چشم کشا واقعہ
جرمنی کے ایک ریسٹورنٹ میں کچھ پاکستانی نوجوان کھانا کھانے کی غرض سے داخل ہوئے بھوک کی شدت کی وجہ سے۔۔۔
جرمنی کے ایک ریسٹورنٹ میں کچھ پاکستانی نوجوان کھانا کھانے کی غرض سے داخل ہوئے بھوک کی شدت کی وجہ سے نوجوانوں نے کھانے کا آرڈر فراخ دلی سے دیا کھانا آگیا اور تناول بھی کرلیا گیا۔ بل کی ادائیگی کے بعد جب یہ لوگ جانے لگے تو قریبی میز پر بیٹھی دو عمر دراز جرمن خواتین نے ان نوجوانوں کو آواز دی اور ان نوجوانوں کو ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنے اور بچے ہوئے کھانے کے ضایع ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے تمام کھانے کے پیسے ادا کردیے ہیں اور ہماری مرضی ہم کتنا بھی کھانا کھائیں ۔یہ بات سن کر خواتین نے کسی کو ٹیلی فون کیا تھوڑی دیر میں ہی ایک باوردی شخص آگیا جوکہ سوشل سیکیورٹی محکمے کا ایک اعلیٰ افسر تھا اس نے تمام صورت حال سن کر پچاس مارک کا جرمانہ عاید کیا اور موقعے پر ہی وصول کیا ساتھ ہی نصیحت کی کہ آیندہ جب بھی جرمنی میں کھانا طلب کرو اتنا ہی منگواؤ جتنا کھا سکتے ہو۔ تمہارے پاس بے شک پیسوں کی بھرمار ہے مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں ان کا بے دردی سے استعمال جرم ہے۔
یہ واقعہ پڑھ کر میری نظر میں وہ تمام کھانے پینے کے ریسٹورنٹ اور شادی ہالوں کے مناظر گھوم گئے جہاں انواع و اقسام کے کھانے ضایع ہوتے ہیں شادی ہالوں میں تو کھانا کھلتے ہی ایک بھگدڑ سی مچ جاتی ہے لوگ کھانے کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے اس کے بعد کبھی کھانا نہیں ملے گا یہی وجہ ہے کہ افراط سے زیادہ کھانا پلیٹوں میں بھر لیتے ہیں پھر وہ ضایع ہوکر کچرے کے ڈھیر کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہم ایک غریب ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کا ہر فرد مقروض ہے وسائل کی کمی نہیں ہے مگر وسائل کا صحیح استعمال نہیں کرتے بلکہ وسائل کو ضایع کرنے میں ہم پیش پیش ہیں ایک طرف کھانوں کے انبار ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ گوشت کی بات تو الگ ہے لوگ چٹنی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ 47 فیصد افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں آٹا جوکہ بنیادی غذا ہے وہ 45 روپے کلو سے زیادہ فروخت ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم کھانے پینے میں سادگی اختیار کرکے اپنے ان ہم وطنوں کا خیال رکھیں جن کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں، مگر بڑھتے ہوئے فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹ اور مختلف چینلز پر کھانا پکانے کے پروگرامز الگ کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سوائے کھانے کے اور کوئی کام نہیں ہر شخص خوش حال ہے دنیا کی تمام نعمتیں قوم کے ہر فرد کو حاصل ہیں مگر ایسا نہیں ہے لاکھوں لوگ ایسے ہیں جوکہ ان تمام نعمتوں سے محروم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 8 کروڑ افراد بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں یہ محروم انسان جب ایک طرف یہ حال دیکھتے ہیں کہ ان جیسے انسان ہی ان وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ان میں احساس محرومی پیدا ہوجاتا ہے اور یہ احساس محرومی کے شکار یہ لوگ آخر ناجائز کاموں کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اور یہ قدم مزید برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
معاشرے کی بھاری اکثریت مہنگائی بے روزگاری اور بیماری کے عفریت کا شکار ہے کیوں کہ اب معاشرے میں غربت کے ساتھ ساتھ بے حسی بھی شامل ہوتی جا رہی ہے۔ غربت اور مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان ہے اور ستم یہ ہے کہ میڈیا پر لایعنی محبتوں پر تو مذاکرے ہو رہے ہیں مگر ہمارے مفکرین، دانشور، سیاست دان عوام کو اس غربت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات وضع کرتے نظر نہیں آتے امیر اور غریب کے درمیان ایک طویل خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے۔ ہر شخص بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا نظر آرہا ہے مگر غریبوں کے دکھوں کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل نظر نہیں آتا ۔
ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے لگائے گئے دسترخوان پر لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہاں مالی، موالی یا نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ عام متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھاتے نظر آتے ہیں ایسے میں معقول صورت نظر آنے والے صاحب سے جب یہاں کھانے کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کہ میرے بچوں نے کئی ماہ سے گوشت نہیں کھایا تھا۔ میں دو جگہ جاب کرتا ہوں مگر اس کے باوجود میری تنخواہ میں اب گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے بلوں کی ادائیگی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے بعد روزمرہ کے کھانے کے لیے بہت معمولی رقم بچتی تھی پہلے تو ہفتہ پندرہ دن میں گوشت پک جاتا تھا مگر اب کئی ماہ سے ہمارے گھر میں گوشت نہیں پکا ہے تو میں اس لیے آج اپنے بچوں کو لے کر یہاں آگیا تاکہ میرے بچے پیٹ بھر کر گوشت کے ساتھ کھانا کھاسکیں ۔کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے متوسط طبقے کے لوگ بھی کھینچ تان کرنے کے باوجود اپنے بچوں کو متوازن غذا نہیں کھلاسکتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غریبوں کے مسائل کا حل آئین کی بالادستی میں بتایا جا رہا ہے۔ صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ہر حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد صبر کی تلقین اور قربانی مانگتی نظر آتی ہے ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔
ایک خبر ہے سندھ حکومت سیکیورٹی کے نام پر بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے 100 کروڑ روپے خرچ کرے گی ۔کاش یہ 100 کروڑ روپے مہنگائی کے خاتمے کے لیے استعمال ہوجاتے محنت کش عوام اس بوسیدہ نظام میں نسل در نسل برباد ہو رہے ہیں اور عوام کے حقوق کے محافظ اپنے محلوں کی دیواروں کو اور اونچا کرنے میں مشغول ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یوٹیلیٹی اسٹور پر عام آدمی کے لیے ریلیف کے نام پر کچھ تو موجود تھا مگر اب یہ یوٹیلیٹی اسٹور بھی نام کے رہ گئے ہیں حکومت جو سبسڈی فراہم کرتی تھی وہ بند ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں اشیا کی قیمتوں اور عام بازار میں بکنے والی چیزوں کی قیمتوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔
حکمران اب بھی اپنی ذمے داریوں کو پورا نہیں کریں گے تو یہ مجبور طبقہ اپنی بقا کی جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا پھر کسی کو جائے پناہ نہیں ملے گی کیونکہ اس طبقاتی نظام نے غربت کے ماروں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے، ایسا نہ ہو یہ طبقہ اپنی بقا کی جنگ میں اتنا آگے نہ نکل جائے کہ تمہاری داستان ہی نہ رہے داستانوں میں۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسا تمام لوگوں کو بھی سوچنا پڑے گا جوکہ اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں کہ اگر اللہ نے ان کو کسی معاملے میں دوسروں سے برتر رکھا ہے تو وہ اس بات کا حق ادا کریں، ساتھ ساتھ اللہ کی نعمتوں کو ضایع کرنے کی بجائے ان نعمتوں میں اپنے بھائیوں کو بھی شریک کریں تاکہ مساوات کا عملی مظاہرہ کرسکیں۔
یہ واقعہ پڑھ کر میری نظر میں وہ تمام کھانے پینے کے ریسٹورنٹ اور شادی ہالوں کے مناظر گھوم گئے جہاں انواع و اقسام کے کھانے ضایع ہوتے ہیں شادی ہالوں میں تو کھانا کھلتے ہی ایک بھگدڑ سی مچ جاتی ہے لوگ کھانے کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے اس کے بعد کبھی کھانا نہیں ملے گا یہی وجہ ہے کہ افراط سے زیادہ کھانا پلیٹوں میں بھر لیتے ہیں پھر وہ ضایع ہوکر کچرے کے ڈھیر کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہم ایک غریب ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کا ہر فرد مقروض ہے وسائل کی کمی نہیں ہے مگر وسائل کا صحیح استعمال نہیں کرتے بلکہ وسائل کو ضایع کرنے میں ہم پیش پیش ہیں ایک طرف کھانوں کے انبار ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ گوشت کی بات تو الگ ہے لوگ چٹنی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ 47 فیصد افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں آٹا جوکہ بنیادی غذا ہے وہ 45 روپے کلو سے زیادہ فروخت ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم کھانے پینے میں سادگی اختیار کرکے اپنے ان ہم وطنوں کا خیال رکھیں جن کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں، مگر بڑھتے ہوئے فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹ اور مختلف چینلز پر کھانا پکانے کے پروگرامز الگ کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سوائے کھانے کے اور کوئی کام نہیں ہر شخص خوش حال ہے دنیا کی تمام نعمتیں قوم کے ہر فرد کو حاصل ہیں مگر ایسا نہیں ہے لاکھوں لوگ ایسے ہیں جوکہ ان تمام نعمتوں سے محروم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 8 کروڑ افراد بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں یہ محروم انسان جب ایک طرف یہ حال دیکھتے ہیں کہ ان جیسے انسان ہی ان وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ان میں احساس محرومی پیدا ہوجاتا ہے اور یہ احساس محرومی کے شکار یہ لوگ آخر ناجائز کاموں کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اور یہ قدم مزید برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
معاشرے کی بھاری اکثریت مہنگائی بے روزگاری اور بیماری کے عفریت کا شکار ہے کیوں کہ اب معاشرے میں غربت کے ساتھ ساتھ بے حسی بھی شامل ہوتی جا رہی ہے۔ غربت اور مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان ہے اور ستم یہ ہے کہ میڈیا پر لایعنی محبتوں پر تو مذاکرے ہو رہے ہیں مگر ہمارے مفکرین، دانشور، سیاست دان عوام کو اس غربت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات وضع کرتے نظر نہیں آتے امیر اور غریب کے درمیان ایک طویل خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے۔ ہر شخص بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا نظر آرہا ہے مگر غریبوں کے دکھوں کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل نظر نہیں آتا ۔
ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے لگائے گئے دسترخوان پر لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہاں مالی، موالی یا نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ عام متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھاتے نظر آتے ہیں ایسے میں معقول صورت نظر آنے والے صاحب سے جب یہاں کھانے کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کہ میرے بچوں نے کئی ماہ سے گوشت نہیں کھایا تھا۔ میں دو جگہ جاب کرتا ہوں مگر اس کے باوجود میری تنخواہ میں اب گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے بلوں کی ادائیگی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے بعد روزمرہ کے کھانے کے لیے بہت معمولی رقم بچتی تھی پہلے تو ہفتہ پندرہ دن میں گوشت پک جاتا تھا مگر اب کئی ماہ سے ہمارے گھر میں گوشت نہیں پکا ہے تو میں اس لیے آج اپنے بچوں کو لے کر یہاں آگیا تاکہ میرے بچے پیٹ بھر کر گوشت کے ساتھ کھانا کھاسکیں ۔کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے متوسط طبقے کے لوگ بھی کھینچ تان کرنے کے باوجود اپنے بچوں کو متوازن غذا نہیں کھلاسکتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غریبوں کے مسائل کا حل آئین کی بالادستی میں بتایا جا رہا ہے۔ صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ہر حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد صبر کی تلقین اور قربانی مانگتی نظر آتی ہے ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔
ایک خبر ہے سندھ حکومت سیکیورٹی کے نام پر بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے 100 کروڑ روپے خرچ کرے گی ۔کاش یہ 100 کروڑ روپے مہنگائی کے خاتمے کے لیے استعمال ہوجاتے محنت کش عوام اس بوسیدہ نظام میں نسل در نسل برباد ہو رہے ہیں اور عوام کے حقوق کے محافظ اپنے محلوں کی دیواروں کو اور اونچا کرنے میں مشغول ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یوٹیلیٹی اسٹور پر عام آدمی کے لیے ریلیف کے نام پر کچھ تو موجود تھا مگر اب یہ یوٹیلیٹی اسٹور بھی نام کے رہ گئے ہیں حکومت جو سبسڈی فراہم کرتی تھی وہ بند ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں اشیا کی قیمتوں اور عام بازار میں بکنے والی چیزوں کی قیمتوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔
حکمران اب بھی اپنی ذمے داریوں کو پورا نہیں کریں گے تو یہ مجبور طبقہ اپنی بقا کی جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا پھر کسی کو جائے پناہ نہیں ملے گی کیونکہ اس طبقاتی نظام نے غربت کے ماروں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے، ایسا نہ ہو یہ طبقہ اپنی بقا کی جنگ میں اتنا آگے نہ نکل جائے کہ تمہاری داستان ہی نہ رہے داستانوں میں۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسا تمام لوگوں کو بھی سوچنا پڑے گا جوکہ اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں کہ اگر اللہ نے ان کو کسی معاملے میں دوسروں سے برتر رکھا ہے تو وہ اس بات کا حق ادا کریں، ساتھ ساتھ اللہ کی نعمتوں کو ضایع کرنے کی بجائے ان نعمتوں میں اپنے بھائیوں کو بھی شریک کریں تاکہ مساوات کا عملی مظاہرہ کرسکیں۔