فن سے فنا تک فنکار
کسی نصابی کتاب میں پڑھا کہ عظیم فلسفی ’’ارسطو‘‘ کے مطابق انسان فطری لحاظ سے ’’سماجی جانور‘‘ ہے۔ اسی طرح ایک اور۔۔۔
کسی نصابی کتاب میں پڑھا کہ عظیم فلسفی ''ارسطو'' کے مطابق انسان فطری لحاظ سے ''سماجی جانور'' ہے۔ اسی طرح ایک اور بات مطالعے اور مشاہدے میں بھی آئی کہ انسان کسی نہ کسی حیوان کی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے، مگر اب جس طرح کے حالات ہمارے ملک کے ہیں، اس کو ارسطو دیکھ لیتا، تو کہتا ''انسان صرف جانور ہے'' بات مختصر، معنویت جامع ہے، لیکن ہم اب جامعیت کے قائل بھی کہاں رہے۔ اخلاقی زوال نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کیا تخلیق کار یا پھر تخلیق کو پسند کرنے والے، سب ایک ہی کولہو کے گرد بیل کی طرح چکر کاٹنے کا جتن کیے زندگی بسر کر رہے ہیں یا پھر اپنے مفادات کا طواف کرنے میں بری طرح مصروف ہیں۔ سیاست سے لے کر معاشرت تک یہی وبا عام ہوچلی ہے۔
کالم لکھتے وقت ہر مرتبہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ صرف شعر وادب اور فنون لطیفہ سے متعلق لکھوں گا، لیکن شعرو ادب بھی مافیائی مرض میں مبتلا ہے۔ کنویں کے برساتی مینڈکوں کی ٹرٹر اتنی ہے، کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایک عرصے تک اخبارات میں ادبی صفحات کے انچارج شاعر بن بیٹھے۔ ادبی جریدوں کی تخلیقی بدتمیزیاں ان کے علاوہ ہیں۔ کتابیں چھاپنے والے صاحبِ کتاب بن بیٹھے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس میں ہماری جامعات کی وہ تدریسی مافیا کی اکثریت بھی شامل ہے، جو ڈاکٹر نامی مخلوق بنتے ہی اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ کر طالب علموں کو نظروں سے گرا دیتے ہیں، جو واقعی صاحب علم اساتذہ ہیں، وہ مصلحت کی خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں، کسی مافیا کے کارندے جو نہیں ہوتے۔ ثقافتی اداروں کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں اور دیگر میڈیم بھی کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
فنکار اور ادیب کسی بھی معاشرے کا چہرہ ہوتے ہیں۔ یہ بات کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہی ہے۔ یہ الگ بات ہے، اب ہمارے ہاں ایسے تخلیق کار کم ہیں کیونکہ آج، ادیبوں کی اکثریت مفت کے کھانے کی عادی ہو گئی ہے۔ خوشامد کا میٹھا ان کی تخلیق کو چاٹ گیا ہے، مگر پھر بھی یہ بضد ہیں کہ ان جیسا لکھنے والا کوئی نہیں اوریہ بات بالکل ٹھیک بھی ہے، ان جیسا لکھنے والا نہ کوئی ہے اورنہ پہلے کبھی تھا۔
پہلے کے ادیب باضمیر اور فاقہ زدہ تھے۔ مانگے تانگے کی روٹیاں کھا کر مداح سرائی نہیں کرتے تھے بلکہ خود بھوک کاٹتے اور معاشرے کی برہنگی کو بیان کرتے، اس خیال سے کہ کچھ بہتری آجائے۔ اب نہ وہ ادب زادے ہیں اور نہ ہی ان کے حقیقی چاہنے والے۔ جہاں تک فنکاروں کی بات ہے، تو ان کی اکثریت بھی لکھے ہوئے کو رٹنے کی قائل ہوچکی ہے۔
