سانحہ اسلام آباد اورحکومت کی ذمے داری
اسلام آباد کو ہم اپنا دوسرا گھر مانتے ہیں کیونکہ کراچی کے بعد یہی وہ شہر ہے جہاں وطن عزیز میں ہم نے اپنی زندگی کا۔۔۔
اسلام آباد کو ہم اپنا دوسرا گھر مانتے ہیں کیونکہ کراچی کے بعد یہی وہ شہر ہے جہاں وطن عزیز میں ہم نے اپنی زندگی کا بیشتر عرصہ گزارا ہے۔ اگرچہ محکمہ جاتی تبادلوں کے نتیجے میں ہمیں ملک کے دیگر شہروں بشمول حیدرآباد اورکوئٹہ کی خاک بھی چھاننی پڑی لیکن شہر قائد کے بعد ہمارا سب سے زیادہ قیام حکمرانوں کے شہر اسلام آباد ہی میں رہا۔ یہ ایک فطری تقاضہ ہے کہ انسان جس جگہ رہائش پذیر ہوتا ہے اس جگہ سے اسے ایک انسیت سی ہوجاتی ہے۔ حسین اسلام آباد یاIslamabad the beautiful اگرچہ اسلام آباد سے کراچی واپس آئے ہوئے ہمیں بارہ برس بیت چکے لیکن اس کے باوجود اس شہر سے ہمارے لگاؤ میں ذرا بھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
سن 80 کی دہائی کے وسط میں جب ہماری اسلام آباد میں پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی تو اس وقت جنت نظیر اسلام آباد میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہر طرف فطرت کا حسن بکھرا ہوا تھا اور تمام شہری نظم وضبط کی زندگی گزار رہے تھے۔ معمولات زندگی بھی منضبط تھے اور تمام امور نہایت آرام و سکون کے ساتھ انجام پایا کرتے تھے۔ نصف شب ہو یا رات کا پچھلا پہر، آدمی بلاخوف و خطر کہیں بھی جا سکتا تھا۔ البتہ چیکنگ کے لیے پولیس کا عملہ گشت پر مامور ہوتا تھا جو اپنے فرائض منصبی انتہائی مستعدی اور شائستگی کے ساتھ انجام دیا کرتا تھا۔ چونکہ اسلام آباد کی آبادی کی غالب اکثریت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے عید اور بقر عید کے تہواروں کے موقعوں پر یہ شہر خالی خالی اور ویران سا ہوجاتا تھا جس کی سیدھی سادی وجہ یہ تھی کہ لوگ اپنے آبائی ٹھکانوں کا رخ کرلیتے تھے۔ مگر کیا مجال جو ان کی غیر موجودگی میں ان کے خالی گھروں پر کوئی آنچ آجائے۔ مکینوں کی عدم موجودگی میں ان کے گھروں کی رکھوالی اسلام آباد پولیس کی ذمے داری تھی جو اپنا یہ فرض منصبی بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا کرتی تھی۔ رہزنی یا ڈکیتی تو دور کی بات ہے، چوری چکاری کی معمولی وارداتیں بھی بس اکا دکا ہی ہوا کرتی تھیں جوکہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔
اگرچہ اسلام آباد اور ہمارے درمیان ہنوز دلی دور است کے مصداق کوسوں بلکہ کالے کوسوں کا فاصلہ حائل ہے لیکن اس شہر کے ساتھ ہماری قربت اور دلی وابستگی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کیونکہ دل و جان سے پیارے ہمارے کئی دوست اور احباب آج بھی اس شہر پناہ میں آباد ہیں جسے اب شہر بے پناہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب ہم نے اپنے ایک عزیز دوست کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو یہ معلوم کرکے بڑا دکھ ہوا کہ ان کی گاڑی چوری ہوگئی۔ ''بھائی! کیا کہہ رہے ہیں آپ؟'' ہم نے حیرت اور پریشانی کے عالم میں ان سے استفادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آب پارہ پر اپنی گاڑی چند منٹوں کے لیے پارک کرکے کسی دکان سے خریداری کے لیے گئے تھے کہ اس دوران ان کی گاڑی غائب ہوگئی۔ ہمارے ذہن کے لیے اس واقعے کو ہضم کرنا بڑا مشکل تھا کیونکہ آب پارہ اسلام آباد کا کوئی ویران علاقہ نہیں بلکہ انتہائی بارونق مقام ہے۔ ہمیں امید تھی کہ اسلام آباد کی پولیس بہت جلد اس معاملے کا کھوج لگالے گی اور ہمارے دوست کی گمشدہ گاڑی بازیاب ہوجائے گی۔ مگر افسوس صد افسوس یہ محض ہماری خوش فہمی یا خام خیالی تھی۔
وفاقی دارالحکومت میں لاقانونیت اور عدم تحفظ کا کبھی یہ عالم بھی ہوگا ایسا کبھی ہم نے سوچا بھی نہ تھا۔ مگر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وقوع پذیر ہونے واقعات نے تو ہمیں وحشت اور دہشت میں مبتلا کردیا۔ ابھی چند روز قبل ہی ہماری گناہ گار آنکھوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا کہ ''اسلام آباد محفوظ ہے'' ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دعویٰ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔ ایک تو وفاقی وزیر داخلہ اور وہ بھی چوہدری نثار علی اس لیے ہمارے پاس ان کے کہے پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ بہ قول میر:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
