معاشی آزادی مگر کیسے آخری حصہ

معیشت کے اصول کے مطابق پیداواری اخراجات یعنی Public Sector Development Program سے ۔۔۔

معیشت کے اصول کے مطابق پیداواری اخراجات یعنی Public Sector Development Program سے حکومتی غیر پیداواری اخراجات Non Development Expenditure بڑھ جاتا ہے تو مہنگائی اسی نسبت سے بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کے بجٹوں کے اعدادوشمارکی روشنی میں مالی سال 1948-49 سے مالی سال 1955-56 کے دوران حکومتی آمدنی ریوینو 1948-49 کو 95 کروڑ 64 لاکھ روپے تھا۔ 1955-56 کو ایک ارب 27 کروڑ 68 لاکھ 6 ہزار ریونیو تھا۔ حکومتوں نے عوام کی قوت خرید پر 33.50 فیصد ٹیکس لگایا۔8 سالوں کے دوران اوسطاً 4.19 فیصد سال میں ٹیکس لگایا گیا تھا۔ جب جون 1955 کو امریکی ایجنٹ اسکندر مرزا نے ملک غلام محمد کی 2 ماہ بیماری کی وجہ سے رخصت پر جانے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ قائم مقام گورنر جنرل کی حیثیت سے سنبھال لیا، تو اس نے آئی ایم ایف کے حکم پر 3.340 روپے کو 4.762 روپے فی ڈالر کردیا۔ روپے کی قیمت میں 43 فیصد کمی کا منفی اثر ملک کے تمام اداروں پر پڑا۔ عوام کو بتایا گیا کہ تجارت کے بڑھانے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ حقیقت یہ تھی مالی سال 1954-55 میں تجارت 11 کروڑ 97 لاکھ روپے سے سرپلس تھی اور مالی سال 1955-56 میں تجارت 45 کروڑ 86 لاکھ روپے سے پچھلے سال سے زیادہ سرپلس ہوگئی تھی۔

اصل حقیقت یہ تھی کہ پاکستانی ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیا کم ڈالر ریٹ پر فروخت کیں اور 13 کروڑ 73 لاکھ 5 ہزار 3 سو 89 ڈالر حاصل کرلیے اور پاکستان میں ہی ڈالر ٹریڈ پر ایک ڈالر پر 1.42 روپے نفع حاصل کرکے ڈالر نفع 19 کروڑ49 لاکھ 73 ہزار 6 سو 52 روپے کمالیا۔ اس طرح ایکسپورٹرز نے تو نفع کمالیا۔ اس امریکی مالیاتی ہتھکنڈے کی مداخلت کا منفی اثر ملکی تمام اداروں پر پڑا۔ مالی سال 1956-57 کا بجٹ 2 کروڑ 48 لاکھ 86 ہزار روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ مالی سال 1956-57 میں ایکسپورٹ 72 کروڑ 70 لاکھ روپے سے خسارے میں چلی گئی۔ ملکی معیشت کو اس '' غیر یقینی غیر ملکی مداخلت '' نے 43فیصد پیچھے دھکیل دیا۔ پاکستان عالمی مارکیٹ سے پٹرول جولائی 1955 سے قبل 1.93 ڈالر فی بیرل 3.340 روپے ایک ڈالر کے حساب سے 6.45 روپے کا فی بیرل لے رہا تھا۔ اگست 1955 کے بعد وہی پٹرول 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب 1.93 ڈالر فی بیرل پٹرول 9.19 روپے کا لیا گیا۔ اور جتنی بھی اشیا باہر سے منگوائی گئیں تمام کی قیمتیں 43فیصد زیادہ ادا کرنی پڑیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی تمام معیشت پر یہ امریکی Non Development Expenditure کا بوجھ تھا۔ دوسرے لفظوں میں امریکا کا پاکستانی کرنسی و معیشت پر 43فیصد غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس لگادیا گیا تھا۔