اس سارے قصے میں ''اوریجنل'' آدمی کی شنوائی نہیں۔ اب یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ ''اور یجنلٹی'' کا معیار کیا ہے، کیونکہ میں یہ طے نہیں کروں گا، تو اسی مافیا کا کوئی طرفدار میرا زائچہ بنا دے گا۔ ویسے آپس کی بات ہے، میری زندگی ایسے کئی زائچوں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی آپ سے ان زائچوں کی کتھا بھی بیان کروںگا۔ ابھی اسے کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال واپس اسی نکتے پر آتے ہیں، اپنی پہلی بات کی طرف کہ انسان فطری لحاظ سے ''سماجی جانور'' ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انسان فطری لحاظ سے پرندہ ہے۔ اس لیے کہ یہ ان دیکھی دنیا کی اڑان بھرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے کبھی یہ ناول لکھتا ہے، کبھی تصویر بناتا ہے اور کبھی لفظوں کو آواز میں انڈیل کر تاثیر کا جام تیار کرتا ہے۔ رنگوں کو زبان دیتا ہے۔ احساس کو قابو میں رکھتا ہے، مگر اظہار میں بے قابو ہوتا ہے۔ یہی سب کیفیات مل کر کسی کو فن کار بناتی ہیں اور فن کی تختی پر چاہے جانے کی روشنائی سے یہ زندگی کو لکھتا ہے اور کبھی بڑی عقیدت سے لہجوں کو سنتا اور لفظوں کو پڑھتا ہے اور اپنی بصارت سے مناظر کو دل میں اتارتا ہے۔ شاید یہی ہے وہ میرا فن کار، جس کی فطرت میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
پرندے ہجرت کرتے ہیں، یہ فن کار بھی ہجرت کرتا ہے۔ پرندے ڈار سے بچھڑتے ہیں، یہ بھی کوئے یار سے بچھڑ جاتا ہے۔ پرندے گھونسلوں میں واپس لوٹنے کی چاہ لیے دور کی مسافت طے کرتے ہیں۔ فن کار کا من بھی گھر کے دروازے سے بندھا رہتا ہے۔ پرندے صرف رزق کی تلاش اور موسم کی سختی سے مجبور ہوکر ہجرت نہیں کرتے بلکہ انھیں اڑان بھرنے کی فطرت ودیعت ہوتی ہے۔ فن کار بھی اپنے اندر کی تلاش میں باہر کی سختیاں سہتا ہے۔
ہمارا فن کار اس وقت اپنے دور کے سخت موڑ سے گزر رہا ہے کیونکہ ٹی وی کی اسکرین کو دیکھتاہے تو صرف بازارِ سیاست کا تذکرہ یا پھر صرف بازاری چیزوںکا تذکرہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اخبارات میں شعر وادب کا ایک صفحہ مرتب ہوا کرتا تھا، وہ روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ ادبی رسائل وجرائد سے تو کب کی روح پرواز کر چکی۔ مفت میں ملنے والا جریدہ بھی اب کوئی نہیں پڑھتا، البتہ کتابیں بہت چھپ رہی ہیں۔ اس اندازِ چھپائی کو دیکھ کر لگتاہے کہ کتاب لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں، ویسے واقعی اب کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ دور اور ہوا کرتے تھے، جہاں کوئی ایک مضمون لکھ کر بھی ہزار بار سوچتا تھا کہ شایع کرواؤں کہ نہ کرواؤں کیونکہ میرے ہاتھ کی لکھی تحریر صرف تحریر نہیں میرا تعارف بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہیں میں اپنے آپ کو ٹھیک سے پیش نہ کر سکوں۔ کوئی بھی کردار کرنے کو مل جائے، اب پرواہ نہیں کرتا۔
یہ وسوسے میرے فن کار کے ذہن سے چمٹے رہتے تھے، لیکن اب اکثریت جن چھپنے والی کتابوں کی ہے، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تعارف اب اپنی تعریف میں تبدیل ہوگیا ہے۔ شاید یہ ہماری جہالت کا اعلیٰ ترین دور ہے۔ جاہل کا بھی دل ہوتا ہے۔ اسے دل کی پریشانی ہوتی ہے، بل کی نہیں۔ وہ بل جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ''مافیا'' کو دینا پڑتے ہیں۔ یہ مافیا اشاعتی اداروں کی شکل میں بھی موجود ہے۔ چند ایک ناشرین کو چھوڑ کر باقی سب نے مافیائی شاعروں اور ادیبوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسی فضا میں پھر فن کار پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر نہیں آتے۔