حکمراں جماعت کے لوگ چوہدری صاحب کی بات پر بغلیں بجا رہے تھے جب کہ ان کے مخالف اور حریف بغلیں جھانک رہے تھے۔ اگلے روز یہی خبر تمام اخبارات کی زینت بنی اور وزیر داخلہ کی ہر طرف جے جے کار ہوئی۔ لیکن ابھی اس خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ انتہائی دہشت گردی کا وہ واقعہ پیش آگیا جس نے وزیر داخلہ کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی اور چشم زدن میں انھیں سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے برابر لاکر کھڑاکردیا جن بڑھکوں کو یاد کرکے ہمیں آج بھی اپنی ہنسی پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں دہشت گردوں سے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ انھوں نے وزیر داخلہ کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا اور انھیں تھوڑی سی بھی مہلت نہ دی۔ ہائے ہائے!
مسکرانے بھی نہ پائے تھے کہ دنیا لوٹ لی
ظالموں نے دہشت گردی کی واردات کے لیے بھی جس علاقے کو چنا وہ ایف ایٹ تھا اور وہ بھی کچہری جہاں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ اس خودکش حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوئیں جن میں ایک فاضل ایڈیشنل جج اور ایک معصوم اور نوخیز وکیل دوشیزہ بھی شامل تھی۔
دارالحکومت کے بیچوں بیچ دہشت گردی کا یہ تازہ ترین واقعہ محض ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی سنگین سانحہ ہے جس نے ہمارے حفاظتی نظام کے ناکارہ ہونے کا پول کھول دیا ہے۔ اسلام آباد کی سیکیورٹی کے حوالے سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل بھی ایک شخص نے اپنی شریک حیات کو شریک واردات بناکر پورے شہر کو یرغمال بناکر ہمارے دارالخلافہ کے سیکیورٹی نظام کو بری طرح ایکسپوز کردیا تھا۔ سکندر نامی اس شخص نے خود کو سکندر اعظم ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ اس وقت ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے مچھر کو توپ سے اڑانے کا مظاہرہ کرکے خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کردیا تھا۔ وہ تو دعا دیجیے ایک باہمت شہری کو جس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس ڈرامے کو اختتام تک پہنچادیا ورنہ معلوم نہیں بے چارے اسلام آبادی کب تک یہ عذاب جھیلتے رہتے۔ تب بھی ہمارے وزیر داخلہ نے محض بھاشن دے کر عوام کو مطمئن کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ اندازہ لگانے والوں نے اسی وقت یہ بھانپ لیا تھا کہ جب ایک فرد واحد دارالخلافہ کی انتظامیہ کو بے بسی اور مفلوج کرسکتا ہے تو دہشت گردوں کا ایک گروہ کیا کچھ نہیں کرسکتا۔
سیکیورٹی نظام کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ تین روز گزرنے کے باوجود شہر کی انتظامیہ کچہری پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی صحیح تعداد کا تعین تک نہ کرسکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر داخلہ Security Lapse کے اس شرمناک واقعے پر اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجاتے جس سے ان کی اخلاقی جرأت کا اندازہ ہوجاتا۔ خودداری اور اصول پسندی کا تقاضہ بھی یہی تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دوسری جانب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی وزیر داخلہ کو ہٹانے یا ان کے قلم دان کو تبدیل کرنے کی زحمت یا ہمت نہیں کی جس سے ان کی کمزوری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب Fix کی کیفیت سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے ان کی بے چارگی اور قوت فیصلہ کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار گزشتہ دنوں ان کے اس خطاب سے ہوا جس کے دوران انھوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ پہلے کس کام پر ہاتھ ڈالا جائے پہلے سیکیورٹی کو ٹھیک کیا جائے یا پہلے انرجی کو ٹھیک کیا جائے۔ ہمیں اپنے وزیر اعظم کی اس حالت پر صرف رحم ہی آسکتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک و قوم کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اسلام آباد کا سانحہ خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے جس کے بعد حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ اس سنگین واقعے کی بلاتاخیر بھرپور تفتیش ہونی چاہیے اور بدانتظامی اور غفلت کے مرتکب اہل کاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ آیندہ اس طرح کے کسی اور واقعے کا مکمل طور پر تدارک کیا جاسکے۔