1948-49 سے 1955-56 تک 8 سالوں کے دوران تمام پاکستانی حکمرانوں نے عوام پر 33.50 فیصد ٹیکس لگائے تھے اسکندر مرزا نے عوام اور پاکستان پر ایک ہی جھٹکے میں 43فیصد غیر ملکی ڈالر ٹیکس لگادیا۔ یہ Currency Devaluation Minus Economic Development کا امریکی ہتھکنڈا تھا جسے خان لیاقت علی خان شہید نے 1949میں بھانپ لیا تھا اور اس وقت سختی سے روپے کی قیمت میں کمی سے انکار کردیا تھا۔ معاشی کمزور پاکستان پر امریکی CDMED کی ضرب نے صنعتی کلچر کو پیچھے دھکیل دیا۔ صنعتی کلچر میں غیر ملکی مشینری، تیل کے مہنگے استعمال نے پیداواری لاگتیں بھی بڑھادیں۔ جس کے نتیجے میں مالی سال 1956-57 تجارت خسارے میں چلی گئی۔ یہ نقصان امپورٹرز کو برداشت نہیں کرنا پڑا۔ امپورٹرز نے اپنا نفع لے کر نقصان عوام پر ڈال دیا۔ اس مالی سال بیرونی منڈی مقابلے میں ملکی لاگتیں بڑھنے سے دوسرے ملکوں کی اشیاؤں سے پاکستانی تیار اشیا مہنگی ہوگئیں۔ امپورٹرز نفع لے کر 1607.6 ملین روپے کی اشیا امپورٹ کیں اور ایکسپورٹرز نے 2334.6 ملین روپے کی اشیا امپورٹ کیں۔ زیادہ امپورٹ کی وجہ یہ تھی کہ امپورٹ کردہ اشیاؤں کی قیمتیں پاکستان میں تیار کردہ اشیاؤں سے کم تھیں۔ Currency Devaluation Minus Economic Development یعنی CDMED سامراجی ہتھکنڈے نے پاکستان کو معاشی غلام اور پاکستانی کرنسی روپے کو ''ڈالر کا قیدی'' بنالیا۔ پاکستان کی تجارت 1949-50 اور 1951-52 میں دو سال خسارے میں گئی تھی۔ CDMEDکے لگنے کے بعد 1956-57 سے 1971-72 تک مسلسل خسارے میں جاتی رہی۔


امپورٹرز نے تو اپنا نفع ہر سال حاصل کیا لیکن مہنگائی کو عوام کی قوت خرید کی طرف منتقل کردیا گیا۔ مالی سال 1958-59 سے 1964-65 تک تمام بجٹ عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے سرپلس کرلیے گئے۔ مالی سال 1965-66 کا بجٹ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے خسارے میں چلا گیا۔ انڈیا کا بجٹ بھی خسارے میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے 1970-71 تک بجٹ سرپلس کرلیے گئے۔

1971 میں پاکستان میں خانہ جنگی اور انڈیا کی مداخلت سے پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد 1971-72 کا بجٹ جنگ کی وجہ سے بہت بڑے خسارے میں چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے باقی پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ مئی 1972 میں بھٹو حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر عمل کرتے ہوئے 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ایک ڈالر کردیا۔ معاشی تباہ حال پاکستان پر امریکا نے ''مالیاتی ہتھکنڈے'' سے کاری ضرب لگادی تھی۔ روپے کی قیمت 132 فیصد کم کردینے سے پورے ملک کے ادارے خسارے میں چلے گئے۔ مالی سال 1971-72 سے 1972-73 کے دوران حکومت نے عوام پر 43 ریونیو وصولی کے لیے ٹیکس لگائے تھے۔ مالی سال 1972-73 کے دوران ایکسپورٹرز نے حسب سابق اگست 1955 کے بعد کی طرح CDMEDکا فائدہ اٹھاکر ایکسپورٹ کو 15 کروڑ 30 لاکھ روپے سے سرپلس کردیا۔ تجارتی نفع کے ساتھ پاکستان میں آزاد مارکیٹ ڈالر ٹریڈنگ میں ڈالروں پر 2 کروڑ 44 لاکھ روپے کا الگ نفع حاصل کیا۔

(جاری ہے)
Load Next Story