مفتاح اسمٰعیل کا پہلا کارنامہ

قومی معیشت کے ساتھ کیے جانے والے اسی کھلواڑ کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف ساگ پات ہم غریبوں کی دسترس سے نکل گئے

farooq.adilbhuta@gmail.com

دو مبارک بادیں اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ایک مبارک باد تو عید کی ہے۔ دوسری کا تعلق ہماری معیشت سے ہے۔ وہ معیشت جسے خطا و نسیان سے پاک ہمارا ایک سیاست دان 'ماشیت' کا نام دیتا ہے اور دعوی کیا کرتا ہے کہ اس کے اقتدار میں آنے کا مقصد دال ساگ کی قیمتوں پر نگاہ رکھنا نہیں تھا۔ پھر کیا تھا؟ اس سوال کا جواب نہیں ملتا، البتہ اس کے پیرو کاروں کو سان پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ معیشت کے ساتھ کی جانے والی ان ہی کج ادائیوں کا کیا دھرا ہے کہ معیشت ہمارے ہاتھوں سے کسی بدکے ہوئے گھوڑے کی طرح نکل بھاگی۔

قومی معیشت کے ساتھ کیے جانے والے اسی کھلواڑ کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف ساگ پات ہم غریبوں کی دسترس سے نکل گئے بلکہ اللہ تعالی کی ہزارہا نعمتوں سے بھرے ہوئے اس ملک کو بھی دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے۔ وہ بھی اس بے بسی کے عالم میں کہ رہے سہے کس بل بھی نکل گئے۔ ظلم کی یہ داستان فقط یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہ کہانی تو اُس وعدہ خلافی تک جا پہنچتی ہے جس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی مشکیں مزید کسنے کا موقع ملا۔ حیرت ہوتی ہے کہ وطن عزیز پر یہ سارے ستم ڈھانے والے شخص کے منھ سے اب بھی دوسروں کے لیے سوائے دشنام کے کچھ برآمد نہیں ہوتا۔خوش خبری یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے منھ پر دے ماری جانے والی معیشت کا یہی لرزیدہ بدن ہمیں ایک خوش خبری دے رہا ہے۔

خوش خبری یہ ہے کہ اس ماہ کے وسط میں آسمان تک جا پہنچینے والی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہونے جا رہی ہے۔ ان سطور کے لکھے جانے سے تھوڑی ہی دیر قبل جب یہ اطلاع ملی تو سچ جانئے کہ فوری طور پر تو یقین ہی نہیں آیا لیکن اطلاع دینے والی شخصیت ہی اتنی قابل اعتماد اور معتبر ہے کہ یقین کیے بغیر رہا ہی نہیں جاسکتا۔ خبر یہ ہے کہ جولائی کے وسط میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بیس روپے سے چالیس روپے فی لیٹر کمی ہونے جا رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ یہ تفصیل اچھی خاصی دلچسپ ہے۔ حکومتوں کے فیصلے اجتماعی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی صورت حال میں جس سے پاکستان ان دنوں دوچار ہے، تنہائی میں کوئی کارنامہ انجام دینا ویسے بھی ممکن نہیں لیکن کبھی کبھی انہونی بھی ہو جاتی ہے۔

منھ اندھیرے اپنے کار منصبی میں مصروف ہو جانے والے وزیر اعظم شہباز شریف جس تسلسل اور توجہ کے ساتھ تعمیر و ترقی کے کاموں کے لیے بیوروکریسی کومصروف کار کردیتے ہیں، اسی سرگرمی کے ساتھ وہ پارٹی کی مختلف سطحوں کی قیادت کے ساتھ بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ایک اجلاس کی بات ہے جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ ہمارے دوست علی اکبر گجر اور ندیم آرائیں بتاتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی اور عوام پر پڑنے والے اس کے بوجھ کے ذکر پر اجلاس میں دکھ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پارٹی قیادت جب اس بارے میں اپنی رائے دے چکی تو وزیراعظم دکھ کی کیفیت میں کچھ دیر تک خاموش رہے پھر انھوں نے مفتاح اسمٰعیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی طرح ہم کوئی معاہدہ شکنی تو نہیں کر سکتے لیکن ایسا بھی نہیں کہ محنت اور ذہانت سے کام لیا جائے تو کوئی راستہ نہ نکلے۔ یہ تو ہوئی اس میٹنگ کی بات، اس سے اگلی بات زیادہ دلچسپ ہے۔


