کراچی کا کوئی پرسان حال ہے

کراچی جو صوبہ سندھ کا دارالخلافہ ہے بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگ گیا ہے۔ لیکن کسی ۔۔۔

کراچی جو صوبہ سندھ کا دارالخلافہ ہے بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگ گیا ہے۔ لیکن کسی حکام بالا کی توجہ اس طرف نہیں جاتی ہے بلکہ ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ عوام کے اور شہرکے مسائل کی طرف مائل ہوں۔ محض مشیران، وزراء، سیکریٹریز کی زبانی کلامی اور سب اچھا ہے کی رپورٹوں پر انحصار ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ یہ تو آپ کی نا اہلی کا ثبوت ہوتا۔ بلکہ بعض اوقات تو بدنامی کا طوق آپ کے گلے میں پڑ جاتاہے۔ کیا کیا ترکیبیں بتاؤں، کیا کیا گر سکھاؤں، ماشاء اﷲ آپ تو مجھ سے زیادہ قابل و تجربہ کار ہیں۔ میں تو صرف لفاظی کے ذریعے کاغذ سیاہ کرتاہوں۔

عوام کا تو یہ عالم ہے کہ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ شام گھر لوٹیں گے بھی یا نہیں۔ معلوم نہیں راستے ہی میں کوئی ہمارے نام گولی پٹرول بم راکٹ، دستی بم وغیرہ ہمیں ہٹ کر جائے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی حفظ و امان میں رکھے یہی دعائیں ہر آدمی کی زبان پر رہتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حساس اداروں کے اہلکار بھی شاید تھک گئے ہیں۔ ان حالات کا سامنا کرتے کرتے۔ اس لیے ان کی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے رہنما، علماء، سیاست دان، سماجی کارکنان سب ہی حکومتی ذمے داران کی توجہ اس طرف کرا رہے ہیں لیکن دہشت گردی پر قابو پانے کے اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک طرف ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے تو دوسری طرف دہشت گرد عناصر لاشیں گرا رہے ہیں۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں جرائم پیشہ افراد اور شر انگیز عناصر کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور انھیں ''نامعلوم'' مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے اور ان کے منہ پر کپڑا ڈھانک کر لے جایا جا رہا ہے۔

لیکن آخری عمل کیا ہو رہا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم۔ کوئی ''نامعلوم شخص '' بھی آکر نہیں بتاتا کہ ان ملزمان کا کیا ہوا؟ نامعلوم شخص میں کوئی ایسا بھی آجاتا ہے کہ وہ یہ بتاتا ہے کہ ان کو حوالات میں بند کرکے اس قدر تشدد کیا جاتاہے کہ یا تو وہ اقرار جرم کرلیتا ہے۔ چاہے اس نے واقعی میں کوئی جرم کیا ہو یا نہیں۔ یا پھر تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے حوالات ہی میں اس دنیا سے کوچ کرجاتا ہے اور جو قانون نافذ کرنے والے اہلکار اس شخص کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں وہ یہی رپورٹ دیتے ہیں کہ اس کی موت ''ہارٹ فیل'' سے ہوگئی ہے یا پھر کسی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ہے۔ قصہ پاک ہوا۔ اب کہاں کی انکوائری، کہاں کی عدالتی پیشی، کہاں کی تفتیش، کیا یہی قانون کی پاسداری ہے۔ عمل داری ہے۔ انصاف کا حصول ہے۔ دیکھنے میں تو یہی آیا ہے۔ دہشت گرد تو ان کی گرفت میں آتے نہیں۔ اس لیے یہ اپنی گرفت بے گناہوں، معصوموں کی طرف منتقل کردیتے ہیں۔


