کتاب کلچر کے احیاء کی امید
ترقی یافتہ ملکوں میں اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل پر تحقیق، تجزیے اور گائیڈ لائن فراہم کرنے کے لیے تھنک ٹینک۔۔۔
ترقی یافتہ ملکوں میں اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل پر تحقیق، تجزیے اور گائیڈ لائن فراہم کرنے کے لیے تھنک ٹینک موجود ہوتے ہیں۔ حکومتیں اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی آرا اور تجزیوں کو مشعل راہ بناتی ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں دانش اور اہل دانش کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ ان کی آرا کو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی تعمیر میں بنیادی اہمیت دی جاتی ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں میں اہل دانش اور اہل فکر گمنامی کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں اپنی بات عوام تک پہنچانے کی کوئی سہولت حاصل نہیں اگر کچھ سہولتیں حاصل بھی ہیں تو ان پر اتنی بندشیں اتنی قدغنیں عائد ہیں کہ ان کی فکر ان کے تجزیے عوام تک ایسی کٹی پھٹی حالت میں پہنچتے ہیں کہ یہ تجزیے بجائے عوام کی فکری رہنمائی کرنے کے انھیں ذہنی خلفشار میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں حکمرانی کی جو فلم چلائی جا رہی ہے اس کا پروڈیوسر، ڈائریکٹر، ہیرو، ولن، سنگر ، پلے بیک سنگر، حکمران اشرافیہ ہی ہے۔ اس کلچر کی ایک نفسیاتی اور تاریخی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اپنی ایک ہزار سالہ حکمرانی کی تاریخ میں بادشاہ کی ذات ہی مجموعہ صفات بنی رہی ہے، قانون اور انصاف سے لے کر حکومتی پالیسیوں کی تشکیل جنگ اور امن کے تمام فیصلے بادشاہوں کی مرضی کے تابع ہوتے تھے۔
قومی مسائل کے دو حل ہوتے ہیں ایک شارٹ ٹرم دوسرا لانگ ٹرم۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی ایک ایسا گہرا یعنی ڈیپ روٹیڈ مسئلہ ہے کہ اس کے مستقل حل کے لیے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا مقصد عوام میں فکری تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ میں نے اس حوالے سے پہلے بھی ہمارے اکابرین کو توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا کے خاتمے کے لیے ادب اور شاعری کا استعمال مجرب بن سکتا ہے۔ کیونکہ عوام میں فکری تبدیلی لانے کے لیے اس سے بہتر کوئی میڈیم نہیں ہے۔ میڈیا آج کی ایک بہت بڑی طاقت ہے اور بلاشبہ عوام میں فکری تبدیلی لانے کے لیے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میڈیا دین کا ہوکر رہ گیا ہے جب کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دنیاوی مسئلہ ہے اگرچہ اس پر بھی دین کا غلاف چڑھا دیا گیا ہے۔ میڈیا کے اس ناقابل اصلاح یکطرفہ کردار کے بعد ادب اور شاعری ہی ایک ایسا وسیلہ رہ جاتا ہے کہ اس وسیلے کے منصوبہ بند استعمال سے عوام فکری تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
1936 کے بعد جب غیر منقسم ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں نے ادب کو ادب برائے ادب کے دلدل سے نکال کر ادب برائے زندگی کے میدان میں کھڑا کردیا تو وہ ادب وہ شاعری وجود میں آئی جس کا تعلق زندگی کی کھردری حقیقتوں سے تھا۔اس ادب نے ہندوستان کے عوام میں نہ صرف کتاب کلچر کو متعارف کرایا بلکہ محبت بھائی چارے برداشت کی ایک ایسی فضا بنائی کہ مذہبی، فرقہ وارانہ نسل رنگ زبان اور قومیتوں کے تعصبات اور ان کے زہریلے اثرات دم توڑنے لگے۔ اس زمانے کے ترقی پسند لکھاریوں کی کہکشاں میں ہندو بھی تھے مسلمان بھی سکھ بھی عیسائی بھی۔ ٍتقسیم ہند کے زخمی جسم پر اس دور کا ادب مرہم بن گیا اور وہ نفرتیں جو انتہا پسندوں نے پھیلائی تھیں اور جن نفرتوں نے لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی جانیں لے لی تھیں۔ دم توڑنے لگیں انسان بتدریج حیوان سے انسان بننے لگا کیونکہ ادب نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان نہ سکھ نہ عیسائی وہ صرف اور صرف انسان ہوتا ہے اور حیوانوں کو انسان بنانے کا وہ اہم فریضہ انجام دیتا ہے جو اور کوئی محترم انجام نہیں دے سکتا۔