ناصر الدین محمود اور وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل دیرینہ دوست اور سیاسی رفیق کار ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ مفتاح اسمٰعیل خوش مزاج شخصیت کے مالک ہیں جو کاروبار ہو یا سیاست دونوں میدانوں میں ہنستے کھیلتے مصروف رہتے ہیں ۔ کاروباری مسائل کی وجہ سے وہ کبھی دباؤ میں آتے ہیں نہ سیاسی حتی کہ انتخابی ہنگامہ آرائی کے مشکل مراحل پر وہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناصر کہتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جو کبھی کوئی پریشر لیتا ہی نہ ہو، اس کی شخصیت کو اس چیلنج نے بدل کر رکھ دیا۔ ناصر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد ان کے شب و روز تک بدل گئے اور جب تک وہ نتیجے پر پہنچ نہیں گئے، انھوں نے اطمینان کا سانس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے سینئر ساتھیوں خاص طور پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مشوروں کی مدد سے یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف آئندہ چند روز میں قوم کو یہ خوش خبری سنانے جا رہے ہیں۔اچھی خبر ایک اور بھی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے ضمن میں صبح و شام نت نئی خبریں سننے کو ملتی ہیں، کبھی سننے میں آتا ہے کہ بات بنتے بنتے رہ گئی اور کبھی خبر ملتی ہے کہ مطالبات ایسے ہیں کہ کبھی پورے ہی نہیں ہو پائیں گے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ عید کے آس پاس اس معاہدے پر بھی دستخط ہونے جارہے ہیں اور اس ماہ کے آخر تک پیسے ہمارے اکاؤنٹس میں منتقل ہو جائیں گے۔

اس اچھی خبر کے ساتھ ایک خبر دکھ دینے والی بھی ہے۔ حالیہ سیاسی کشیدگی نہایت خطرناک حدود کو چھو رہی ہے۔ ممتاز ناشر اور سیاسی دانش ور برادر محترم فرخ سہیل گوئندی نے موٹر وے پر بھیرہ سروس اسٹیشن کے افسوس ناک واقعے کی طرف مبذول کرائی ہے۔ اس واقعے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احسن اقبال کے ساتھ جو بدسلوکی کی ہے، اس کے اثرات نہایت خوف ناک ہوں گے۔ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجوہات تلاش کرنا مشکل نہیں۔ عمران خان کے ہر جلسے میں اس کے اسباب تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن کہوٹہ کے جلسے میں تو حد ہی ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان میں صرف تین آوازیں سنائی دیتی ہیں:

' چور، لوٹے اور غدار'

انھوں نے کہا کہ یہ آوازیں ہر جگہ ان کے مخالفین کو پیچھا کریں گی۔ اب ایسا ہونے لگا ہے جس کا ایک مظاہرہ بھیرہ سروس اسٹیشن پر دکھائی دیا ہے۔ عمران خان جس طرح اپنے کارکنوں کو مشتعل کر رہے ہیں، زیادہ دیر نہیں لگے کہ یہ حدت خود ان تک بھی جا پہنچے گی۔ یہ رجحان خوش گوار نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں کوئی حادثہ بھی جنم لے سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لیں اور الیکشن کمیشن کے علاوہ تمام ریاستی ادارے بھی ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کریں۔ایسا نہ ہو سکا تو کسی حادثے کو ٹالا نہ جا سکے گا۔
Load Next Story