ٹارگٹ کلرز اتنے سنگ دل ہیں کہ معصوم بچوں کو تک نہیں بخشتے ۔ معلوم نہیں کون سی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا حضور اکرمﷺ نے اسی طرح اسلام پھیلایا تھا اور اسی طرز کی شریعت نافذ کی تھی؟ ہر آدمی چھوٹا ہو کہ بڑا ہو بے چین، سکون و چین برباد ہوگیا ہے۔ عوام کو تو اپنے مسائل کے حل ہونے میں دل چسپی ہے۔ قومی یا بین الاقوامی سطح کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام نے انھیں اس لیے منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجا تھا نہ کہ عوامی خواہشات کا خون کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے، کراچی کے حالات دیکھ کرحکمران سمیت سب ہی افسوس اور مذمت کرنے کے سوائے عملی اقدام نہیں کرتے۔ ان کے طوفانی دورے اور سخت اقدامات کے اعلانات بھی دہشت گردوں پر ذرا برابر بھی اثر انداز نہیں ہوتے۔ حکومت اور دہشت گردوں کے راستے جدا جدا ہیں۔ حکومت عوام کو طفل تسلیاں دے کر بہلاتی ہے تو بدامنی پھیلانے والے معصوموں اور بے گناہوں کا خون بہاکر تسلی حاصل کرتے ہیں۔ جب تک وہ روزانہ کی بنیاد پر 10 سے 12 افراد کی لاشیں نہیں گرا دیتے ان کو سکون اور اطمینان نہیں ملتا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس عمل کا رد عمل آنے کی بجائے ان کی توپوں کا رخ سیاسی مخالفین کی طرف موڑ دیا جاتاہے۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ ان منتخب عوامی نمایندوں کو بھی اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔

معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ حکومت ،رینجرز، پولیس سب ہی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مخالف منتخب نمایندوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وزیراعلیٰ، وزرا، مشیران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہر ایک کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ اب موجودہ حالات کی سنگینی اور حکومت کے اقدامات کو دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حکومت کی امن مخالفوں پر گرفت مضبوط ہے اور امن مخالف گروہ کمزور پڑ گئے ہیں۔ جی نہیں ان کی گرفت اس قدر مضبوط اور طاقت ور ہوگئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سمیت حکومت بھی ان عناصر کے سامنے بے بس و لاچار نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سے میں صرف اتنا عرض کروںگا کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ کوئی وزیراعلیٰ، وزرا، مشیران قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں جانتے۔ عوام پر جو گزرتی ہے اسے عوام ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ چھوڑیے اس طرز حکمرانی کو کہ ''زبردست مارے رونے نہ دے'' کا فارمولا اپنایا جارہاہے۔ مظلوم کی آواز کو جتنا دبائیں گے اسی طاقت سے وہ بلند ہوگی۔ بدل دیجیے اپنی حکمت عملی، عوام کی آواز میں آواز ملائیں۔ سولو فلائٹ نقصان دہ ہوتی ہے۔ دور مت جایئے۔ ہمارے صوبے کا نامور، سندھ دھرتی کا سچا سپوت عوام کے خوابوں کی تعبیر، عوام کا سچا لیڈر، عوام کے دلوں کی دھڑکن بن کر ابھرا تھا اور نہایت عروج پر پہنچاتھا۔ کون تھا وہ آپ بھی جانتے ہیں لیکن آپ کی یاد دہانی کے لیے بتادیتا ہوں۔

اس کا نام تھا ''شہید ذوالفقار علی بھٹو'' جی ہاں ''شہید ذوالفقار علی بھٹو'' کا کیا حشر کیا تھا سابقہ حکومت نے اس کا بالآخر اسے تختہ دار پر لٹکادیا۔ ماضی کی تاریخ کیا نہیں بتاتی کہ وہ (شہید ذوالفقار علی بھٹو) اپنے دور کا ''عوامی لیڈر'' تھا اور عوام اس کی دیوانی تھی۔ اس لیے اس نے عوام کی خاطر اپنی جان قربان کردی لیکن ''عوام پر ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے'' آج اسی کا نواسہ گرج رہا ہے اس سے قبل بھی ''تقسیم ہند اور آزاد پاکستان کا حصول'' تحریک میں عوام نے 20 لاکھ جانوں کی قربانی دی تھی۔ وہ کون تھے، کیا وہ دہشت گرد تھے۔ کیا بانیٔ پاکستان قائد اعظم ؒ کے دشمن تھے۔ نہیں، نہیں! وہ آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے سر کٹانے والے تھے، سر جھکانے والے نہیں تھے۔ ان کی جوانمردی، حوصلہ مندی، حب الوطنی کے جذبات کو ہی دیکھ کر قائد اعظمؒ کے عزم و حوصلے کو تقویت حاصل ہوئی تھی اور ایک آزاد مملکت خداداد پاکستان وجود میں آئی تھی تو سن لیجیے انھی جان نثاران پاکستان، بانیان پاکستان کی یہ اولادیں ہیں جن پر آپ ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ انھیں غدار وطن ٹھہرانے کی سعی کررہے ہیں، انشاء اﷲ سعی لا حاصل ثابت ہوگی۔
Load Next Story