ہندو میتھالوجی میں آواگون کا فلسفہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے یعنی دوسرے جنم کا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کا ذمے دار انسان تقسیم ہند کے قتل عام کے آسیب کے ساتھ دوسرا جنم لے کر ہمارے سامنے کھڑا ہے ۔اس فرق کے ساتھ کہ تقسیم ہند انسان کی ''انسانیت'' اور سفاکی مذہبی شناخت کے حوالے سے تھی اور آج کے انسان کی انسانیت اس شناخت سے ماوریٰ اپنے پرائے کی تمیز سے بالاتر ہے۔ اس سفاکی کی کوئی سمت ہے نہ اس کے منہ میں کوئی لگام ہے جو اس کے سامنے آتا ہے شہید ہوجاتا ہے جب کسی معاشرے میں ایک ہی شخص یا سوسائٹی خود ہی شہید خود ہی غازی بن جاتی ہے تو اس معاشرے کے تارپود اس طرح بکھر جاتے ہیں کہ انھیں دوبارہ جوڑنا سنوارنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور تاریخ یہی بتا دیتی ہے کہ نفرت کے گھن زدہ ایسے معاشرے کی تشکیل نو میں ادب نے ہمیشہ انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے۔
تقسیم کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کی کوششوں سے ملک بھر میں کتاب کلچر زندہ ہوا تھا۔ کراچی میں کیبن لائبریریوں کا ایک جال پھیل گیا تھا ہر علاقے ہر محلے ہر گلی میں کیبن لائبریری موجود تھی جہاں معروف ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں کرائے پر ملا کرتی تھیں اور کرایہ پیسوں اور آنوں میں ہوا کرتا تھا۔ لاہور میں بھی یہ لائبریریاں عام تھیں جہاں سے ادب کے شوقین کتابیں لے کر اپنی ادبی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ آج میں جب اس مسئلے پر پیپلز پارٹی کے شعبہ اطلاعات کی ایک اہم شخصیت ریاض کھوکھر سے بات کر رہا تھا تو موصوف نے اس دور کی آنہ دو آنہ لائبریریوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہماری بے حد حوصلہ افزائی کی کہ ایک ایسے وقت میں جب سارا ملک قتل و غارت مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے آپ کا خیال آپ کا منصوبہ روشنی کی ایک کرن کہلا سکتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائی ہوئی خود غرضیوں میں اس قدر گہرا دفن ہے کہ دانشوری اور دانشوروں کی آواز صدا بہ صحرا اور نقار خانے میں طوطی کی آواز بنی ہوئی ہے لیکن مخلصانہ کوششوں کو نظرانداز تو کیا جاسکتا ہے رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ کوششیں وقت کی ضرورت ہوتی ہیں۔کیبن لائبریریوں کی ضرورت تو اس وقت سارے ملک کو ہے اور ان لائبریریوں میں نہ صرف ہر زبان کے ترقی پسند ادب کا اہتمام کیا جانا چاہیے بلکہ منتخب عالمی ادب پر مشتمل ادب اور شاعری کی کتابیں بھی ان لائبریریوں میں رکھی جانی چاہئیں۔ اس حوالے سے ہماری تجویز یہ ہے اور جس کی ہمیں بڑے پیمانے پر حمایت بھی مل رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت عوام خاص طور پر نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو اربوں روپوں کے منصوبے بنا رہی ہے اور 5 سے 50 لاکھ تک کے قرض عوام کو فراہم کر رہی ہے ان میں ایک چھوٹے قرضوں کی یہ اسکیم بھی شامل کی جاسکتی ہے جس کا مقصد کیبن لائبریریوں کا فروغ ہو۔ 1947 سے 1970 تک ہمارے ملک میں ان لائبریریوں کا جال بچھا ہوا تھا اس دور میں نہ دہشت گردی جیسی ہولناک وبا تھی نہ اسٹریٹ کرائم جیسے عذاب تھے نہ فرقہ وارانہ جیسی نفرتیں تھیں نہ زبان اور قومیتوں کے تعصبات تھے ۔عوام گھروں کے دروازے کھلے رکھ کر سوتے تھے خواتین رات کے بارہ ایک بجے تک سڑکوں بازاروں میں بلاخوف وخطر گھومتی پھرتی تھیں یہ سب اس لیے ممکن ہوا تھا کہ اس دور میں ادب زندہ تھا۔ ہم جن کیبن لائبریریوں کی بات کر رہے ہیں ان میں ادبی کتابیں نہ صرف کرائے پر دستیاب ہوں بلکہ فروخت بھی کی جائیں یہ لائبریریاں لکڑی کے کیبنوں میں بھی قائم کی جاسکتی ہیں اور کرائے کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں بھی، اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے اور یہ لائبریریاں ملک و قوم کے مستقبل کو درخشاں بنانے، عوام میں محبت و بھائی چارہ پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود پیپلز پارٹی کا شمار روشن خیال جماعتوں میں ہوتا ہے اور اتفاق سے ایک نوجوان بلال بھٹو اس کی سربراہی کر رہا ہے اگر پیپلز پارٹی نے کراچی سے کیبن لائبریریوں کا آغاز کیا اور نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے بلا سودی چھوٹے قرضے فراہم کیے تو پیپلز پارٹی کا یہ ایسا کارنامہ ہوگا جس کو زمانہ یاد رکھے گا اور اس کے دوررس مثبت اثرات ہمارے معاشرے کی ساخت میں بڑی اہم تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے اس حوالے سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے اگر ریاض کھوکھر جیسے حضرات آگے بڑھ کر اپنی قیادت کو اس منصوبے کی اہمیت اور اس کے دوررس اثرات اور فوائد سے آگاہ کریں تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