آئی ایم ایف سے چھٹکارہ
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہوگئے اور مالیاتی خسارہ تمام حدوں کو پار کرگیا
''انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) نے ایک ارب ڈالر کے قرضہ کے لیے حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔ ''وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کا یہ بیان ملک کی بدترین معاشی صورتحال کا اقرار ہے۔
سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے گزشتہ سال قرضہ لیتے ہوئے ایسی شرائط مان لی تھیں کہ حکومت مختلف بنیادی اشیاء پر سبسڈی نہیں دے گی مگرعمران خان کی حکومت نے پیٹرل پر سبسڈی دی، جس سے پٹرول کی قیمت تو نہیں بڑھی البتہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہوگئے اور مالیاتی خسارہ تمام حدوں کو پار کرگیا۔
جب موجودہ حکومت کے معاشی رہنماؤں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کیے تو آئی ایم ایف نے شرائط دہرائیں کہ تمام ضروری اشیاء بجلی، گیس، تیل اور پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی واپس لی جائے۔ شہباز شریف کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی سبسڈی واپس لینا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا مگر وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کابینہ کو ان مضمرات سے آگاہ کیا کہ اگر ان بنیادی اشیاء پر سبسڈی ختم نہ کی گئی تو پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور پاکستان کو قرضے دینے والے ممالک قرضے نہیں دیں گے اور پاکستان سری لنکا بن جائے گا۔ یوں حکومت نے یہ سخت فیصلہ کرنے شروع کیے جس کی بناء پر مالیاتی خسارہ کم ہونا شروع ہوا۔ ڈالر کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوئی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا مگر مہنگائی کے مسلسل طوفان نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کری۔
حکومت کی اس نئی پالیسی کی بناء پر تمام اشیاء کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ ریکارڈ ہوا ۔ جن لوگوں نے گزشتہ مہینوں کے دوران کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا دورہ کیا، ان میں سے ایک صحافی کا مشاہدہ ہے کہ تینوں بڑے شہروں میں ٹریفک کم ہوگیا ہے۔ عام آدمی کے لیے سی این جی یا پٹرول کے ذریعہ گاڑیوں کو چلانا مشکل ہوگیا ہے، پھر معاملہ صرف مہنگائی تک محدود نہیں رہا بلکہ صنعتی ادارے بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئے۔
کراچی کے ایک صنعتی علاقہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم ایک گارمنٹس فیکٹری نے اچانک اپنے 4 ہزار مزدوروں کو بغیر کسی نوٹس کے فارغ کردیا۔ یہ تو بڑے کارخانوں کی صورتحال ہے۔ چھوٹے چھوٹے کارخانے والے تو لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی اور گیس کو اس بناء پر برداشت نہیں کرپارہے کہ ان کے کارخانوں کی مصنوعات پر آنے والی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور ان کی تیار کردہ اشیاء مارکیٹ میں چین سے آنے والی اشیاء کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ لاہور اور فیصل آباد کی گارمنٹ انڈسٹری میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ سب سے بری صورتحال تو ادویات کی ہے۔
فارماسوٹیکل کمپنیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان پر عائد 25فیصد ڈیوٹی واپس لی جائے ورنہ پیداوار بند کردی جائے گی۔ حکومت نے یہ ٹیکس واپس تو لے لیا مگر دوائیوں کی قیمتیں جو پہلے ہی بہت زیادہ تھیں وہ پھر دگنی ہوگئیں۔ ملک میں اس وقت شوگر کے مریضوں کی تعداد پانچ ہندسوں تک پہنچ گئی ہے۔ شوگر کے مریض چلا رہے ہیں کہ انھیں تو ادویات کی خریداری پر دگنی رقم ادا کرنی پڑرہی ہے۔
کئی ہزار مریض تو ایسے ہیں جو ڈاکٹروں کی تجویز کردہ انسولین خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ نے ٹیکسوں کے نئے نظام کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امراء کے طبقہ پر زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اکاؤنٹنگ کے ماہرین نے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد متوسط طبقہ کے پروفیشنلز کی تنخواہیں بڑھنے کے بجائے کم ہوجائیں گی۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا بھر میں معیشت کی صورتحال بہتر تھی مگر دوسری جنگ عظیم جس میں کئی کروڑ لوگ مارے گئے، پوری دنیا کی معیشت کو تہس نہس کرگئی۔ جاپان تو امریکا کے گرائے ہوئے دو ایٹم بموں سے تباہ ہوا، جرمنی بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین نے جرمنی کے رہنما ہٹلر کی شکست میں اہم کردار ادا کیا تھا اور سوویت یونین بہت زیادہ تباہی کا شکار ہوا۔ برطانیہ جس کے اقتدار کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا معاشی طور پر دیوالیہ ہوا اور نوآبادیات کو آزادی دینے پر مجبور ہوا۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں سوویت بلاک اور مغربی بلاک میں تقسیم ہوگئی۔