میں نے اپنے ایک بہت عزیز فن کار سے گوشہ گمنامی اختیار کرنے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ''حاملہ عورت بانجھ عورتوں میں بیٹھی اچھی نہیں لگتی۔'' میں نے اس بات کے تناظر میں ادب کی مافیا کو دیکھا تو کنویں کے''جتنے'' مینڈک تھے، ان کے ''جتن '' کو ''جان'' پایا۔ شعر وادب کو لاحق بیماریوں اور ان بیمار صفت لوگوں کے رویے اور نام نہاد تخلیقات اور لابی کا ذکر بھی ہو گا اور آپ کو بتایا جائے گاکہ ان آستین کے سانپو ںکے کیا کیا روپ ہیں۔
ہمیشہ یہی سوچتا ہوں کہ آپ کے لیے ایسی تحریریں لکھوں، جن کا محور فنون لطیفہ ہو۔ کتابوں کی بات کی جائے۔ موسیقی کے لطیف پہلوؤں کو بیان کیا جائے۔ مصوری کے رنگوں کو سوچا جائے۔ ناولوں، افسانوں کے کرداروں پر غور کیا جائے اور شاعری کے موضوع کو منکشف کیا جائے لیکن ان سب سے پہلے کتابوں کی بے توقیری میرے قدم روکتی ہے۔ تخلیق کاری میں بڑھتا ہوا کمرشل ازم پاؤں کی زنجیر محسوس ہوتا ہے۔
ہم اس سماج کا حصہ ہیں جہاں پاؤں کے جوتے سے لے کر معدے کی آگ بجھانے والی مہنگی غذاؤں تک، ہر شے کے لیے جیب میں رقم موجود ہے مگر ان کو کتاب مفت چاہیے اور پڑھتے پھر بھی نہیں۔ موسیقی کے نام پر بے ہنگم شور مجھے بہرا کیے دیتا ہے۔ روح کی غذا سے زیادہ معدے کی غذا سے رغبت رکھنے والے معاشرے کو کس طرح علمی رویے کی طرف واپس لایا جائے۔ فنکار کی نظر سے زندگی کو دیکھنا شروع کر دیں، تو یہ کس قدر دلکش ہوجائے۔
اذیت کے اس منظر نامے پر میرا سچا فن کار پھر بھی آنکھیں موندے خواب دیکھنے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایسے دلنواز خواب جن کو تصویری شکل دی جائے تو ایسا لگتا ہے، جیسے نیلے رنگ کے آسمان پر رنگ برنگی تتلیاں اڑ رہی ہوں۔ اس کو سُریلے گیت بے چین کردیتے ہیں۔ یہ اچھی کتاب کی خاموشی کو پڑھتا ہے۔ کینوس پر بنی پینٹنگ سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو رنگ بولنے لگتے ہیں۔
ایسا فن کار بڑا قیمتی ہوتاہے۔ اپنے اردگرد دیکھیں، ایسا فن کار گوشہ گمنامی کے حجرے میں ریاضت کا وظیفہ پڑھتا رہتا ہے۔ اگر مل جائے تو دعا لیجیے، آپ کا فن نکھر جائے گا اور بُرے کی بددعا بکھر جائے گی۔ صحبت کا عِلم ذوق کا علم بن جاتا ہے۔ آپ کے فن میں کنندہ، آپ کا صحیح تعارف۔ فن سے فنا ہونے تک کے سفر میں فنکار شاید کبھی پھر اپنا کھویا ہوا مقام پالیں گے، کیونکہ پرندے دور کی پرواز سے واپس اپنے گھونسلوں میں آنا چاہتے ہیں۔
کالم لکھتے وقت ہر مرتبہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ صرف شعر وادب اور فنون لطیفہ سے متعلق لکھوں گا، لیکن شعرو ادب بھی مافیائی مرض میں مبتلا ہے۔ کنویں کے برساتی مینڈکوں کی ٹرٹر اتنی ہے، کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایک عرصے تک اخبارات میں ادبی صفحات کے انچارج شاعر بن بیٹھے۔ ادبی جریدوں کی تخلیقی بدتمیزیاں ان کے علاوہ ہیں۔ کتابیں چھاپنے والے صاحبِ کتاب بن بیٹھے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس میں ہماری جامعات کی وہ تدریسی مافیا کی اکثریت بھی شامل ہے، جو ڈاکٹر نامی مخلوق بنتے ہی اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ کر طالب علموں کو نظروں سے گرا دیتے ہیں، جو واقعی صاحب علم اساتذہ ہیں، وہ مصلحت کی خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں، کسی مافیا کے کارندے جو نہیں ہوتے۔ ثقافتی اداروں کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں اور دیگر میڈیم بھی کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
