2 جولائی 1972 کی تاریخی رات
پاکستانی قیدیوں کو آزادی ملی اور مسز اندرا گاندھی نے یہ رعایت کی کہ کشمیر کے مسئلہ پر کوئی اپنا فیصلہ نہیں تھوپا
2اور 3 جولائی 1972کی رات ایک تاریخی رات ہے۔ اسی رات بھارت کے خوبصورت شہر شملہ میں بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک معاہدہ پر متفق ہوئے اور دونوں نے اس معاہدہ پر اتفاق کر کے تاریخ میں اپنے نام روشن کیے۔
اس معاہدہ سے پہلے 16 دسمبر 1971کو ڈھاکا میں بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے گئے تھے، یوں بھارت نے 90ہزار پاکستانی فوجیوں کو قید کر لیا تھا اور مغربی پاکستان کا 10 ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضہ میں چلا گیا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے اعتماد کے ساتھ شملہ گئے تھے۔ بھٹو صاحب کے وفد میں ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔
اس وقت بھارت کے سیکریٹری خارجہ ڈی پی دھر تھے جو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی شاعری کے عاشقوں میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افسروں کی سطح پر بات چیت تقریباً ناکام ہوگئی تھی۔ حضرت جوش ملیح آبادی نے اپنے ذاتی تعلقات کے ذریعہ مسز گاندھی کو اپنا سخت مؤقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔
پاکستانی قیدیوں کو آزادی ملی اور مسز اندرا گاندھی نے یہ رعایت کی کہ کشمیر کے مسئلہ پر کوئی اپنا فیصلہ نہیں تھوپا اور تمام مسائل پر دو طرفہ بات چیت پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت لاہور سے نئی دہلی سمجھوتہ ایکسپریس شروع ہوئی تھی۔ کراچی ، لاہور ، دہلی اور بمبئی ہوائی سفر کا آغاز ہوا اور کراچی میں بھارت کا قونصل خانہ قائم ہوا اور بمبئی میں پاکستانی قونصل خانہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ شملہ معاہدہ پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوا۔
جنرل ضیاء الحق حکومت نے بھٹو حکومت کی بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کیا مگر اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کی سطح پر بات چیت کا عمل جاری رہا۔ پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسلام آباد کا دورہ کیا ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعہ لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا مگر کارگل واقعہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پہلی دفعہ کشیدگی کی آخری حد عبور کرگئے تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی۔
وہ مذاکرات کے لیے آگرہ گئے مگر وزیر اعظم واجپائی سے یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ اس وقت کسی ڈپلومیٹ نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو تاریخ کا شعور نہ تھا۔ شاید آگرہ میں اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے بصیرت اور تاریخ میں روشن کردار ادا کرنے والے کردار موجود نہیں تھے مگر پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بعد میں چھ تجاویز پیش کی تھیں ۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بیک ڈور چینل کے ذریعہ بھارتی حکام سے رابطہ میں تھے۔
پاکستان کی حکومت کی یہ تجاویز پاکستان کی روایتی پالیسی سے بالکل ہٹ کر تھیں مگر بھارت وزارت خارجہ کے حکام ان تجاویز پر فوری فیصلہ نہ کرسکے اور کشمیر کے مسئلہ کے حل کا ایک اور موقع ضایع ہوا تھا ، پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔
اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں صنعتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر پھر بمبئی میں دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوا اور یہ خبریں شایع ہوئیں کہ Non State Actors دہشت گردی میں ملوث تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے بھرپور کوشش ہوئی اور گزشتہ ہفتہ راولپنڈی کی دہشت گردی کی عدالت سے اس واقعہ میں ملوث ایک ملزم کو طویل قید کی سزا دی گئی۔
میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے پھر دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی شریف خاندان کی ذاتی تقریب میں شرکت کے لیے کابل سے لاہور آئے مگر پھر میاں نواز شریف کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا ، انھیں مودی کا یار قرار دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان امریکا گئے اور امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو آمادہ کریں گے مگر اب مودی کا ایک جنونی رویہ ابھر کر آیا۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور اپنے زیرِ تسلط کشمیر کے دو حصے کر دیے۔ پاکستان نے بھارت سے تعلقات تقریباً ختم کر دیے، ریل بند ہوگئی اور تجارت پر پابندی عائد کردی گئی۔ حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑی۔ انسانی جان بچانے والی اشیاء کی درآمد کی اجازت دی گئی اور بھارت کے ٹرکوں کو افغانستان سامان لے جانے کی بھی اجازت دی گئی۔ مودی حکومت نے اب اپنا ایجنڈا مسلمان دشمنی پر مرتب کیا۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرت سین نے تجزیہ کیا کہ مودی کی جنونی پالیسی بھارت کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق 2015 اور 2016 میں اشوکا یونیورسٹی سوئی پت (ریاست ہریانہ) کے تعلیمی وظائف کا پروگرام ینگ انڈیا فیلو شپ ہوا۔ایک پاکستانی خاتون ملیحہ خان نے لبرل آرٹس اینڈ ہیومنٹیز کے ایک سالہ ڈپلومہ کے لیے درخواست ای میل کردی۔