امریکا کو دوسری جنگ عظیم میں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ اس کی سرپرستی میں ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے 1944 میں United Nation Betton World Conference میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) کا قیام عمل میں آیا۔ آئی ایم ایف میں رکن ممالک کی تعداد 190 کے قریب ہے ۔
آئی ایم ایف کے بنیادی مقاصد میں رکن ممالک کی اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے امداد سے مالیاتی استحکام کو مضبوط کرنا ہے تاکہ ان ممالک میں شرح پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ورلڈ بینک کا قیام بھی عمل میں آیا۔ ورلڈ بینک غربت کے خاتمہ کے پروجیکٹ کے لیے قرضہ فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف سے بہت سے ممالک نے امداد لی ہے جن میں چین، ترکی، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے چین کو نئی مارکیٹ کی تلاش اور صنعتوں کے قیام کے لیے قرضے دیے۔
چین نے مضبوط معاشی کنٹرول کی بناء پر یہ قرضے واپس کیے اور پھر چین خود پاکستان سمیت ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو قرضے دینے کے قابل ہوا۔ بھارت 1993 تک آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرضہ لینے والا ملک تھا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں کو صنعتی ترقی کے لیے کامیابی سے استعمال کیا اور غریب بھارت میں دنیا کی سب سے بڑا خوشحال متوسط طبقہ مضبوط ہوا۔ بنگلہ دیش کی معیشت کا انحصار آئی ایم ایف کے قرضوں پر تھا مگر شیخ حسینہ واجد کی سخت پالیسیوں اور پروفیسر یونس کے گرامین بینک کے قرضوں کی بناء پر صنعتی ترقی کا دور آیا۔ بنگلہ دیش نہ صرف آئی ایم ایف کی گرفت سے آزاد ہوا بلکہ ترقی کی دوڑ میں بھارت سے آگے نکل گیا۔
ترکی کی معیشت کبھی بیمار معیشت کہلاتی تھی۔ آئی ایم ایف کی امداد سے ان کا بجٹ تیار ہوتا تھا مگر صدر اردگان کی اقتصادی پالیسیوں اور ٹیکسوں کے نئے نظام کے نفاذ سے صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوا اور آج ترکی آئی ایم ایف کو قرضہ دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ استنبول میں مقیم پاکستانی صحافی احمد رضا جو آج کل سرکاری ٹیلی وژن میں کام کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہر شہری اپنی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ 40 فیصد حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ ان تمام ممالک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اپنے ملک کی تجارت کی ترقی پر ہوتی ہے۔
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد نام نہاد نیشنل سیکیورٹی پر ہے۔ شدید معاشی بحران کے بعد ریاستی انفرااسٹرکچر پر آنے والے اخراجات کم نہیں ہورہے ہیں نہ درآمدی بل میں کمی ہوئی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت نے درآمدی پالیسی پر نظرثانی کی تھی مگر اگلے ہفتہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ درآمدی فہرست میں اشیاء شامل ہورہی ہیں۔ اس وقت کھانے پکانے کے تیل کی درآمد کا بل درآمدی اشیاء میں تیسرے نمبر پر ہے۔
بجٹ کی منظوری کے بعد اسپیشل گرانٹ کی منظوری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ جن اشیاء کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی ان میں سے کئی پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے افسروں پر چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے کی پابندی عائد کی تھی۔ اس کا اطلاق سرکاری افسران کے علاوہ ججوں اور فوجی افسروں پر ہوا تھا مگر کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آرہا۔
پاکستانی کشمیر جس کا سارا انحصار پاکستان سے ملنے والی گرانٹ پر ہے، اس کے نئے صدر بیرسٹر سلطان محمود کے لیے لگژری گاڑی کی خریداری کے لیے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ صورتحال وفاق اور تمام صوبوں کی ہے۔ سیاسی رہنما اور دانشور آئی ایم ایف کو کوسنے میں دیر نہیں لگاتے مگر آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ بنیادی مسئلہ ریاستی اداروں کے اخراجات کم کرنے کا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے، یوں عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے۔
سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے گزشتہ سال قرضہ لیتے ہوئے ایسی شرائط مان لی تھیں کہ حکومت مختلف بنیادی اشیاء پر سبسڈی نہیں دے گی مگرعمران خان کی حکومت نے پیٹرل پر سبسڈی دی، جس سے پٹرول کی قیمت تو نہیں بڑھی البتہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہوگئے اور مالیاتی خسارہ تمام حدوں کو پار کرگیا۔
جب موجودہ حکومت کے معاشی رہنماؤں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کیے تو آئی ایم ایف نے شرائط دہرائیں کہ تمام ضروری اشیاء بجلی، گیس، تیل اور پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی واپس لی جائے۔ شہباز شریف کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی سبسڈی واپس لینا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا مگر وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کابینہ کو ان مضمرات سے آگاہ کیا کہ اگر ان بنیادی اشیاء پر سبسڈی ختم نہ کی گئی تو پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور پاکستان کو قرضے دینے والے ممالک قرضے نہیں دیں گے اور پاکستان سری لنکا بن جائے گا۔ یوں حکومت نے یہ سخت فیصلہ کرنے شروع کیے جس کی بناء پر مالیاتی خسارہ کم ہونا شروع ہوا۔ ڈالر کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوئی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا مگر مہنگائی کے مسلسل طوفان نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کری۔
حکومت کی اس نئی پالیسی کی بناء پر تمام اشیاء کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ ریکارڈ ہوا ۔ جن لوگوں نے گزشتہ مہینوں کے دوران کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا دورہ کیا، ان میں سے ایک صحافی کا مشاہدہ ہے کہ تینوں بڑے شہروں میں ٹریفک کم ہوگیا ہے۔ عام آدمی کے لیے سی این جی یا پٹرول کے ذریعہ گاڑیوں کو چلانا مشکل ہوگیا ہے، پھر معاملہ صرف مہنگائی تک محدود نہیں رہا بلکہ صنعتی ادارے بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوئے۔
کراچی کے ایک صنعتی علاقہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم ایک گارمنٹس فیکٹری نے اچانک اپنے 4 ہزار مزدوروں کو بغیر کسی نوٹس کے فارغ کردیا۔ یہ تو بڑے کارخانوں کی صورتحال ہے۔ چھوٹے چھوٹے کارخانے والے تو لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی اور گیس کو اس بناء پر برداشت نہیں کرپارہے کہ ان کے کارخانوں کی مصنوعات پر آنے والی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور ان کی تیار کردہ اشیاء مارکیٹ میں چین سے آنے والی اشیاء کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ لاہور اور فیصل آباد کی گارمنٹ انڈسٹری میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ سب سے بری صورتحال تو ادویات کی ہے۔
فارماسوٹیکل کمپنیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان پر عائد 25فیصد ڈیوٹی واپس لی جائے ورنہ پیداوار بند کردی جائے گی۔ حکومت نے یہ ٹیکس واپس تو لے لیا مگر دوائیوں کی قیمتیں جو پہلے ہی بہت زیادہ تھیں وہ پھر دگنی ہوگئیں۔ ملک میں اس وقت شوگر کے مریضوں کی تعداد پانچ ہندسوں تک پہنچ گئی ہے۔ شوگر کے مریض چلا رہے ہیں کہ انھیں تو ادویات کی خریداری پر دگنی رقم ادا کرنی پڑرہی ہے۔
کئی ہزار مریض تو ایسے ہیں جو ڈاکٹروں کی تجویز کردہ انسولین خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ نے ٹیکسوں کے نئے نظام کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امراء کے طبقہ پر زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اکاؤنٹنگ کے ماہرین نے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد متوسط طبقہ کے پروفیشنلز کی تنخواہیں بڑھنے کے بجائے کم ہوجائیں گی۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا بھر میں معیشت کی صورتحال بہتر تھی مگر دوسری جنگ عظیم جس میں کئی کروڑ لوگ مارے گئے، پوری دنیا کی معیشت کو تہس نہس کرگئی۔ جاپان تو امریکا کے گرائے ہوئے دو ایٹم بموں سے تباہ ہوا، جرمنی بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین نے جرمنی کے رہنما ہٹلر کی شکست میں اہم کردار ادا کیا تھا اور سوویت یونین بہت زیادہ تباہی کا شکار ہوا۔ برطانیہ جس کے اقتدار کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا معاشی طور پر دیوالیہ ہوا اور نوآبادیات کو آزادی دینے پر مجبور ہوا۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں سوویت بلاک اور مغربی بلاک میں تقسیم ہوگئی۔
