تاریخ کی عظیم فیمنسٹ عورتیںدوسرا حصہ
یہ اجلاس نوعمر لڑکیوں کے اسکول جانے کے حق جیسے کانٹے دار مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا
لاہور:
نعیم مرزا کی اس اہم اور تاریخی کتاب پر میں ابھی لکھ ہی رہی تھی کہ شہر کابل سے سنسنی خیز خبر آگئی۔ وہاں ہزاروں طالبان پر مشتمل ایک جرگہ ہو رہا تھا جس کی دنیا بھر میں شہرت تھی۔
یہ ایک ایسی کانفرنس تھی جس میں خواتین کے بنیادی حقوق پر بات ہوئی تھی لیکن اس میں کوئی ایک لڑکی یا عورت شامل نہ تھی۔ انسانی حقوق کی ایک کارکن ہدیٰ خاموش کا کہنا ہے کہ خواتین کی موجودگی کے بغیر کسی بھی اجتماع میں طالبان سے وفاداری کے بیانات قابل قبول نہیں۔ تفصیلات کے مطابق افغان خواتین سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ہزاروں مرد علما کی جانب سے ان کی سخت گیر حکومت کی حمایت کے اعلان کے باوجود طالبان بدستور جائز حکمران نہیں ہیں۔ علما نے تین روزہ اجلاس کے بعد طالبان اور اس کے ممتاز رہنماؤں سے وفاداری کا عہد کیا۔
یہ اجلاس نوعمر لڑکیوں کے اسکول جانے کے حق جیسے کانٹے دار مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ طالبان نے اس اجلاس کو ایک خالص اسلامی ریاست کے اپنے تصور میں اعتماد کے ووٹ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے گزشتہ ہفتے اصرار کیا تھا کہ اجلاس میں خواتین کی نمایندگی کی جائے گی جس میں 3500 سے زائد مردوں نے شرکت کی لیکن یہ صرف ان کے بیٹے اور شوہر تھے۔ انسانی حقوق کی ایک کارکن ہدیٰ خاموش جو اس وقت ناروے میں جلا وطن ہیں، انھوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین کی موجودگی کے بغیر کسی بھی اجتماع یا تقریب میں طالبان سے وفاداری یا جاری کیے گئے بیانات قابل قبول نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سربراہی اجلاس کو قانونی حیثیت، جواز یا لوگوں کی منظوری حاصل نہیں۔
نعیم مرزا نے اپنی کتاب کے پہلے باب میں ''کرسٹین دی پیزاں'' کا ذکر کیا ہے۔
''اس کا اعتراف، اس کی موت کے صدیوں بعد بیسویں صدی کی مشہور فرانسیسی دانشور اور ادیب سیمون دی بودار نے کیا اور یہ لکھا کہ کرسٹین دی پیزاں یہ سمجھتی تھی کہ اگر چھوٹی بچیوں کو اچھی تعلیم دی جائے تو وہ بھی لڑکوں ہی کی طرح فنون لطیفہ کی طاقتیں سمجھ سکتی ہیں۔''
''شہر خواتین کی کتاب'' کے آغاز میں کرسٹین دی پیزاں کا یہ شکوہ اس درد کی غمازی کرتا ہے، جس نے اسے عورتوں کا شہر تحریر کرنے کی طرف مائل کیا۔ وہ کہتی ہے: ''مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ ایسا کیوں ہے کہ بہت سے مرد اور ان میں کئی عالم فاضل مرد بھی شامل ہیں، اپنی گفتار اور اپنی تحریروں میں عورتوں اور ان کے رویوں کے متعلق اپنے شیطانی اور ریاکارانہ خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ صرف ایک یا دو نہیں، اور صرف یہ ماتھیلوس ہی نہیں (جس کی مذکورہ کتاب ویسے ہی بڑی شہرت رکھتی تھی اور اس کا مقصد صرف طنز تھا)، بلکہ بالعموم اگر ان کے مقالات کو دیکھا جائے تو تمام فلسفی اور شاعر اور تمام خطیب، ان کے نام کی فہرست مرتب کرنے میں بڑا وقت لگے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ سب ایک ہیں اور ایک ہی جیسی زبان بولتے ہیں۔ وہ سب ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عورتوں کا رویہ بدی کی طرف مائل اور ان کا وجود اس سے بھرا ہوا ہے۔''
ہمارے یہاں تاریخ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی جاتی، اسی لیے ہم یورپ کی صد سالہ جنگ کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہ وہ جنگ ہے جس نے آدھی دنیا کی تاریخ کو بدل دیا اور اسی نے جون آف آرک ایسی نوخیز شہید یورپ کو دی۔ کرسٹین ڈی پیزاں نے جون آف آرک کی شہادت پر ایک طویل نظم لکھی جس کے چند مصرعے کچھ یوں ہیں:
اور لوگ سمجھتے تھے
یہ ناممکن ہے تمہارے لیے
اپنا وطن دوبارہ حاصل کرنا
جو ہم کھو چکے تھے
لیکن اب یہ تمہارا ہے
جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سرکاری ریکارڈ ضایع ہو چکا تھا اور کرسٹین کی وفات کی تاریخ کا تعین مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم مختلف مورخین کی تحقیق کے مطابق کرسٹین کی وفات 1430ء کے لگ بھگ ہوئی تھی۔ اس طرح یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک طویل اور ثمر بار کیریئر کے اختتام پر ساٹھ کے پیٹے میں ہوگی۔ انگلینڈ اور فرانس کی 'سو سالہ جنگ' جو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح کرسٹین کی زندگی بھر رفیق رہی، ابھی تک حل طلب تھی۔
کرسٹین دی پیزاں نے اپنی کتاب میں تاریخ نویسی، دلائل اور مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عورتوں نے انسانی تہذیب کی تشکیل و ترقی میں مردوں کے برابر حصہ لیا، بلکہ انھوں نے مردوں سے زیادہ حصہ ڈالا اور یہ کہ انسانیت کو بربریت سے نجات دلانے میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ عورتیں تاریخی طور پر انسانی تمدن، مقامی علم وہنر، موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیات، ادویات، دیومالائی داستانوں، قصے کہانیوں، استطور اور روایات کا منبع اور مخزن رہی ہیں۔ کرسٹین نے اپنی مشیروں اور کرداروں کے ذریعے بتایا کہ
عورتیں زراعت، بیج، ظروف ، ملبوسات، خوراک اور روز مرہ ضرورت کی کئی مفید اشیا کی موجد اور خالق ہونے کے باعث انسانی معاشرت کی ترقی اور ارتقا کی بنیادی محرک اور خالق رہی ہیں۔
کرسٹین نے یہ کارنامہ چھ صدیاں قبل انجام دیا تھا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں فیمنسٹوں اور سائنس دانوں نے کرسٹین کے تمام اہم نتائج کے حق میں سائنسی شواہد پیش کردیے اور کم تری کی وہ سیاہی جو صدیوں پہلے فلسفے اور تنگ نظر مذہبی اعتقادات نے عورت کے ماتھے پر مل دی تھی، وہ انھوں نے سائنس اور نئے علوم کی مدد سے کھرچ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی۔ (جاری ہے)