کراچی پھر ڈوب گیا

ایم اے جناح روڈ پر تجارتی مراکز اور دکانوں میں بارش کا پانی داخل ہوگیا اور شہری انتظامیہ بے بس نظر آئی

ایم اے جناح روڈ پر تجارتی مراکز اور دکانوں میں بارش کا پانی داخل ہوگیا اور شہری انتظامیہ بے بس نظر آئی۔ فوٹو: فائل

پاکستان بھر میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خبیر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور میدانی علاقوں میں شدید حبس اور گرمی کی لہر بھی جاری ہے۔

اس بار بلوچستان بھی بارشوں سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ وہاں جانی نقصان بھی خاصا ہوا ہے ، عید کے ایام میں کراچی شہر میں شدید بارش کا سلسلہ جاری رہا ، حسب روایت اس بار بھی کراچی میں بارش نے نظام زندگی مفلوج کردیا ، کراچی کے نشیبی علاقوں میں سڑکیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کررہی ہے۔

ایم اے جناح روڈ پر تجارتی مراکز اور دکانوں میں بارش کا پانی داخل ہوگیا اور شہری انتظامیہ بے بس نظر آئی ۔شہر قائد میں عید الا ضحی کے دوسرے روز مسلسل موسلادھار بارش نے اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کردی ۔ملیرندی سمیت مضافاتی علاقوں کے قریب رہائش پذیرآبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی، شہر کی کئی مرکزی اور ذیلی شاہرائیں پانی میں ڈوب گئیں جس کی وجہ سے معمولات زندگی مفلوج ہوگئے، کراچی شہر کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہوگیا ،بیشتر پٹرول پمپس بھی زیر آب آگئے ، جن ایریاز میں زیادہ پانی تھا، وہاں محصور 70 خاندانوں کو ربڑ بوٹس کی مدد سے محفوظ مقام پرمنتقل کیا گیا۔

کراچی کے مسائل نوحہ کا لکھنا آسان نہیں ہے ، روح کانپ جاتی ہے،قلم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ بارش کے بعد شہر کے باسی پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دیکھے گئے۔ عید کی خوشیاں پانی میں ڈوب گئیں ۔

اس تباہی کا الزام موسم برسات کو دینا زیادتی ہے، یا یہ کہنا کہ اس بار بارشیں زیادہ ہوئی ہیں، یہ بھی کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ برسات کا موسم ہر برس آتا ہے، اس موسم میں کبھی کم بارشیں ہوتی ہیں اور کبھی غیرمعمولی، کم از کم گزشتہ سو برس کی بارش کا ریکارڈ موجود ہوگا، ہوسکتا ہے کہ کراچی شہر کے انتظامی افسران اور اس شہر سے الیکشن جیتنے والے ایم این ایز، ایم پی ایز اور میئرز، ڈپٹی میئرز، کونسلرز،ایڈمنسٹریٹرز وغیرہ نے بارشوں کا ریکارڈ کبھی چیک ہی نہ کیا ہو۔ جب شہر کا ڈیٹا ہی چیک نہ ہو تو اس شہر کی منصوبہ بندی کیسے ممکن ہے؟ بارش کو رحمت خداوندی کہا جاتا ہے، برسات کا موسم تو اپنے اندر رومانوی رنگ رکھتا ہے۔ ہمارے شعراء نے رم جھم جیسی اصطلاحات سے جوڑ کر موسم برسات کا جو حسین سراپا تراشا ہے ، آج اہل کراچی تو ایسے خواب ہی سمجھتے ہیں۔

شہرقائد کے باسیوں کے لیے ساون کی برکھا ایک ڈراؤنا خواب اور ایک خوفناک یاد بن کر رہ جاتی ہے۔ ہر برس مون سون سیزن کے آغاز سے قبل سرکاری سطح پر چند نمائشی فوٹو سیشن ضرور ہوتے ہیں ، جن میں سرکاری افسران ، وزراء ، مشیر ،کراچی کے ایڈمنسٹر ، ناظم یا میئرز، ہیوی مشینری کے ساتھ کسی نالے کی صفائی کراتے نظر آتے ہیں ، لیکن بارش ہوتی ہے تو شہر ڈوب جاتا ہے۔

اس میں ساون کے موسم سے زیادہ صوبائی حکومت ، سٹی ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور شہری اداروں کی ناقص حکمت عملی، بدعنوانی،کام چوری ہے۔ کراچی میں بیسیوں سرکاری ادارے ہیں اور ان کے ہزاروں ملازمین وافسران کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں لیتے ہیں، مراعات الگ ہیں ، یہ سارے پیسے ٹیکس پیئرز کے ہیں،ان اداروں کے پاس لاکھوں ،کروڑوں فنڈز ہیں ، وہ کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں ، صرف فائلوں کے پیٹ بھر دیے جاتے ہیں ۔

عید قرباں کے ایام میں کراچی شہر کی حالت یہ رہی ہے کہ بارش کے پانی میں قربانی کے جانوروں کی آلائشیں تیر رہی ہیں ،گلی گوچوں میں قربانی کے لاکھوں جانور ذبح ہوئے ، ان کی آلائشیں وہیں چھوڑ دی گئیں ، شہریوں نے بھی اپنی بے حسی اور بے شعوری کا کھل کر مظاہرہ کیا ، کراچی جیسے عالمی شہر میں کیسے زندگی گزاری جاتی ہے۔