اشوکا یونیورسٹی نے اس درخواست پر جواب دیا کہ آپ کو انٹرویو کے لیے پیش ہونا ہوگا، یوں ملیحہ کا ٹیلی فون پر انٹرویو ہوا ، مختلف ٹیسٹ ہوئے اور آخری انٹرویو پروگرام کے بانی کشور راج سنہا نے لیا۔ ان سے پاکستان میں ان کی زندگی کی مصروفیات کے بارے میں سوالات ہوئے۔ اشوکا یونیورسٹی نے ملیحہ کو صد فی صد اسکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس اسکالر شپ میں ہاسٹل کی سہولت تو ہوتی ہے لیکن کھانے کی سہولت نہیں ہوتی۔
ملیحہ خان نے پھر اشوکا یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اپیل کی تو ان کے کھانے کے اخراجات معاف کر دیے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ اشوکا یونیورسٹی کے ایک سال ڈپلومہ میں وہ پاکستانی سماج کو زیادہ آسانی سے سمجھنے لگی۔ ملیحہ خان کی دہلی میں گزشتہ صدی کے اردو کے رسالہ شمع شایع کرنے والے خاندان کے نوجوان ارمان دہلوی سے ملاقات ہوئی اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
ملیحہ خان نے دہلی کی سارک یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا اور آج کل Biharis and the sense of beloging کے موضوع پر تحقیق کررہی ہیں۔ ان کی تحقیق کا محور کراچی کے علاوہ اورنگی ٹاؤن میں آباد بہاری ہیں۔ ملیحہ خان کو بھارت میں اعلیٰ تعلیم کا اس وقت موقع ملا جب بھارت میں مذہبی جنون عروج پر پہنچ چکا ہے مگر ملیحہ خان کو بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع ملنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی امید کی ایک کرن کہیں موجود ہے۔
پاکستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔ اگر بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کردی جائیں تو دوائیوں کا خام مال کم قیمت پر دستیاب ہوگا اور بھارت سے آنے والی ادویات سے قیمتوں میں استحکام ہوگا۔
اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی تجارت سے بھی مہنگائی میں فرق پڑے گا ، اگر تعلقات معمول پر آجائیں تو دونوں ممالک کے عوام کے عوام سے رابطے جنونی فضاء کو کم کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔ اس وقت دونوں ممالک کو ذوالفقار علی بھٹو اور مسز اندرا گاندھی جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔
اس معاہدہ سے پہلے 16 دسمبر 1971کو ڈھاکا میں بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے گئے تھے، یوں بھارت نے 90ہزار پاکستانی فوجیوں کو قید کر لیا تھا اور مغربی پاکستان کا 10 ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضہ میں چلا گیا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے اعتماد کے ساتھ شملہ گئے تھے۔ بھٹو صاحب کے وفد میں ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں۔
اس وقت بھارت کے سیکریٹری خارجہ ڈی پی دھر تھے جو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی شاعری کے عاشقوں میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افسروں کی سطح پر بات چیت تقریباً ناکام ہوگئی تھی۔ حضرت جوش ملیح آبادی نے اپنے ذاتی تعلقات کے ذریعہ مسز گاندھی کو اپنا سخت مؤقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔
پاکستانی قیدیوں کو آزادی ملی اور مسز اندرا گاندھی نے یہ رعایت کی کہ کشمیر کے مسئلہ پر کوئی اپنا فیصلہ نہیں تھوپا اور تمام مسائل پر دو طرفہ بات چیت پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت لاہور سے نئی دہلی سمجھوتہ ایکسپریس شروع ہوئی تھی۔ کراچی ، لاہور ، دہلی اور بمبئی ہوائی سفر کا آغاز ہوا اور کراچی میں بھارت کا قونصل خانہ قائم ہوا اور بمبئی میں پاکستانی قونصل خانہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ شملہ معاہدہ پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوا۔
جنرل ضیاء الحق حکومت نے بھٹو حکومت کی بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کیا مگر اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کی سطح پر بات چیت کا عمل جاری رہا۔ پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسلام آباد کا دورہ کیا ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعہ لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا مگر کارگل واقعہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پہلی دفعہ کشیدگی کی آخری حد عبور کرگئے تھے۔ جب جنرل پرویز مشرف برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی۔