سن 80 کی دہائی کے وسط میں جب ہماری اسلام آباد میں پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی تو اس وقت جنت نظیر اسلام آباد میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہر طرف فطرت کا حسن بکھرا ہوا تھا اور تمام شہری نظم وضبط کی زندگی گزار رہے تھے۔ معمولات زندگی بھی منضبط تھے اور تمام امور نہایت آرام و سکون کے ساتھ انجام پایا کرتے تھے۔ نصف شب ہو یا رات کا پچھلا پہر، آدمی بلاخوف و خطر کہیں بھی جا سکتا تھا۔ البتہ چیکنگ کے لیے پولیس کا عملہ گشت پر مامور ہوتا تھا جو اپنے فرائض منصبی انتہائی مستعدی اور شائستگی کے ساتھ انجام دیا کرتا تھا۔ چونکہ اسلام آباد کی آبادی کی غالب اکثریت ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے عید اور بقر عید کے تہواروں کے موقعوں پر یہ شہر خالی خالی اور ویران سا ہوجاتا تھا جس کی سیدھی سادی وجہ یہ تھی کہ لوگ اپنے آبائی ٹھکانوں کا رخ کرلیتے تھے۔ مگر کیا مجال جو ان کی غیر موجودگی میں ان کے خالی گھروں پر کوئی آنچ آجائے۔ مکینوں کی عدم موجودگی میں ان کے گھروں کی رکھوالی اسلام آباد پولیس کی ذمے داری تھی جو اپنا یہ فرض منصبی بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا کرتی تھی۔ رہزنی یا ڈکیتی تو دور کی بات ہے، چوری چکاری کی معمولی وارداتیں بھی بس اکا دکا ہی ہوا کرتی تھیں جوکہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔
اگرچہ اسلام آباد اور ہمارے درمیان ہنوز دلی دور است کے مصداق کوسوں بلکہ کالے کوسوں کا فاصلہ حائل ہے لیکن اس شہر کے ساتھ ہماری قربت اور دلی وابستگی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کیونکہ دل و جان سے پیارے ہمارے کئی دوست اور احباب آج بھی اس شہر پناہ میں آباد ہیں جسے اب شہر بے پناہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب ہم نے اپنے ایک عزیز دوست کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو یہ معلوم کرکے بڑا دکھ ہوا کہ ان کی گاڑی چوری ہوگئی۔ ''بھائی! کیا کہہ رہے ہیں آپ؟'' ہم نے حیرت اور پریشانی کے عالم میں ان سے استفادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آب پارہ پر اپنی گاڑی چند منٹوں کے لیے پارک کرکے کسی دکان سے خریداری کے لیے گئے تھے کہ اس دوران ان کی گاڑی غائب ہوگئی۔ ہمارے ذہن کے لیے اس واقعے کو ہضم کرنا بڑا مشکل تھا کیونکہ آب پارہ اسلام آباد کا کوئی ویران علاقہ نہیں بلکہ انتہائی بارونق مقام ہے۔ ہمیں امید تھی کہ اسلام آباد کی پولیس بہت جلد اس معاملے کا کھوج لگالے گی اور ہمارے دوست کی گمشدہ گاڑی بازیاب ہوجائے گی۔ مگر افسوس صد افسوس یہ محض ہماری خوش فہمی یا خام خیالی تھی۔
وفاقی دارالحکومت میں لاقانونیت اور عدم تحفظ کا کبھی یہ عالم بھی ہوگا ایسا کبھی ہم نے سوچا بھی نہ تھا۔ مگر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وقوع پذیر ہونے واقعات نے تو ہمیں وحشت اور دہشت میں مبتلا کردیا۔ ابھی چند روز قبل ہی ہماری گناہ گار آنکھوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا کہ ''اسلام آباد محفوظ ہے'' ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دعویٰ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔ ایک تو وفاقی وزیر داخلہ اور وہ بھی چوہدری نثار علی اس لیے ہمارے پاس ان کے کہے پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ بہ قول میر:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
حکمراں جماعت کے لوگ چوہدری صاحب کی بات پر بغلیں بجا رہے تھے جب کہ ان کے مخالف اور حریف بغلیں جھانک رہے تھے۔ اگلے روز یہی خبر تمام اخبارات کی زینت بنی اور وزیر داخلہ کی ہر طرف جے جے کار ہوئی۔ لیکن ابھی اس خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ انتہائی دہشت گردی کا وہ واقعہ پیش آگیا جس نے وزیر داخلہ کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی اور چشم زدن میں انھیں سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے برابر لاکر کھڑاکردیا جن بڑھکوں کو یاد کرکے ہمیں آج بھی اپنی ہنسی پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں دہشت گردوں سے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ انھوں نے وزیر داخلہ کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا اور انھیں تھوڑی سی بھی مہلت نہ دی۔ ہائے ہائے!
