پڑا تو اپنے ساتھ سب بہا لے جائے گا۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: آج دوپہر فیول اسٹیشن پر پٹرول ڈلوانے گیا تو ایک شخص پٹرول پمپ ملازمین سے الجھ رہا تھا۔ ملازم نے جواب دیا تو وہ شخص غصے میں مزید پھٹ پڑا۔ اس کا بس چلتا تو وہ رو پڑتا۔ رویا تو نہیں، اس نے پہلے حکومت، پھر ملک، اس کے بعد اداروں کو برا بھلا کہا اور غصے میں لال پیلا ہوکر نکل گیا۔ ایک اور شخص کہہ رہا تھا کہ زندگی مشکل ہوگئی ہے، حالات ٹھیک نہیں، بچوں کا دودھ لاتے ہیں تو گھر میں کھانے کےلیے آٹا نہیں ہوتا، تیل، گھی اتنا مہنگا ہے کہ روکھی سوکھی کھانی پڑتی ہے، دیہاڑی نہ لگے تو دن راتیں فاقے میں گزرتی ہیں۔

یہ کسی ایک شخص کی کہانی نہیں، گھر گھر کی کہانی ہے۔ صرف غریب علاقوں کے رہنے والے ہی اس مہنگائی سے پریشان نہیں بلکہ ڈی ایچ اے میں رہنے والے بھی متاثر ہیں۔ ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ صرف دو سے تین ماہ میں اشیا کی قیمتیں ایسے بڑھی ہیں کہ گھر کا بجٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

میری نظر سے مسلم لیگ ن کے قائد کی صاحبزادی کی ویڈیو گزری جس میں محترمہ فرماتی ہیں کہ ''عید کی آمد آمد ہے، پٹرول کی قیمت 73 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، لوگ موٹر سائیکل، گاڑیوں میں پٹرول ڈلوائیں یا بچوں کےلیے روٹی لیں؟ بچوں کےلیے روٹی لیں تو دوا کےلیے پیسے نہیں بچتے، دوا لیں تو بچوں کی فیسوں کےلیے پیسے نہیں بچتے۔ آٹا بھی مہنگا، بجلی بھی مہنگی، گیس بھی مہنگی، تیل بھی مہنگا، چینی بھی مہنگی، سب کچھ مہنگا۔''

محترمہ کہتی تو ٹھیک ہیں لیکن وہ اس وقت کی بات کررہی تھیں جب پٹرول کی قیمت 118 روپے لیٹر تھی، آج تیل کی قیمت فی لیٹر 250 روپے تک پہنچ چکی ہے تو خود اندازہ لگالیجئے کہ ایک عام آدمی کا کیسے گزارا ہوتا ہوگا۔ یہ بہت آسان ہے کہ حکومت میں آنے والے، جانے والوں پر الزام لگادیں اور اپنی جان چھڑا لیں۔ ایسے مسائل سے جان نہیں چھوٹے گی۔ مرض کا علم ہے لیکن علاج کرنے کو تیار نہیں۔ اس سیاسی، معاشی مرض کا علاج کیا ہے؟ مریم بی بی آپ بھی جانتی ہیں، آپ کے چچا جانی بھی اور ہم سب بھی۔

سنو! مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت طاقت کا توازن ایک طرف جھک گیا ہے۔ سیاستدان اور قوتوں کے دم چھلے بن کر رہ گئے ہیں، سیاستدان جب ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں طاقت کا توازن مزید اس طرف جھک جاتا ہے۔ جن کے پاس طاقت ہے ان کا پہلے ٹارگٹ پیپلز پارٹی ہوا کرتی تھی اور چہیتے نواز شریف ہوتے تھے۔ پھر نواز شریف دشمن بنے، عمران خان چہیتے ٹھہرے۔ جب یہ بھی بیساکھیوں کے باوجود ٹھیک طرح سے نہ چل پائے تو پھر کسی اور کو تیار کیا گیا۔ اب کوئی اور تیار ہورہے ہیں۔ اب جو تیار ہورہے ہیں وہ ہیں شہباز شریف۔ اس وقت یہ فیوریٹ ہیں۔ تاریخ میں سب سیاستدانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا گیا اور طاقت اپنے پاس رکھی۔

ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ ہر نظام کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ سیاست میں بھی کچھ بنیادی اصول ہیں۔ ریاستی طاقت کو اگر وہ ادارے استعمال نہ کرسکیں جن کی بنیادی ذمے داری ہے تو یہ طاقت ریاستی اداروں کے پاس چلی جاتی ہے، جس میں بیوروکریسی، ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیز شامل ہیں۔ اگر یہ طاقت ان کے پاس بھی نہ جائے تو وہ گلیوں میں آجاتی ہے۔ اگر یہ پاور گلیوں میں آجائے تو ملک کا حال وہ ہوتا ہے جو آج لیبیا کا ہے، وہ حال ہوتا ہے جو کبھی لبنان میں ہوا تھا۔ وہ حال جو ہم شام میں دیکھ رہے ہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ آئین بن گیا تو سب کچھ ہمارے پاس آگیا۔ سیاست صرف آئین سے نہیں چلتی۔ نظام کو نظام کے مطابق نہ چلایا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں تو کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بعد جب سیاستدان اپنی بنیادی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریبان ہوگئے، صبح و شام جماعتیں بدلنے لگے تو عوام سے حاصل ہونے والی پارلیمانی طاقت کہیں اور چلی گئی۔ پہلے بیوروکریسی مضبوط ہوئی، پھر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوگئی۔ اب حال یہ ہے کہ پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بن چکا ہے، حالانکہ اقبال نے فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا اور قائداعظم نے اس کی تکمیل کی جدوجہد کی۔

اس وقت پاکستان کی بڑی دو جماعتیں سول بالادستی کےلیے متفق ہیں لیکن یہ جماعتیں اداروں کا کردار اپنی فیور میں چاہتی ہیں۔ جب ان کی فیور میں حمایت نہیں آتی تو اداروں پر تنقید کی جاتی ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی، پھر ن لیگ اور تحریک انصاف تنقید کررہی ہے، کل اور کوئی اس صف میں شامل ہوسکتا ہے۔

ماضی کی طرح عمران خان کی نظر اداروں پر ہے کہ وہ ان کی سپورٹ کریں تو یہ دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ آئین کسی ادارے کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ سیاسی مناپلی کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی سزائیں بھی ہیں۔ جو سیاستدان اداروں کو اپنی سیاست میں گھسیٹتے ہیں اس سے نہ صرف سیاست کا نقصان ہوتا ہے بلکہ اداروں کے ساتھ بھی برا کرتے ہیں۔ جو ایجنڈا عوام کی فلاح سے ہٹ کر بنایا گیا ہو اس کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا حال دیکھیں کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور تھا، منشور کچھ اور تھا۔ جوں جوں حکومت میں ان کا وقت گزرتا گیا نئے نئے مسائل میں الجھتی گئی، پھر ایک ایسا لمحہ آیا کہ بند گلی میں چلی گئی اورانخلا کےلیے امریکی سازش نما خط کا سہارا لینا پڑا۔

اداروں کو قابو میں رکھنا ہے تو پہلے اپنی طاقت اپنے پاس لانی ہوگی، اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔ جن سے یہ طاقت حاصل کی جاتی ہے اس کو عزت دینے سے اس قوت پر قابو رکھا جاسکتا ہے۔ اگر اداروں کی تنظیم ٹاسک کے تحت ہو تو وہ ٹاسک پورا کردیں گے۔ اگر پاور شفٹ کی جائے تو حال یہی رہے گا۔ سیاستدان ایک دوسرے کے سیاسی خون کے پیاسے نہ بنیں۔ پارلیمنٹ کو اتنا طاقتور بنادیں کہ وہاں فیصلے ہوں، ایسا سیاسی متبادل نظام ہو جس کے ساتھ عوام ہوں۔ ایک کریڈیبل نظام، جو عوام کی فلاح کا کام کرے۔ سیاستدانوں کی طاقت عوام ہیں۔ سیاستدان آج بھی استعمال ہورہا ہے۔ بیان بازی اور زبان درازی سے سیاست کا نقصان ہوا ہے۔ جن کو معیشت پر دھیان رکھنا چاہیے تھا وہ کچھ اور کرتے رہے، جن کا کوئی اور کام تھا وہ معیشت پر نظر جمائے رہے، ان کےلیے اپنا کام مشکل ہے اور بااحسن طریقے سے نہیں نبھا سکے۔

سیاستدان نوشتہ دیوار پڑھیں۔ الزام تراشی اور گالم گلوچ کے بجائے قومی مفاہمت کی جانب بڑھیں۔ وزیراعظم تو اس کی دعوت دے چکے ہیں۔ پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے، الزام تراشی کےلیے منتخب نہیں کرتے۔ اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ حالات کو سدھاریں تاکہ ووٹرز کے حالات بھی بدلیں۔ مریم نواز یا کوئی اور سیاستدان جتنی مرضی خوشنما تقریریں کرلیں، جتنی مرضی درد بھری باتیں کرلیں، باتوں سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے، معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ امیر ہیں تو وہ اپنی دولت کو غریبوں میں بانٹیں۔ جن سے کماتے ہیں یا جو ان کےلیے کماتے ہیں ان سے مل بانٹ کر کھائیں۔ عوام نہیں تو ملک نہیں، ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

بس کیجئے! اب زندگی سسک رہی ہے، درد لاوے کی طرح پک رہا ہے۔ یہ لاوا جب ابل پڑا تو نہ مہنگی جائیدادیں کام آئیں گی، نہ لوہے اور کنکریٹ کے محل۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں