حق تلفی
ہمارے ملک میں نہ جانے کتنی ایسی خواتین ہیں جنھیں وراثتی جائیداد میں اُن کا حصہ نہیں مل رہا
کراچی:
ہمارے معاشرتی نظام میں خواتین کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے ، ان مسائل کو اگر لکھنے بیٹھا جائے تو اوراق کا ڈھیر لگ جا ئے ، سنانے لگیں تو سماعتیں بو جھل ہو جائیں ، محسوس کریں تو درد اور اذیت کا احساس غالب آجائے، غرضیکہ عورتوں کو درپیش مصائب کا لا متناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، خواتین کو وراثتی جائیداد میں حق نہ ملنا بھی پاکستان کے اہم ترین مسئلوں میں شمار کیا جاتا ہے ، معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہمیں اپنے اردگرد موجودمتاثرہ خواتین کی افسوسناک داستانوں سے بخوبی ہو سکتا ہے ۔
طاہرہ سلطانہ کو ہی دیکھ لیجیے ، لاہو ر میں رہتی ہیں، عمر رسیدہ ہیں، گذرے وقت کو یاد کرکے اکثر آ بدیدہ ہو جاتی ہیں ، خاوند آفیسر تھے۔ 1964 میں اللہ کو پیارے ہو گئے ، طاہرہ صاحبہ گھریلو خاتون تھیں، شوہر چونکہ ان کا واحد سہارا تھے ، اس لیے اُن کے انتقال کے بعد وہ زندگی کی اذیتوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھی، ہمہ وقت بس یہی خیال ستائے رکھتا کہ اب ہو گا کیا ، کہاں جائیں گے ، کیسے گزارا ہوگا، رہیں گے کہاں ، تین چھوٹے بچوں کیساتھ زندگی کا طویل سفر کیسے کٹے گا، ان کی پڑھائی لکھائی کا عمل کیسے جاری رہے گا۔
یہ تمام باتیں اُنہیں سخت پریشان اور ذہنی ہیجان میں مبتلا کیے رکھتی تھیں، بہر حال ، وقت گزرا، حالات نے ذرا سی کروٹ بدلی اور ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئیں، اپنوں کا ساتھ ملا تو جینے کی، آگے بڑھنے کی کچھ امید بندھی ۔ ان کے مرحوم شوہر کی لاہور میں جوائنٹ پراپرٹی تھی ، جا ئیداد میں طاہرہ صاحبہ کا بھی حصہ بنتا تھا ، انھوں نے مانگا، لیکن نہیں دیا گیا ، چناچہ 1970 میں لاہور کے سول کورٹ میں مرحوم شوہر کی وراثت کا مقدمہ دائر کر دیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ کورٹ میں شاذ و نادر ہی عورتیں دیکھی جاتی ہوں لیکن میں کئی برس وہاں جاتی رہی تھی ، ہمارے قانونی نظام کا شعور رکھنے والے یہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تگ ود و ، مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا میں نے کیا ہو گا ۔وقت گذرتا رہا اور میں ایک اعصاب شکن قانونی جنگ لڑتی رہی ۔
62 سالہ ندیم رشید، طاہرہ سلطانہ کے اکلوتے بیٹے ہیں ، بتاتے ہیں کہ جب چھوٹے تھے تو کیس سے متعلقہ کاغذی کاروائیوں میں کافی ٹائم صرف ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے اُنکی تعلیم اور دیگر معا ملات زندگی شدید متاثر ہوئے تھے ، وہ اپنی والدہ کو سپورٹ کر تو رہے تھے لیکن خود کافی حد تک ڈسٹرب رہتے تھے ، اُن کی دو بہنوںمیں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے ، ندیم اپنی بہن کی موت کا ذمے دار نامصائب حالات کو ٹھہراتے ہیں ۔
طاہرہ سلطانہ کے مطابق اُن کا کیس سیشن اور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور 2002میں یہ فیصلہ آیا ( جسے مختصرا یوں ہی لکھا جاسکتا ہے ) کہ چونکہ پراپرٹی بہت بڑی ہے، اسے ایک فرد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی پارٹیشن ہو سکتی ہے ، اس لیے اس کی نیلامی کی جائے ،اور Auction کے تحت خریدنے والے کو اسکا فوری قبضہ دیا جائے ، طاہرہ صاحبہ اس فیصلے سے بہت خوش تھیں ، لیکن دوسری جانب انھیں قطعی یہ احساس نہیں تھا کہ جائیداد کی نیلامی (با وجوہ دیگر) نہیں ہو سکے گی ۔