وہ مذاکرات کے لیے آگرہ گئے مگر وزیر اعظم واجپائی سے یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ اس وقت کسی ڈپلومیٹ نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو تاریخ کا شعور نہ تھا۔ شاید آگرہ میں اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے بصیرت اور تاریخ میں روشن کردار ادا کرنے والے کردار موجود نہیں تھے مگر پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بعد میں چھ تجاویز پیش کی تھیں ۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بیک ڈور چینل کے ذریعہ بھارتی حکام سے رابطہ میں تھے۔
پاکستان کی حکومت کی یہ تجاویز پاکستان کی روایتی پالیسی سے بالکل ہٹ کر تھیں مگر بھارت وزارت خارجہ کے حکام ان تجاویز پر فوری فیصلہ نہ کرسکے اور کشمیر کے مسئلہ کے حل کا ایک اور موقع ضایع ہوا تھا ، پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔
اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں صنعتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر پھر بمبئی میں دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوا اور یہ خبریں شایع ہوئیں کہ Non State Actors دہشت گردی میں ملوث تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے بھرپور کوشش ہوئی اور گزشتہ ہفتہ راولپنڈی کی دہشت گردی کی عدالت سے اس واقعہ میں ملوث ایک ملزم کو طویل قید کی سزا دی گئی۔
میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے پھر دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی شریف خاندان کی ذاتی تقریب میں شرکت کے لیے کابل سے لاہور آئے مگر پھر میاں نواز شریف کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا ، انھیں مودی کا یار قرار دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان امریکا گئے اور امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو آمادہ کریں گے مگر اب مودی کا ایک جنونی رویہ ابھر کر آیا۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور اپنے زیرِ تسلط کشمیر کے دو حصے کر دیے۔ پاکستان نے بھارت سے تعلقات تقریباً ختم کر دیے، ریل بند ہوگئی اور تجارت پر پابندی عائد کردی گئی۔ حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑی۔ انسانی جان بچانے والی اشیاء کی درآمد کی اجازت دی گئی اور بھارت کے ٹرکوں کو افغانستان سامان لے جانے کی بھی اجازت دی گئی۔ مودی حکومت نے اب اپنا ایجنڈا مسلمان دشمنی پر مرتب کیا۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرت سین نے تجزیہ کیا کہ مودی کی جنونی پالیسی بھارت کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق 2015 اور 2016 میں اشوکا یونیورسٹی سوئی پت (ریاست ہریانہ) کے تعلیمی وظائف کا پروگرام ینگ انڈیا فیلو شپ ہوا۔ایک پاکستانی خاتون ملیحہ خان نے لبرل آرٹس اینڈ ہیومنٹیز کے ایک سالہ ڈپلومہ کے لیے درخواست ای میل کردی۔
اشوکا یونیورسٹی نے اس درخواست پر جواب دیا کہ آپ کو انٹرویو کے لیے پیش ہونا ہوگا، یوں ملیحہ کا ٹیلی فون پر انٹرویو ہوا ، مختلف ٹیسٹ ہوئے اور آخری انٹرویو پروگرام کے بانی کشور راج سنہا نے لیا۔ ان سے پاکستان میں ان کی زندگی کی مصروفیات کے بارے میں سوالات ہوئے۔ اشوکا یونیورسٹی نے ملیحہ کو صد فی صد اسکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس اسکالر شپ میں ہاسٹل کی سہولت تو ہوتی ہے لیکن کھانے کی سہولت نہیں ہوتی۔
ملیحہ خان نے پھر اشوکا یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اپیل کی تو ان کے کھانے کے اخراجات معاف کر دیے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ اشوکا یونیورسٹی کے ایک سال ڈپلومہ میں وہ پاکستانی سماج کو زیادہ آسانی سے سمجھنے لگی۔ ملیحہ خان کی دہلی میں گزشتہ صدی کے اردو کے رسالہ شمع شایع کرنے والے خاندان کے نوجوان ارمان دہلوی سے ملاقات ہوئی اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
ملیحہ خان نے دہلی کی سارک یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا اور آج کل Biharis and the sense of beloging کے موضوع پر تحقیق کررہی ہیں۔ ان کی تحقیق کا محور کراچی کے علاوہ اورنگی ٹاؤن میں آباد بہاری ہیں۔ ملیحہ خان کو بھارت میں اعلیٰ تعلیم کا اس وقت موقع ملا جب بھارت میں مذہبی جنون عروج پر پہنچ چکا ہے مگر ملیحہ خان کو بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع ملنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی امید کی ایک کرن کہیں موجود ہے۔
پاکستان اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔ اگر بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کردی جائیں تو دوائیوں کا خام مال کم قیمت پر دستیاب ہوگا اور بھارت سے آنے والی ادویات سے قیمتوں میں استحکام ہوگا۔
اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کی تجارت سے بھی مہنگائی میں فرق پڑے گا ، اگر تعلقات معمول پر آجائیں تو دونوں ممالک کے عوام کے عوام سے رابطے جنونی فضاء کو کم کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔ اس وقت دونوں ممالک کو ذوالفقار علی بھٹو اور مسز اندرا گاندھی جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