اکثریت کو کچھ معلوم نہیں ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بارش نے غریب، متوسط اور ایلیٹ کلاس کا فرق مٹا دیا اور سب کو بے بسی کی تصویر بنا ڈالا ہے۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا ناخواندہ ، سب ایک ہی کشتی کے سوار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے ارکان سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کررہے ہیں ۔

کراچی میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی وبربادی ہورہی ہے ، اس کے اسباب ومحرکات کیا ہے، انھیں جاننے کے بعد حل کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ جب تک بارش کے پانی کو سمندر میں لے جانے والے قدرتی نالوں کو مکمل طور پر کھولنے اور ان کی بھل صفائی کے ساتھ ساتھ شہر کے انفرااسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا، کراچی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔

کراچی بھر میں لاتعداد چھوٹے بڑے نالے ہر جگہ سے گزر رہے ہیں ۔ ان میں اکثر تو غائب ہوچکے ہیں اور وہاں عمارتیں بن گئی ہیں، جو نالے موجود ہیں، ان کے اردگرد ناجائز رہائشی آبادیاں بن چکی ہیں،اس وجہ سے یہ نالے تنگ ہوگئے ہیں اور ان کے کناروں پر کھڑے درخت ختم ہوچکے ہیں۔ شہریوں کی بے حسی اور بے شعوری کا عالم یہ ہے کہ پولی تھین کے شاپرز بیگز اور ہر قسم کا کوڑا کرکٹ گندے نالوں میں پھینک دیتے ہیں ، حتی کہ عام گھریلو کچرا، عمارتی ملبہ اور پرانا لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا کچرا، پرانی روئی وغیرہ بھی نالوں میں پھینکنے سے گریز نہیں کرتے ۔ جب تک بارش نہیں ہوتی۔

ان نالوں کا پانی بہتا رہتا ہے لیکن جونہی بارش ہوتی ہے ، پانی کا بہاؤ تیز ہوتا تو سارا کچرا اکٹھا ہوکر نالے کو بند کردیتا ہے، یوں پانی کناروں سے نکل کر آبادیوں میں پھیل جاتا ہے۔ کراچی میں چھوٹے بڑے 54 نالے ہیں۔

ان میں دو بڑی ندیاں بشمول لیاری اور ملیر ندی ہیں، جن میں بڑی سائز نالے بشمول مین کورنگی نالہ، چکور نالہ، مواچھ گوٹھ نالہ، محمود آباد نالہ، گجر نالہ، پچر ڈرین، میاں والی ڈرین بہت سے علاقوں کا پانی لے کر بعد میں یہ دونوں اہم ندیاں اس پانی کو سمندر میں لے جاتی ہیں۔شہر کے تمام نالوں کو صاف رکھنے، سنبھالنے، مرمت کرنے کی بنیادی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہے، مگر وہ ان نالوں کی ذمے داری نہیں لیتی ۔

سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں ایک ہزار کے قریب کچی آبادیاں ہیں جن میں لاکھوں لوگ آباد ہیں، ان میں سے اکثریت پاکستان ریلوے کی زمین یا پھر برساتی نالوں کے اندر اور کناروں پر آباد ہیں۔ ان بے ہنگم آبادیوں میں سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے اور کئی رہائشی علاقے ایسے ہیں جہاں نکاسی آب کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔

موسمی تبدیلیوں کے باعث آنے والے وقت میں کراچی میں مون سون کی شدید بارشوں کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں، اس کے علاوہ ٹراپیکل سائیکلون بھی عام ہو جائیں گے، ایسے میں کراچی کے نکاسی آب کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانے کے ضرورت ہے۔نالوں کے مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قیام پاکستان کے وقت والی حالت میں واپس لایا جائے، نالوں اور شہری کے گٹروں کی متواتر صفائی کو یقینی بنایا جائے ، بے ہنگم بستیاں نہ بنانے دی جائیں ۔ اصل مشکل انتظامی ہے کہ ان نالوں کی تواتر سے صفائی اور مرمت کا خیال رکھا جائے، یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ تجاوزات پھر ان ندی نالوں کے راستے نہ روک پائیں۔

اس شہر کا دل اہل وطن کے لیے ہمیشہ کشادہ رہا ہے ،اس کے بدلے میں اس شہر کو زبوں حالی ہی ملی ہے۔ اس شہر کے حاکموں کی دلچسپی کا محور کراچی کے بجائے سیاسی قیادت، سیاسی جماعت یا اپنی نسل اور زبان رہی۔

ان غیرمنصفانہ رویوں نے کراچی کو مسائل کا جنگل بنا دیا ہے۔کراچی جو دہائیوں کی دہشت گردی، خانہ جنگی، لاقانونیت، ملیشیاؤں اور ہتھیار بند مسلح گروہوں کے ہاتھوں لہولہان ہوا ہے، اب برسات میں ڈوب جاتا ہے ، اب بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا ، حکمران کراچی کے مسائل کے حل کے لیے دیرپا اور پائیدار راستہ اختیار کریں گے۔
Load Next Story