صدر مملکت کا حالیہ دورہ چین

پاکستان کے صدر ممنون حسین نے ایک وفد کے ہمراہ گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کیا اور...

mjgoher@yahoo.com

پاکستان کے صدر ممنون حسین نے ایک وفد کے ہمراہ گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کیا اور چین کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور حکومتی نمایندوں سے ملاقاتیں کیں، جن میں دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور ودیگر معاملات پر کھل کر گفتگو اور تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے پاک چین دوستی کے لازوال رشتے کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر مملکت کے مذکورہ دورے کے دوران چینی قیادت نے اپنی روایتی مہمان نوازی کا شاندار مظاہرہ کیا اور صدر مملکت اور ان کے وفد کے اعزاز میں عشایے اور ظہرانے دیے گئے۔ صدر ممنون حسین کے متذکرہ دورے کے دوران پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے، معاشی ترقی میں مزید اضافے اور تجارتی روابط کو مستحکم کرنے کے حوالے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے پاک چین سمجھوتے کیے گئے جن کے اثرات جلد پاکستان میں نظر آئیں گے جیساکہ ماضی میں بھی اہل وطن پاک چین تعاون کے مظاہر دیکھ چکے ہیں۔

درحقیقت پاکستان اور چین کے درمیان مثالی اور دوستانہ تعلقات اعتماد و یقین کے ایسے پختہ بندھن میں جڑے ہوتے ہیں کہ ہر زمانے کے موسموں کی تبدیلیاں اور گرم و سرد آزمائشیں بھی پاک چین برادرانہ مراسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ پاک چین دوستی کو اگر ہمالیہ جیسی بلندی اور سمندر کی سی گہرائی سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کچھ غلط نہیں کہ دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت اور سب سے بڑھ کر پاکستانی و چینی عوام ایک دوسرے کے ساتھ قلبی و جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور چین کے درمیان ابتدائی تعلقات کا آغاز 1950 کی دہائی سے ہوا اور صدر پاکستان ایوب خان کے دورے میں چینی وزیر اعظم چو این لائی پاکستان 18 روزہ سرکاری دورے پر تشریف لائے تاہم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاک چین دوستی کا رشتہ نئے سرے سے استوار ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور اس وقت سے دونوں ممالک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے چلے آرہے ہیں بالخصوص معاشی واقتصادی اور عسکری شعبے میں چین پاکستان کو ہر ممکن امداد و تعاون فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔ پاک چین دوستی کی سب سے بڑی اور اہم خوبی یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں کوئی بھی حکومت اور سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو دونوں ملکوں کے سیاسی وسفارشی تعلقات اور دوستانہ مراسم میں کبھی بداعتمادی و بدگمانی کا شائبہ تک نہیں آیا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہر جانب اخلاص، اعتماد، یقین اور محبتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر علاقائی وعالمی معاملات اور مسائل کے حوالے سے کسی ابہام کے بغیر پاکستان اور چین کے موقف میں یکسانیت کا عنصر غالب رہا، ایک دوسرے کے موقف کی تائید و حمایت سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اور سربراہان سفارتی محاذ پر ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تنازعہ کشمیر پر چین نے پاکستان کے موقف کو کبھی نظرانداز نہیں کیا، بعینہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعے پر چین کے موقف سے کبھی صرف نظر نہیں کیا۔


چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے گزشتہ دورہ پاکستان میں سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاک چین دوستی سونے سے زیادہ قیمتی اور چٹان سے زیادہ مضبوط ہے اور عالمی حالات خواہ کچھ بھی ہوں پاک چین دوستی پائیدار رہے گی۔ انھوں نے پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر آزمائش میں پورا اترنے والا بہترین دوست ملک ہے اور چین میں آنے والی قدرتی آفات سمیت بعض مشکل مراحل میں پاکستان نے جس طرح چین کی بھرپور مدد کی اور تعاون فراہم کیا چینی قوم اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اس موقعے پر بڑے واضح انداز میں کہا کہ چین پاکستان کی سالمیت، آزادی اور خودمختاری کی حمایت جاری رکھے گا۔ چینی وزیر اعظم کے مذکورہ خیالات سے پاک چین دوستی و تعلقات کی گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اس امر کی یقین دہانی کروائی تھی پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے اور پیداوار میں اضافے کے لیے چین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کی مدد کرے گا اور معاشی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں تعاون کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو بھی مزید مستحکم کرے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان اس موقعے پر 12 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ صدر ممنون حسین کے حالیہ دورے میں بھی کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر جو دستخط کیے گئے ہیں۔ بالخصوص توانائی کے بحران کے خاتمے کے حوالے سے چین نے بھرپور عالمی و تکنیکی تعاون فراہم کرنے کی جو یقین دہانی کروائی ہے تو یہ توقع کرنا غلط نہ ہوگا کہ آیندہ دو تین سالوں میں وطن عزیز سے توانائی کے بحران کے خاتمے کے روشن امکانات ہیں اور عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پانچ سالہ عہد میں چین کے 9 دورے کیے اور پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم، خوشگوار اور پراعتماد بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع گوادر پورٹ کا افتتاح سنگاپور اتھارٹی سے لے کر چین کی ایک معروف کمپنی چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کے حوالے کیا گیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار مراسم کے ایک اور باب کا اضافہ ہوا۔ گوادر پورٹ کی مذکورہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ''صدر'' پاکستان آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اس تازہ معاہدے سے پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور گوادر خطے میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی روابط قائم ہونے کی راہ ہموار ہوگی جس سے نہ صرف ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا بلکہ بلوچستان کے لوگوں پر بھی روزگار کے دروازے کھل جائیں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے پاک چین دوستی کے جس نئے سفر کا آغاز کیا ہے اسے پراعتماد طریقے اور بھرپور قومی جذبے کے ساتھ آگے بڑھانا اب موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے، اس تناظر میں صدر ممنون حسین کا حالیہ دورہ چین یقینا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی میں پاک چین دوستی کو کن خطوط پر استوار کرتے ہیں۔ بالخصوص توانائی کے بحران پر قابو پانے، معاشی و اقتصادی ترقی میں اضافے اور گوادر پورٹ منصوبے کو قومی معیشت میں استحکام لانے کے حوالے سے چینی تعاون کو کس طرح ملک و قوم کے لیے مفید سے مفید تر بناتے ہیں۔
Load Next Story