فنکار اور ادیب کسی بھی معاشرے کا چہرہ ہوتے ہیں۔ یہ بات کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہی ہے۔ یہ الگ بات ہے، اب ہمارے ہاں ایسے تخلیق کار کم ہیں کیونکہ آج، ادیبوں کی اکثریت مفت کے کھانے کی عادی ہو گئی ہے۔ خوشامد کا میٹھا ان کی تخلیق کو چاٹ گیا ہے، مگر پھر بھی یہ بضد ہیں کہ ان جیسا لکھنے والا کوئی نہیں اوریہ بات بالکل ٹھیک بھی ہے، ان جیسا لکھنے والا نہ کوئی ہے اورنہ پہلے کبھی تھا۔
پہلے کے ادیب باضمیر اور فاقہ زدہ تھے۔ مانگے تانگے کی روٹیاں کھا کر مداح سرائی نہیں کرتے تھے بلکہ خود بھوک کاٹتے اور معاشرے کی برہنگی کو بیان کرتے، اس خیال سے کہ کچھ بہتری آجائے۔ اب نہ وہ ادب زادے ہیں اور نہ ہی ان کے حقیقی چاہنے والے۔ جہاں تک فنکاروں کی بات ہے، تو ان کی اکثریت بھی لکھے ہوئے کو رٹنے کی قائل ہوچکی ہے۔
اس سارے قصے میں ''اوریجنل'' آدمی کی شنوائی نہیں۔ اب یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ ''اور یجنلٹی'' کا معیار کیا ہے، کیونکہ میں یہ طے نہیں کروں گا، تو اسی مافیا کا کوئی طرفدار میرا زائچہ بنا دے گا۔ ویسے آپس کی بات ہے، میری زندگی ایسے کئی زائچوں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی آپ سے ان زائچوں کی کتھا بھی بیان کروںگا۔ ابھی اسے کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال واپس اسی نکتے پر آتے ہیں، اپنی پہلی بات کی طرف کہ انسان فطری لحاظ سے ''سماجی جانور'' ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انسان فطری لحاظ سے پرندہ ہے۔ اس لیے کہ یہ ان دیکھی دنیا کی اڑان بھرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے کبھی یہ ناول لکھتا ہے، کبھی تصویر بناتا ہے اور کبھی لفظوں کو آواز میں انڈیل کر تاثیر کا جام تیار کرتا ہے۔ رنگوں کو زبان دیتا ہے۔ احساس کو قابو میں رکھتا ہے، مگر اظہار میں بے قابو ہوتا ہے۔ یہی سب کیفیات مل کر کسی کو فن کار بناتی ہیں اور فن کی تختی پر چاہے جانے کی روشنائی سے یہ زندگی کو لکھتا ہے اور کبھی بڑی عقیدت سے لہجوں کو سنتا اور لفظوں کو پڑھتا ہے اور اپنی بصارت سے مناظر کو دل میں اتارتا ہے۔ شاید یہی ہے وہ میرا فن کار، جس کی فطرت میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
پرندے ہجرت کرتے ہیں، یہ فن کار بھی ہجرت کرتا ہے۔ پرندے ڈار سے بچھڑتے ہیں، یہ بھی کوئے یار سے بچھڑ جاتا ہے۔ پرندے گھونسلوں میں واپس لوٹنے کی چاہ لیے دور کی مسافت طے کرتے ہیں۔ فن کار کا من بھی گھر کے دروازے سے بندھا رہتا ہے۔ پرندے صرف رزق کی تلاش اور موسم کی سختی سے مجبور ہوکر ہجرت نہیں کرتے بلکہ انھیں اڑان بھرنے کی فطرت ودیعت ہوتی ہے۔ فن کار بھی اپنے اندر کی تلاش میں باہر کی سختیاں سہتا ہے۔
ہمارا فن کار اس وقت اپنے دور کے سخت موڑ سے گزر رہا ہے کیونکہ ٹی وی کی اسکرین کو دیکھتاہے تو صرف بازارِ سیاست کا تذکرہ یا پھر صرف بازاری چیزوںکا تذکرہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اخبارات میں شعر وادب کا ایک صفحہ مرتب ہوا کرتا تھا، وہ روایت بھی دم توڑ رہی ہے۔ ادبی رسائل وجرائد سے تو کب کی روح پرواز کر چکی۔ مفت میں ملنے والا جریدہ بھی اب کوئی نہیں پڑھتا، البتہ کتابیں بہت چھپ رہی ہیں۔ اس اندازِ چھپائی کو دیکھ کر لگتاہے کہ کتاب لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں، ویسے واقعی اب کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ دور اور ہوا کرتے تھے، جہاں کوئی ایک مضمون لکھ کر بھی ہزار بار سوچتا تھا کہ شایع کرواؤں کہ نہ کرواؤں کیونکہ میرے ہاتھ کی لکھی تحریر صرف تحریر نہیں میرا تعارف بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہیں میں اپنے آپ کو ٹھیک سے پیش نہ کر سکوں۔ کوئی بھی کردار کرنے کو مل جائے، اب پرواہ نہیں کرتا۔
یہ وسوسے میرے فن کار کے ذہن سے چمٹے رہتے تھے، لیکن اب اکثریت جن چھپنے والی کتابوں کی ہے، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تعارف اب اپنی تعریف میں تبدیل ہوگیا ہے۔ شاید یہ ہماری جہالت کا اعلیٰ ترین دور ہے۔ جاہل کا بھی دل ہوتا ہے۔ اسے دل کی پریشانی ہوتی ہے، بل کی نہیں۔ وہ بل جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ''مافیا'' کو دینا پڑتے ہیں۔ یہ مافیا اشاعتی اداروں کی شکل میں بھی موجود ہے۔ چند ایک ناشرین کو چھوڑ کر باقی سب نے مافیائی شاعروں اور ادیبوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسی فضا میں پھر فن کار پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر نہیں آتے۔
میں نے اپنے ایک بہت عزیز فن کار سے گوشہ گمنامی اختیار کرنے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ''حاملہ عورت بانجھ عورتوں میں بیٹھی اچھی نہیں لگتی۔'' میں نے اس بات کے تناظر میں ادب کی مافیا کو دیکھا تو کنویں کے''جتنے'' مینڈک تھے، ان کے ''جتن '' کو ''جان'' پایا۔ شعر وادب کو لاحق بیماریوں اور ان بیمار صفت لوگوں کے رویے اور نام نہاد تخلیقات اور لابی کا ذکر بھی ہو گا اور آپ کو بتایا جائے گاکہ ان آستین کے سانپو ںکے کیا کیا روپ ہیں۔
ہمیشہ یہی سوچتا ہوں کہ آپ کے لیے ایسی تحریریں لکھوں، جن کا محور فنون لطیفہ ہو۔ کتابوں کی بات کی جائے۔ موسیقی کے لطیف پہلوؤں کو بیان کیا جائے۔ مصوری کے رنگوں کو سوچا جائے۔ ناولوں، افسانوں کے کرداروں پر غور کیا جائے اور شاعری کے موضوع کو منکشف کیا جائے لیکن ان سب سے پہلے کتابوں کی بے توقیری میرے قدم روکتی ہے۔ تخلیق کاری میں بڑھتا ہوا کمرشل ازم پاؤں کی زنجیر محسوس ہوتا ہے۔
ہم اس سماج کا حصہ ہیں جہاں پاؤں کے جوتے سے لے کر معدے کی آگ بجھانے والی مہنگی غذاؤں تک، ہر شے کے لیے جیب میں رقم موجود ہے مگر ان کو کتاب مفت چاہیے اور پڑھتے پھر بھی نہیں۔ موسیقی کے نام پر بے ہنگم شور مجھے بہرا کیے دیتا ہے۔ روح کی غذا سے زیادہ معدے کی غذا سے رغبت رکھنے والے معاشرے کو کس طرح علمی رویے کی طرف واپس لایا جائے۔ فنکار کی نظر سے زندگی کو دیکھنا شروع کر دیں، تو یہ کس قدر دلکش ہوجائے۔
اذیت کے اس منظر نامے پر میرا سچا فن کار پھر بھی آنکھیں موندے خواب دیکھنے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایسے دلنواز خواب جن کو تصویری شکل دی جائے تو ایسا لگتا ہے، جیسے نیلے رنگ کے آسمان پر رنگ برنگی تتلیاں اڑ رہی ہوں۔ اس کو سُریلے گیت بے چین کردیتے ہیں۔ یہ اچھی کتاب کی خاموشی کو پڑھتا ہے۔ کینوس پر بنی پینٹنگ سے اس کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو رنگ بولنے لگتے ہیں۔
ایسا فن کار بڑا قیمتی ہوتاہے۔ اپنے اردگرد دیکھیں، ایسا فن کار گوشہ گمنامی کے حجرے میں ریاضت کا وظیفہ پڑھتا رہتا ہے۔ اگر مل جائے تو دعا لیجیے، آپ کا فن نکھر جائے گا اور بُرے کی بددعا بکھر جائے گی۔ صحبت کا عِلم ذوق کا علم بن جاتا ہے۔ آپ کے فن میں کنندہ، آپ کا صحیح تعارف۔ فن سے فنا ہونے تک کے سفر میں فنکار شاید کبھی پھر اپنا کھویا ہوا مقام پالیں گے، کیونکہ پرندے دور کی پرواز سے واپس اپنے گھونسلوں میں آنا چاہتے ہیں۔