مسکرانے بھی نہ پائے تھے کہ دنیا لوٹ لی
ظالموں نے دہشت گردی کی واردات کے لیے بھی جس علاقے کو چنا وہ ایف ایٹ تھا اور وہ بھی کچہری جہاں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ اس خودکش حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوئیں جن میں ایک فاضل ایڈیشنل جج اور ایک معصوم اور نوخیز وکیل دوشیزہ بھی شامل تھی۔
دارالحکومت کے بیچوں بیچ دہشت گردی کا یہ تازہ ترین واقعہ محض ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی سنگین سانحہ ہے جس نے ہمارے حفاظتی نظام کے ناکارہ ہونے کا پول کھول دیا ہے۔ اسلام آباد کی سیکیورٹی کے حوالے سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل بھی ایک شخص نے اپنی شریک حیات کو شریک واردات بناکر پورے شہر کو یرغمال بناکر ہمارے دارالخلافہ کے سیکیورٹی نظام کو بری طرح ایکسپوز کردیا تھا۔ سکندر نامی اس شخص نے خود کو سکندر اعظم ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ اس وقت ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے مچھر کو توپ سے اڑانے کا مظاہرہ کرکے خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کردیا تھا۔ وہ تو دعا دیجیے ایک باہمت شہری کو جس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس ڈرامے کو اختتام تک پہنچادیا ورنہ معلوم نہیں بے چارے اسلام آبادی کب تک یہ عذاب جھیلتے رہتے۔ تب بھی ہمارے وزیر داخلہ نے محض بھاشن دے کر عوام کو مطمئن کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ اندازہ لگانے والوں نے اسی وقت یہ بھانپ لیا تھا کہ جب ایک فرد واحد دارالخلافہ کی انتظامیہ کو بے بسی اور مفلوج کرسکتا ہے تو دہشت گردوں کا ایک گروہ کیا کچھ نہیں کرسکتا۔
سیکیورٹی نظام کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ تین روز گزرنے کے باوجود شہر کی انتظامیہ کچہری پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی صحیح تعداد کا تعین تک نہ کرسکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر داخلہ Security Lapse کے اس شرمناک واقعے پر اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجاتے جس سے ان کی اخلاقی جرأت کا اندازہ ہوجاتا۔ خودداری اور اصول پسندی کا تقاضہ بھی یہی تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دوسری جانب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی وزیر داخلہ کو ہٹانے یا ان کے قلم دان کو تبدیل کرنے کی زحمت یا ہمت نہیں کی جس سے ان کی کمزوری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب Fix کی کیفیت سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے ان کی بے چارگی اور قوت فیصلہ کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار گزشتہ دنوں ان کے اس خطاب سے ہوا جس کے دوران انھوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ پہلے کس کام پر ہاتھ ڈالا جائے پہلے سیکیورٹی کو ٹھیک کیا جائے یا پہلے انرجی کو ٹھیک کیا جائے۔ ہمیں اپنے وزیر اعظم کی اس حالت پر صرف رحم ہی آسکتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک و قوم کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ اسلام آباد کا سانحہ خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے جس کے بعد حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ اس سنگین واقعے کی بلاتاخیر بھرپور تفتیش ہونی چاہیے اور بدانتظامی اور غفلت کے مرتکب اہل کاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ آیندہ اس طرح کے کسی اور واقعے کا مکمل طور پر تدارک کیا جاسکے۔