طاہرہ صاحبہ کی عمر 90 برس ہو چکی ہیں ، انھوں نے اب عدالتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے ، جس دن تاریخ ہوتی ہے وہ فون پر رپورٹ لے لیتی ہیں ، لیکن عمر رسیدہ ہونا اُن کے جذبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا ہے ، گزرتے وقت نے اُن کی امیدوں کو توڑا نہیں بلکہ جلاِ بخشی ہے ، اُن کی عشروں پر مبنی جدوجہد نہ صرف خواتین کو حوصلہ ، عزم اور ہمت فراہم کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ ہمارے قانونی نظام میں موجود چیلنجز پر بھی توجہ دلانے میں کامیاب ہے۔
، وجوہات چاہے جو بھی ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوںسے متعلقہ نہ صرف جائیداد بلکہ تمام تر سماجی اور قانونی مسائل کے حل کے لیے موثر ، ٹھوس اور بر وقت اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔
مصا ئب کی چکی میں پستے ا فراد کی معاونت کے حوالے سے بات کی جائے تو انفرادی ، اجتماعی ، شخصی اور مختلف آرگنائزیشنز کی جانب سے فراہم کردہ مدد اس سلسلے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے ، طاہرہ سلطانہ کے کیس کو عوام الناس کے سامنے لانے میں لیگل ایڈ سو سائٹی کا کردار اہم ہے ، مفت قا نونی مشاورت اور معاونت کی فراہمی کے حوالے سے جا نے پہچانے جانے وا لے اس ادارے کے جہاں اور دو سرے پروگرامز پاکستان میں کام کر رہے ہیں وہیں ویمن رائٹس ٹو لیگل پراپرٹی Women's Rights to Legal Property کے نام سے جاری پروجیکٹ خواتین کو جائیداد میں اُنکے حقوق کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کر رہا ہے ۔
سندھ میں لاڑکانہ ، شہید بینظیر آباد اور کراچی میں کام کرتے اس پروجیکٹ کے ذریعے ہزاروں عورتیں اپنے حقوق سے پوری طرح آگاہی حاصل کرچکی ہیں ، عدالتوں میں دائر مقدمات کی صورت میں ادارہ انھیں مکمل سپورٹ بھی فراہم کر رہا ہے، کمیونٹی موبلائزیشن اور اویرنس سیشنز اس پروجیکٹ کا خاصہ ہیں ، اس ضمن میں تربیت یافتہ پیرالیگلز (Paralegals) )اور لیگل ایڈ سوسائٹی کا فیلڈ اسٹاف اپنے اہداف کی تکمیل میں مصروف عمل ہے۔
ہمارے معاشرتی نظام میں خواتین کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے ، ان مسائل کو اگر لکھنے بیٹھا جائے تو اوراق کا ڈھیر لگ جا ئے ، سنانے لگیں تو سماعتیں بو جھل ہو جائیں ، محسوس کریں تو درد اور اذیت کا احساس غالب آجائے، غرضیکہ عورتوں کو درپیش مصائب کا لا متناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، خواتین کو وراثتی جائیداد میں حق نہ ملنا بھی پاکستان کے اہم ترین مسئلوں میں شمار کیا جاتا ہے ، معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہمیں اپنے اردگرد موجودمتاثرہ خواتین کی افسوسناک داستانوں سے بخوبی ہو سکتا ہے ۔
طاہرہ سلطانہ کو ہی دیکھ لیجیے ، لاہو ر میں رہتی ہیں، عمر رسیدہ ہیں، گذرے وقت کو یاد کرکے اکثر آ بدیدہ ہو جاتی ہیں ، خاوند آفیسر تھے۔ 1964 میں اللہ کو پیارے ہو گئے ، طاہرہ صاحبہ گھریلو خاتون تھیں، شوہر چونکہ ان کا واحد سہارا تھے ، اس لیے اُن کے انتقال کے بعد وہ زندگی کی اذیتوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھی، ہمہ وقت بس یہی خیال ستائے رکھتا کہ اب ہو گا کیا ، کہاں جائیں گے ، کیسے گزارا ہوگا، رہیں گے کہاں ، تین چھوٹے بچوں کیساتھ زندگی کا طویل سفر کیسے کٹے گا، ان کی پڑھائی لکھائی کا عمل کیسے جاری رہے گا۔
یہ تمام باتیں اُنہیں سخت پریشان اور ذہنی ہیجان میں مبتلا کیے رکھتی تھیں، بہر حال ، وقت گزرا، حالات نے ذرا سی کروٹ بدلی اور ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئیں، اپنوں کا ساتھ ملا تو جینے کی، آگے بڑھنے کی کچھ امید بندھی ۔ ان کے مرحوم شوہر کی لاہور میں جوائنٹ پراپرٹی تھی ، جا ئیداد میں طاہرہ صاحبہ کا بھی حصہ بنتا تھا ، انھوں نے مانگا، لیکن نہیں دیا گیا ، چناچہ 1970 میں لاہور کے سول کورٹ میں مرحوم شوہر کی وراثت کا مقدمہ دائر کر دیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ کورٹ میں شاذ و نادر ہی عورتیں دیکھی جاتی ہوں لیکن میں کئی برس وہاں جاتی رہی تھی ، ہمارے قانونی نظام کا شعور رکھنے والے یہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تگ ود و ، مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا میں نے کیا ہو گا ۔وقت گذرتا رہا اور میں ایک اعصاب شکن قانونی جنگ لڑتی رہی ۔
62 سالہ ندیم رشید، طاہرہ سلطانہ کے اکلوتے بیٹے ہیں ، بتاتے ہیں کہ جب چھوٹے تھے تو کیس سے متعلقہ کاغذی کاروائیوں میں کافی ٹائم صرف ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے اُنکی تعلیم اور دیگر معا ملات زندگی شدید متاثر ہوئے تھے ، وہ اپنی والدہ کو سپورٹ کر تو رہے تھے لیکن خود کافی حد تک ڈسٹرب رہتے تھے ، اُن کی دو بہنوںمیں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے ، ندیم اپنی بہن کی موت کا ذمے دار نامصائب حالات کو ٹھہراتے ہیں ۔
طاہرہ سلطانہ کے مطابق اُن کا کیس سیشن اور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور 2002میں یہ فیصلہ آیا ( جسے مختصرا یوں ہی لکھا جاسکتا ہے ) کہ چونکہ پراپرٹی بہت بڑی ہے، اسے ایک فرد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی پارٹیشن ہو سکتی ہے ، اس لیے اس کی نیلامی کی جائے ،اور Auction کے تحت خریدنے والے کو اسکا فوری قبضہ دیا جائے ، طاہرہ صاحبہ اس فیصلے سے بہت خوش تھیں ، لیکن دوسری جانب انھیں قطعی یہ احساس نہیں تھا کہ جائیداد کی نیلامی (با وجوہ دیگر) نہیں ہو سکے گی ۔
طاہرہ صاحبہ کی عمر 90 برس ہو چکی ہیں ، انھوں نے اب عدالتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے ، جس دن تاریخ ہوتی ہے وہ فون پر رپورٹ لے لیتی ہیں ، لیکن عمر رسیدہ ہونا اُن کے جذبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا ہے ، گزرتے وقت نے اُن کی امیدوں کو توڑا نہیں بلکہ جلاِ بخشی ہے ، اُن کی عشروں پر مبنی جدوجہد نہ صرف خواتین کو حوصلہ ، عزم اور ہمت فراہم کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ ہمارے قانونی نظام میں موجود چیلنجز پر بھی توجہ دلانے میں کامیاب ہے۔
، وجوہات چاہے جو بھی ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوںسے متعلقہ نہ صرف جائیداد بلکہ تمام تر سماجی اور قانونی مسائل کے حل کے لیے موثر ، ٹھوس اور بر وقت اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔
مصا ئب کی چکی میں پستے ا فراد کی معاونت کے حوالے سے بات کی جائے تو انفرادی ، اجتماعی ، شخصی اور مختلف آرگنائزیشنز کی جانب سے فراہم کردہ مدد اس سلسلے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے ، طاہرہ سلطانہ کے کیس کو عوام الناس کے سامنے لانے میں لیگل ایڈ سو سائٹی کا کردار اہم ہے ، مفت قا نونی مشاورت اور معاونت کی فراہمی کے حوالے سے جا نے پہچانے جانے وا لے اس ادارے کے جہاں اور دو سرے پروگرامز پاکستان میں کام کر رہے ہیں وہیں ویمن رائٹس ٹو لیگل پراپرٹی Women's Rights to Legal Property کے نام سے جاری پروجیکٹ خواتین کو جائیداد میں اُنکے حقوق کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کر رہا ہے ۔
سندھ میں لاڑکانہ ، شہید بینظیر آباد اور کراچی میں کام کرتے اس پروجیکٹ کے ذریعے ہزاروں عورتیں اپنے حقوق سے پوری طرح آگاہی حاصل کرچکی ہیں ، عدالتوں میں دائر مقدمات کی صورت میں ادارہ انھیں مکمل سپورٹ بھی فراہم کر رہا ہے، کمیونٹی موبلائزیشن اور اویرنس سیشنز اس پروجیکٹ کا خاصہ ہیں ، اس ضمن میں تربیت یافتہ پیرالیگلز (Paralegals) )اور لیگل ایڈ سوسائٹی کا فیلڈ اسٹاف اپنے اہداف کی تکمیل میں مصروف عمل ہے۔