کشکول اورجھولی کے چھید

اب یہ تو علم نہیں کہ کشکول واقعی توڑ دیا گیایا ’’ملوک‘‘لوگوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لیا

barq@email.com

معاملہ اگر اچھا خاصانہ سہی، گزارے کے لائق چل رہاتھا لیکن خرابی اس وقت پیداہوئی جب ''کشکول'' توڑنے کاسلسلہ شروع ہوگیا۔

ہرحکومت آتے ہی پہلا نعرہ کشکول توڑنے کالگاتی ہے، اب یہ تو علم نہیں کہ کشکول واقعی توڑ دیا گیایا ''ملوک''لوگوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لیا تاکہ ووٹ مانگنے میں سہولت ہو یا کہیں بیچ دیا کہ ان کوبیچنے بلکہ ارزاں فروختند کی بری عادت بھی پڑی ہوئی ہے حالانہ کشکول ہرانسان کاجنم جنماتر کاساتھی ہے اورمانگنا اس کاجدی پشتی پیشہ ہے۔

ہم نے دیکھا ہے اورآپ نے بھی دیکھا ہوگا اگر میں کوئی آئینہ ہو تو انسان کے پاس اگر کشکول موجود نہ ہو تو اپنے منہ ہی کو کشکول جیسا بنا کر کام چلا لیتا ہے، مطلب یہ کہ انسان ہمیشہ سے مانگو یا منگومنگا تھا، ہے اور رہے گا۔

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہوئی

اگربادشاہ بھی ہوتو مانگنے سے بازنہیں آتا اگر دولت کے ڈھیر پر بھی بیٹھا ہو تو اورمانگے گا، یقین نہ ہو تو اپنے جمہوری بادشاہوں کودیکھیے، جمہوری خاندانوں کو دیکھیے ،منہ کو کشکول بناکر منمناکر گڑگڑ اکر ''مانگتے ''ہیں۔

کشکول کے ساتھ انسان کا رشتہ بہت پرانا ہے، اگلے زمانوں میں جب بچے بیٹھنے اورہاتھ پیرچلانے کے قابل ہوجاتے تھے تو ان کے گلے میں ایک چھوٹا سا کشکول ڈال دیاجاتاتھا جو اکثرچاندی کاہوتاتھا اور خاندانوں میں پشتاپشت سے بچوں کے گلے میں لٹکایا جاتا،اس کشکول میں بچے کے کھانے کے لائق کوئی چیز ڈالی جاتی تھی،بچے کا جب جی چاہتا اپنے ننھے کشکول سے ہاتھ بڑھا کرلے لیتا تھا،چھوٹاساتقریباًچلو بھر کا کشکول تھا،بچے کے ہاتھ پیر بھی قابومیں نہیں ہوتے تھے اس لیے کچکول کی چیزیں ادھر ادھر گرا دیتاتھا یالیٹے میں بھی کشکول خالی ہوجاتاتھا لیکن مائیں پھر اسے بھردیتی تھیں، یہ دراصل بچے کو مصروف رکھنے کاایک کھیل بھی ہوتا۔

اب اندازہ لگائیں کہ جب بچپن ہی سے کشکول کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے تو وہ اتنا راسخ ہوجاتاہے کہ انسان کبھی اس سے چھٹکارا نہیں پاتا،غریب ہوتو امیروں سے مانگے، امیرہوتو غریبوں سے کچھ نہ کچھ تو ضرورمانگے کم ازکم یہ تو ضرورمانگتاہے کہ اسے آقا کہیں، خان کہیں، آپ جناب کہیں اورخداسے تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ مانگتاہے، سردی ہو توگرمی مانگے گا، سوکھاہوتو بارش مانگے، بارش ہو تورکنے کی دعائیں کریں گے ،رحمان بابانے کیاکمال کاشعر کہاہے۔

کلہ پہ نمرسوزے کلہ ریگدے پہ ساڑہ

کلہ مرے دلوگے گلہ مرے پہ ڈیرخواڑہ

یعنی،کبھی تو گرمی سے جلتے ہوکبھی سردی سے کپکپاتے ہو

کبھی بھوک سے بلبلاتے ہواورکبھی زیادہ کھا کر مرتے ہو


خیریہ تو ایک لمباسلسلہ ہے کہ جو چیزاس کے پاس نہیں ہوتی، وہی مانگتاہے اورجو ہوتی ہے اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا۔

دنیاجسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سوناہے

مطلب یہ کہ مانگنا اس کاپیشہ اورکشکول اس کا اوزارہے، لیکن نہ جانے ہمارے ملوک کو کیاسوجھی کہ کشکول توڑنے کی باتیں کرنے لگے، پہلے پہل ہم نے بھی سناتو ہم خوش ہوئے، ہم ہنس دیے کہ خدانے ہمیں کتنے اچھے ملوک دیے ہیں۔

یہ پتہ اب لگ گیا کہ کشکول توڑنے کی باتیں اورنعرے محض دکھاوا تھے بلکہ ڈرامے تھے، اصل مقصد یہ تھا کہ کشکول توسامنے کی چیزہے، اس میں جوڈالاجاتاہے، وہ کہیں غائب نہیں ہوسکتا کیوں کہ کشکول بڑی سخت اورٹھوس چیزہے اور اس میں ''چھید'' تو بالکل نہیں ہوتے۔اس کے برعکس جھولی میں جتنے چاہوچھیدڈال سکتے ہو اور یہ بات سب سے پہلے انشانے جان لی تھی اوربتائی تھی۔آپ تو جانتے ہیں کہ اکثرلوگ پاکستان کو ''دل ''بھی کہتے ہیں ،دل دل پاکستان جاں جان پاکستان چنانچہ انشاجی نے بھی کہا۔

اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھوتو سہی سوچوتو سہی

جس جھولی میں سو چھیدہوئے اس جھولی کاپھیلاناکیا

لیکن یہ بات ابن انشابھی نہیں جانتے تھے کہ یہ سوچھید ہوتے نہیں ہیں بلکہ ڈالے گئے ہیں اوراسی لیے توکشکول توڑا گیا کہ اس میں چھید نہیں ڈالے جاسکتے جب کہ جھولی میں جتنے چاہوچھید ڈالو،کسی کو پتہ نہیں چلے گا اورملوک لوگوں کوتوآپ جانتے ہیں کہ جس برتن میں کھاتے ہیں، اسی میں چھید بھی کرتے ہیں چنانچہ اس جھولی میں، جو کشکول کی جگہ لے چکی ہے اب صرف سوچھید نہیں بلکہ چھید ہی چھید ہیں، جھولی باقی ہی نہیں رہی ہے۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان چھیدوں کی بھی نشاندہی کریں تو یا تو آپ اندھے ہیں یا خود چھید ہیں اوریاکسی چھید کے چھید ہیں۔اس جھولی کے یہ چھید بھی کچھ عجیب قسم کے جادوئی چھید ہیں، ان کا منہ یہیں اس جھولی میں ہوتا ہے لیکن آؤٹ گوئنگ کہیں بہت دورکسی اورملک میں ہوتی ہے، بات گھوم پھر کر آئی ایم ایف نامی گھاٹ تک پہنچتی ہے کہ اس گھاٹ سے تو جھولی بھرلی جاتی ہے لیکن چھلنی چھلنی جھولی کے چھید اتنے زیادہ ہیں کہ پیاسے تک ایک قطرہ بھی نہیں پہنچ پاتا۔

اب توآپ جان بھی گئے ہوں گے ،پہچان بھی گئے ہوں گے اورمان بھی گئے ہوں گے کہ اس جھولی کے چھید کون ہیں، نام بدلتے رہتے ہیں، کام بھی بدلتے رہتے ہیں، طریقہ ہائے واردات بھی بدلتے ہیں لیکن چھید توچھید ہوتے ہیں چاہے گول ہوں، تکونے ہوں، مربع ہوں یامستطیل۔

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش

من انداز قدت رامی شناسم
Load Next Story