امریکا کو دوسری جنگ عظیم میں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ اس کی سرپرستی میں ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے 1944 میں United Nation Betton World Conference میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) کا قیام عمل میں آیا۔ آئی ایم ایف میں رکن ممالک کی تعداد 190 کے قریب ہے ۔
آئی ایم ایف کے بنیادی مقاصد میں رکن ممالک کی اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے امداد سے مالیاتی استحکام کو مضبوط کرنا ہے تاکہ ان ممالک میں شرح پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ورلڈ بینک کا قیام بھی عمل میں آیا۔ ورلڈ بینک غربت کے خاتمہ کے پروجیکٹ کے لیے قرضہ فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف سے بہت سے ممالک نے امداد لی ہے جن میں چین، ترکی، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے چین کو نئی مارکیٹ کی تلاش اور صنعتوں کے قیام کے لیے قرضے دیے۔
چین نے مضبوط معاشی کنٹرول کی بناء پر یہ قرضے واپس کیے اور پھر چین خود پاکستان سمیت ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو قرضے دینے کے قابل ہوا۔ بھارت 1993 تک آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرضہ لینے والا ملک تھا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں کو صنعتی ترقی کے لیے کامیابی سے استعمال کیا اور غریب بھارت میں دنیا کی سب سے بڑا خوشحال متوسط طبقہ مضبوط ہوا۔ بنگلہ دیش کی معیشت کا انحصار آئی ایم ایف کے قرضوں پر تھا مگر شیخ حسینہ واجد کی سخت پالیسیوں اور پروفیسر یونس کے گرامین بینک کے قرضوں کی بناء پر صنعتی ترقی کا دور آیا۔ بنگلہ دیش نہ صرف آئی ایم ایف کی گرفت سے آزاد ہوا بلکہ ترقی کی دوڑ میں بھارت سے آگے نکل گیا۔
ترکی کی معیشت کبھی بیمار معیشت کہلاتی تھی۔ آئی ایم ایف کی امداد سے ان کا بجٹ تیار ہوتا تھا مگر صدر اردگان کی اقتصادی پالیسیوں اور ٹیکسوں کے نئے نظام کے نفاذ سے صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوا اور آج ترکی آئی ایم ایف کو قرضہ دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ استنبول میں مقیم پاکستانی صحافی احمد رضا جو آج کل سرکاری ٹیلی وژن میں کام کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہر شہری اپنی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ 40 فیصد حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ ان تمام ممالک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اپنے ملک کی تجارت کی ترقی پر ہوتی ہے۔
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد نام نہاد نیشنل سیکیورٹی پر ہے۔ شدید معاشی بحران کے بعد ریاستی انفرااسٹرکچر پر آنے والے اخراجات کم نہیں ہورہے ہیں نہ درآمدی بل میں کمی ہوئی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت نے درآمدی پالیسی پر نظرثانی کی تھی مگر اگلے ہفتہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ درآمدی فہرست میں اشیاء شامل ہورہی ہیں۔ اس وقت کھانے پکانے کے تیل کی درآمد کا بل درآمدی اشیاء میں تیسرے نمبر پر ہے۔
بجٹ کی منظوری کے بعد اسپیشل گرانٹ کی منظوری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ جن اشیاء کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی ان میں سے کئی پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے افسروں پر چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے کی پابندی عائد کی تھی۔ اس کا اطلاق سرکاری افسران کے علاوہ ججوں اور فوجی افسروں پر ہوا تھا مگر کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آرہا۔
پاکستانی کشمیر جس کا سارا انحصار پاکستان سے ملنے والی گرانٹ پر ہے، اس کے نئے صدر بیرسٹر سلطان محمود کے لیے لگژری گاڑی کی خریداری کے لیے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ صورتحال وفاق اور تمام صوبوں کی ہے۔ سیاسی رہنما اور دانشور آئی ایم ایف کو کوسنے میں دیر نہیں لگاتے مگر آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ بنیادی مسئلہ ریاستی اداروں کے اخراجات کم کرنے کا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے، یوں عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے۔