پنجاب کے ضمنی الیکشن اور ممکنہ خطرات

ہماری معیشت انتہائی ڈانوں ڈول ہے۔ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی ہمیں قرق اور دیوالیہ قرار دلوا سکتی ہے

mnoorani08@hotmail.com

KARACHI/LAHORE/ISLAMABAD:
پچھتر برس کسی قوم کے لیے کم نہیں ہوتے ، دنیا کی بہت سی قوموں نے اس سے بھی کم عرصہ میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے خود کو ایک کامیاب قوم کے طور پر عالمی سطح پر منوایا ہے مگر ہمیں ابھی تک اپنی آزادی و سالمیت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

ہم معاشی و اقتصادی طور پر اگرکبھی دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو پھر فوراً ہی چار قدم پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔ ہم ابھی تک اپنے اصل دشمنوں کا پتا نہیں لگا سکے۔ ہندوستان ہماری سرحدوں کا دشمن ہے لیکن معاشی اور اقتصادی طور پر اپنی تباہی کے ہم خود ذمے دار ہیں ، اگر کوئی عالمی طاقت ہمیں اس میدان میں آگے بڑھنے نہیں دیتی ، تو سوال یہ ہے کہ ہم نے اس کا تدارک کیوں نہیں کیا۔

ملک و قوم کے اِن حالات کی ذمے داری صرف سیاستدانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ بار بار مارشل لاء لگانے والوں نے بھی دس دس سال حکومتیں کی لیکن بلا کسی روک ٹوک اور دخل اندازی کے وہ ہمارے ملک کو آگے کیو ں نہیں لے جاسکے۔ ملک تو ایٹمی توانائی سے مستفید کروانے کا سہرا بھی ہمارے سویلین حکمرانوں کے سر جاتا ہے۔ یہ عالیشان سڑکیں اور موٹر ویز بھی سویلین حکمرانوں کے مختصر ادوار میں بنائی گئیں۔

سی پیک جیسا عظیم منصوبہ بھی جمہوری سیاستدانوں کا تحفہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1992 ء میں ہماری کرنسی اتنی مستحکم تھی کہ بھارت کا روپیہ ہمارے روپیہ سے سستا اور بے قدر تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کوریا اور آس پاس کے دیگر ممالک بھی ہماری ترقی سے متاثر تھے ، مگر پھر کیا ہوا کسی بھی سویلین حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ سازشوں کے ایسے جال بنے گئے کہ کوئی بھی حکمراں ملک کی ترقی میں اپنا کوئی مستحکم رول ادا نہ کرسکے۔

سب کو قبل از وقت فارغ کرکے ناکامیوں اور بدنامیوں کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات لگاکر پابند سلاسل بھی کیا گیا اور جلا وطن بھی۔ تحقیقات کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن حاصل کچھ نہیں کیا گیا۔

سوئٹزر لینڈ کی بینکوں میں پیسے رکھوانے کی کہانیاں تو بہت سنی گئیں لیکن وہ پیسہ واپس کبھی نہیں آیا۔ پاناما لیکس اور پینڈورا لیکس کے قصے بہت عام ہوئے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں۔480 نامزد ملزمان میں سے صرف میاں نوازشریف کو نشانہ بنا کے اقتدار سے فارغ کیا گیا اور وہ بھی کسی اور چھوٹے سے الزام میں۔

ملک کے اِن حالات کا اصل ذمے دار کون ہے۔ سیاستدان ، عدلیہ یا پھر کوئی اور ۔ جو ہوچکا اس پر پانی پھیرتے ہوئے یہ عہد کروں اور اُمید رکھوں کہ اب آیندہ یہ سب کچھ نہیں ہوگا۔ کسی بھی نئے شخص کی آبیاری کر کے اُسے پروان چڑھا کے اور ایک قد آور شخصیت بنا کے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا کہ وہ پھر اپنے محسنوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردے۔ میاں نوازشریف اور عمران خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔


جنھیں ہم نے اپنی نرسری میں پال پوس کے اس قابل کیا کہ وہ اس ملک پر حکمرانی کا تاج اپنے سروں پر سجا سکیں لیکن بعد ازاں جوکچھ ہوا ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان صاحب نے تو تمام حدیں پار ہی کردیں۔ 2011 تک جسے ایک دو سیٹ سے زیادہ کبھی نہیں ملیں وہ اچانک کیسے اتنا طاقتور شخص بن گیا ۔ میر جعفر اور میر صادق ، غدار اور جانور جیسے القابات آج تک کسی نے نہیں عطا کیے۔

آج سے پہلے کئی حکمراں قبل از وقت فارغ کر دیے گئے لیکن کسی نے کسی پر عالمی سازش کا مہرہ بننے کے الزامات نہیں لگائے۔ خان صاحب ایسے الزامات لگاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ 2018 ء کے انتخابات میں کیا ہوا۔ کیسے RTS سسٹم جام کر دیا گیا اور کیسے راتوں رات نتائج تبدیل کردیے گئے۔

یہ سچ ہے کہ مکمل سپورٹ اور میاں نوازشریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کے باوجود وہ 2018 ء کے انتخابات جیت نہیں سکتے تھے ، مگر اُنہیں زبردستی اس ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ وہ اس پر اپنے مہربانوں کا ممنون اور شکر گزار ہونے کے بجائے آج اتنے سیخ پا ہیں کہ اپنی ہر تقریر میں اُنہیں اپنی تنقید کا بے جا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اُنہیں تو شکر بجا لانا چاہیے کہ وہ ابھی تک پابند سلاسل نہیں کر دیے گئے۔ میاں نوازشریف نے ابھی صرف اپنا منہ ہی کھولا تھا کہ اُن کی تقریروں اور بیانوں کی تشہیر پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ہمارا ملک آج اپنے بد ترین دور اور حالات سے گذر رہا ہے۔ ہماری معیشت انتہائی ڈانوں ڈول ہے۔ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی ہمیں قرق اور دیوالیہ قرار دلوا سکتی ہے۔ عوام مہنگائی کا انتہائی بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے سخت ترین حالات میں صرف ایک شخص ہے جسے صرف اپنی فکر لاحق ہے ، وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر سمجھوتہ بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں سے تو ہاتھ ملانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

اداروں کے خلاف ہر روز ایک نیا الزام لگا کر اُنہیں بد نام کرنے پر تلا ہوا ہے ، وہ ایک طرف قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیکر سڑکوں پر نکلا ہوا ہے تو دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں 20 نشستوں کے لیے جان کی بازی بھی لگائے ہوئے ہے ، جس الیکشن میں اُسے کامیابی نہ ملے وہ اُس کے نتائج ماننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ 17جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات جیتنے کی غرض سے وہ ہر حربہ آزمانے کو تیار بیٹھا ہے۔

اس روز ہنگامہ آرائی کے ذریعے سارے الیکشن پروسس کو نقصان پہنچانے کے امکانات ہیں۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو چاہیے کہ ممکنہ خطرات سے بروقت نمٹنے کے لیے ابھی سے سوچ بچار کر لے۔ انداز تکلم اور بیانوں سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈسکہ الیکشن کے طریقہ کار کو ایک بار پھر دہرایا جا سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کا یہ الیکشن اُن کے مستقبل کی سیاست کے لیے اہم سوال بن چکا ہے۔

اس الیکشن کے نتائج ہی سے وہ آگے کی منصوبہ بندی کر پائیں گے۔ اس لیے وہ اسے ہر حال میں جیتنا چاہتے ہیں ۔ اُن کے بیانوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بس اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
Load Next Story