بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو 27 برس بیت گئے
11 جولائی سن 1995 میں سربین فوجیوں نے بوسنیا کے سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد دو ہفتوں کے دوران فورسز نے منظم انداز میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی سرزمین پر بدترین اجتماعی قتل و غارت تھی، یہ سلسلہ 10 دنوں تک جاری رہا۔ خود کار اسلحے سے لیس اقوام متحدہ کے امن فوجیوں نے پناہ گاہ قرار دیئے گئے اس علاقے میں جاری تشدد کو روکنے کیلئے کچھ نہ کیا۔
بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی خون آلود تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، 1990 کی دہائی میں جب یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو کئی مسلح تنازعات نے جنم لیا، بوسنیائی جنگ بھی ان تنازعات میں سے ایک تھی۔
بوسنیا ہرزیگووینا نے 1992 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کیا کچھ ہی عرصے بعد اسے امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا، بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا ، جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے اس نئے ملک پر حملہ کردیا۔
اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی اعتراف کیا کہ گایہ قتل عام بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔
بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ منظم نسل کی کوشش کی گئی لیکن تاحال بوسنیائی عوام انصاف نہ مل سکا۔