بیماریوں کے سبب سالانہ 4 لاکھ بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں قومی غذائی سروے رپورٹ
ہر سال 45 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، 55 فیصد غذائی کمی کا شکار ہوکر مرتے ہیں،غربت کے باعث عوام متناسب غذا سے محروم
پاکستان میں سالانہ 45 لاکھ بچے پیداہوتے ہیں، 5 سال سے کم عمر کے 4لاکھ بچے مختلف امراض کاشکار ہوکرجاں بحق ہوجاتے ہیں۔
ان میں 55 فیصد بچے ہر سال غذائی قلت میں مبتلا ہوکردم توڑ دیتے ہیں، آبادی کے32 فیصد عوام غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں، معاشی بحران اور اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب عوام اپنے بچوں کومتناسب غذا کھلانے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں 58 فیصد سے زائد عوام اور بچے غذائی قلت کاشکار ہیں، پاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر اقبال میمن اور سیکریٹری جنرل پروفیسر جمال رضا نے قومی غذائی سروے اور پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں 50 فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان ماہرین اطفال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 45 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، 5 سال سے کم عمرکے 4 لاکھ بچے ہر سال موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ان میں سے55 فیصد بچے ہر سال غذائی قلت کے مرض میں مبتلا ہوکرموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ غذائی قلت کاشکاربچوں میں آیوڈین، وٹامن اے اور ڈی کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے بچوں میں قوت مدافعت مزید کمزور ہو جاتی ہے، دریں اثنا قومی غذائی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں 43 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں وزن کی کمی، پستہ قد ہونا اور قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے، غذائی قلت کا شکار بچوں میں نمونیہ، اسہال، وٹامن اے اور ڈی کی شدیدکمی واقع ہوجاتی ہے جو موت کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں بچوں کو غذائی قلت کا شدید سامنا ہے، ملک میں شدید مہنگائی اوراشیا خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے غریب گھرانوں کیلیے مناسب اور متوازی غذا تک رسائی مشکل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں 58 فیصد بچے غذائی قلت کا شکارہوگئے ہیں، ملینیم ڈویلپمنٹ گول 2015 تک پیدائش کے دوران بچوں کی شرح اموات میں دوتہائی کمی کرنا ہے۔
ان میں 55 فیصد بچے ہر سال غذائی قلت میں مبتلا ہوکردم توڑ دیتے ہیں، آبادی کے32 فیصد عوام غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں، معاشی بحران اور اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب عوام اپنے بچوں کومتناسب غذا کھلانے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں 58 فیصد سے زائد عوام اور بچے غذائی قلت کاشکار ہیں، پاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر اقبال میمن اور سیکریٹری جنرل پروفیسر جمال رضا نے قومی غذائی سروے اور پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں 50 فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان ماہرین اطفال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 45 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، 5 سال سے کم عمرکے 4 لاکھ بچے ہر سال موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ان میں سے55 فیصد بچے ہر سال غذائی قلت کے مرض میں مبتلا ہوکرموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ غذائی قلت کاشکاربچوں میں آیوڈین، وٹامن اے اور ڈی کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے بچوں میں قوت مدافعت مزید کمزور ہو جاتی ہے، دریں اثنا قومی غذائی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں 43 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں وزن کی کمی، پستہ قد ہونا اور قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے، غذائی قلت کا شکار بچوں میں نمونیہ، اسہال، وٹامن اے اور ڈی کی شدیدکمی واقع ہوجاتی ہے جو موت کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں بچوں کو غذائی قلت کا شدید سامنا ہے، ملک میں شدید مہنگائی اوراشیا خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے غریب گھرانوں کیلیے مناسب اور متوازی غذا تک رسائی مشکل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں 58 فیصد بچے غذائی قلت کا شکارہوگئے ہیں، ملینیم ڈویلپمنٹ گول 2015 تک پیدائش کے دوران بچوں کی شرح اموات میں دوتہائی کمی کرنا ہے۔