تاریخ کی عظیم فیمنسٹ عورتیں تیسرا حصہ
امریکی فیمنسٹ ادیب اور دانشور ورجینیا وولف کے خیال میں ’’عظیم جنگیں عجیب و غریب اثرات مرتب کرتی ہیں
ISLAMABAD:
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اسی عظیم نسائی تحریک نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ہٹلر کے بھیانک نازی ازم کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی۔ نعیم مرزا نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں جن عورتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ ایسی عورتیں ہیں جنھوں نے اپنے ملکوں کی عورتوں کی تقدیر بدل ڈالی۔ ہمارے ہاں جب عورتوں کی خواندگی کا معاملہ زیر بحث تھا تو یورپ اور امریکا میں اولیمپ دی گوژ جو عورتوں کے حقوق کے لیے لڑتی رہی۔
' پنتھیاں' فرانس کا ایک ایسا قومی قبرستان ہے جس میں دفن ہونا بہت بڑا اعزاز ہے۔ اولیمپ نے عورتوں کے اس حق کے لیے لڑائی لڑی۔ وہ اس حق کے لیے لڑتی ہوئی ماری گئی لیکن گزشتہ 229 برسوں کے درمیان صرف 5 عورتوں کو یہاں دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان میں سب سے دلچسپ اولیمپ دی گوژ کا قصہ ہے، وہ بنیادی طور پر ایک نثر نگار تھی، پمفلٹ اور ڈرامے لکھتی تھی۔
19 اکتوبر 2016 وہ تاوریخی دن تھا، جب کیرسی کی ممتاز ترین شخصیت اولیمپ دی گوژ بڑی آن بان سے فرانس کی قومی اسمبلی میں داخل ہوتی ہیں۔ ان کی آمد کے موقع پر قومی اسمبلی کی صدر، مادام کلاڈے بارٹولونے (Claude Bartolone) اعلان کر رہی ہیں ''بالآخر ہم اس لمحے تک آن پہنچے ہیں، بالآخر اولیمپ دی گوژ قومی اسمبلی میں داخل ہو رہی ہیں۔'' یہ اس پروقار تقریب کا دن تھا، جب اولیمپ کا مجسمہ اسمبلی کی ایک راہداری میں نصب کیا جاتا ہے۔ یوں اولیمپ دی گوژ ایک نرالی شان کے ساتھ اس پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جس میں داخلے کا مطالبہ اس نے دو سو ستائیس برس پہلے کیا تھا۔
وقت منتظر رہے گا اولیمپ کا گیلوتین سے پنتھیان تک کا سفر کب مکمل ہوتا ہے؟
یہ کہاں ہوتا ہے کہ جو اپنی گلیوتینپر عورتوں کی برابری کے لیے گردن کٹوا رہی ہو، وہ یہ سوال اٹھا رہی ہو کہ کہ ''اگر تمام مرد آزاد پیدا ہوئے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمام عورتیں غلام پیدا ہوئی ہوں؟ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عورتوں کا مردوں کی غیر مسلسل، غیر معین، نامعلوم اور یک طرفہ مرضی کے تابع ہونا ضروری ہو، کیا یہ غلامی کی مثالی شرط ہے؟''
ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی عورتیں تسلیم کے حوالے سے دو حصوں میں بٹ چکی تھیں۔ ایک طبقہ سرسید احمد خان اور ان کے ساتھیوں کے زیر اثر تھا اور دوسرا مولوی امتیاز علی اور دوسروں کے خیالات کا ماننے والا تھا۔ بالکل اسی طرح عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا عالم یورپ اور امریکا میں تھا۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں انقلاب فرانس نے یورپ میں فکری انقلاب برپا کردیا تھا۔ میری اس صورت حال پر بہت مضطرب تھی۔ اس کی پارہ صفت شخصیت کو چین کب تھا۔ اسے انقلاب فرانس کی چاہت نے ایک نئے سحر میں باندھ لیا تھا۔ ایک ہمسایہ ''دشمن ملک'' میں اسے انقلاب کو چھو کر دیکھنا، محسوس کرنا اور سمجھنا تھا، اسے اپنی سانسوں کے اندر سمونا اور اپنی فکر کا حصہ بنانا تھا۔
امریکی فیمنسٹ ادیب اور دانشور ورجینیا وولف کے خیال میں ''عظیم جنگیں عجیب و غریب اثرات مرتب کرتی ہیں۔ انقلاب فرانس نے کچھ لوگوں کو تو چیر پھاڑ کر رکھ دیا، اور کچھ لوگوں کا یہ بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ جین آسٹن نے، کہا جاتا ہے، کہ اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ چارلس لیمب نے اسے (انقلاب کو) نظرانداز کیا، بیوگرومل نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ لیکن ورڈزورتھ اور گوڈون کے لیے یہ، جیسے کہ انھوں نے دیکھا، ایک نئی سحر تھی۔''
ورجینیا وولف نے انقلاب فرانس کے میری وولسٹن کرافٹ پر مرتب ہونے والے اثرات پر لکھا ہے: ''میری کے لیے انقلاب (فرانس) محض اس کے وجود سے باہر وقوع پذیر ایک واقعہ نہ تھا بلکہ یہ اس کے لہو میں شامل ایک متحرک عنصر تھا۔
وہ عمر بھر جبر، قانون اور رواج کے خلاف حالت بغاوت میں رہی۔ ایک مصلح کا انسانیت سے پیار جس میں محبت کے ساتھ ساتھ جبر سے بے پناہ نفرت شامل تھی، اس کے وجود میں رچا ہوا تھا۔ فرانس میں انقلاب بپا ہونے کے باعث اس کے بعض انتہائی گہرے نظریات اور اعتقادات نے اظہار حاصل کیا اور اس غیر معمولی موقع کی رو میں آگے بڑھتے ہوئے اس نے کمال فصاحت اور جرأت مندی کی حامل یہ دو کتابیں لکھ ڈالیں جن میں ایڈمنڈبرگ اور عورتوں کے حقوق کی توثیق شامل ہیں۔ یہ اس قدر سچائی پر مبنی ہیں کہ ان کی اصلیت اب ہمارا معمول بن چکی ہے۔
(جاری ہے)