سابق چئیر مین سی ڈی اے فرخند اقبال کی اربوں کی لوٹ مار کا سراغ مل گیا
تحقیقات میں نہ صرف ناجائزاثاثوں میں زبردست اضافے بلکہ کئی لینڈ ڈیولپروں کونوازنے کی ہوشربا تفصیلات کا انکشاف
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تحقیقات کے دوران کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے سابق چیئرمین فرخند اقبال کی طرف سے نہ صرف اپنے ناجائزاثاثوں میں زبردست اضافے بلکہ اسلام آباد کے کئی تعمیراتی ٹھیکیداروں اورلینڈ ڈیولپروں کو نوازنے کے لیے اختیارات کے ناجائز استعمال کی ہوشربا تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔
سرکاری ریکارڈ جس کی ایک نقل ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کودستیاب ہوئی ہے سے پتہ چلتا ہے کہ بدعنوانی کے مختلف کیسوں میں ملوث ہونے کے کافی ثبوت ملنے پر ایف آئی اے نے گزشتہ برس گریڈ20 کے افسر فرخند اقبال کو حراست میں لیا۔ ان کے خلاف الزامات میں قواعد کے برعکس اسلام آباد میں کئی بلند عمارتوں کی منزلوں میں اضافے کی اجازت دینا اور اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں کی مشکوک نیلامی کرنا شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے2011ء میں فرخند اقبال کے خلاف ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنے پر انکوئری شروع کی تھی اور انھیں انکوائری افسر کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی لیکن گزشتہ جنوری میں اپنی گرفتاری تک انھوں نے ایف آئی اے کی ہدایت کو خاطر میں نہ لائے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ سی ڈی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے مقدمات میں انکوائری بھگتنے کے ساتھ فرخند اقبال کو 870 کنال اراضی کی خریداری کے اسکینڈل کی ایک الگ تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔1997ء میں فتح جنگ میں 870کنال اراضی خریدنے کا انکشاف ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران سامنے آیا۔ تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ فتح جنگ کے شعبہ ریونیو کے پاس فرخند اقبال یا اس کے کسی شریک ملزم کو اراضی کی خریداری کے لیے رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ تفتیشی افسروں کا خیال ہے کہ فرخند اقبال نے فتح جنگ میں یہ وسیع قطعہ اراضی زمین کے مالکان کو1997ء میں پنجاب محکمہ زراعت میں تعیناتی کے دوران کوئی فائدہ پہنچانے کے عوض بطور کک بیک حاصل کیا۔ فرخند اقبال 1998ء تک پنجاب میں تعینات رہے اور بعدازاں ان کی خدمات وفاق کو واپس کردی گئیں۔
فرخند اقبال نے 2010ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سی ڈی اے کی پرکشش پوسٹ حاصل کی اور مبینہ طور پر اس عہدے کو ذاتی پیسہ بنانے کیلیے استعمال کیا۔ انھوں نے اپنے دور میں سی ڈی اے میں لوٹ مار کا نیا کلچر متعارف کرایا۔ سی ڈی اے بورڈ کوقومی مفادات کے تحفظ کیلیے بطور مانیٹر بہت کم کردار ادا کرنے دیا گیا بلکہ بورڈ کے ارکان مبینہ طور پرکئی کیسوں میں فرخند اقبال کے شریک جرم بھی بنے رہے۔ ایف11سیکٹر میں ابوظبی ٹاور کے مالک ملک صادق کے5کروڑ معاف کرنا فرخند اقبال دورکی سی ڈی اے کی بدعنوانی اور بورڈ کی ناقص کارکردگی کی واضح مثال ہے۔ سرکاری ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ سی ڈی اے نے ملک صادق کے ذمے واجب الادا رقم اس وقت معاف کرنے کی منظوری دی جب عدالت پہلے ہی ابوظبی ٹاور کے مالک سے فوری وصولی کا حکم جاری کرچکی تھی۔ ایف آئی اے کے ایک تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کیس میں بورڈ کے کردار کا تعین کرنے کے لیے ایف آئی اے نے سی ڈی اے کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ فرخند اقبال کے ناجائز اثاثوں کی تفصیل ایف آئی اے کیلیے عدالت میں سابق چیئرمین سی ڈی اے کو کرپٹ ظاہر کرنے کیلیے کافی ہے۔اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ فرخند اقبال کے پاس1999میں 59ہزار روپے کے اثاثے تھے جو 2006میں بڑھ کر21لاکھ روپے ہوگئے۔
مختلف سرکاری محکموں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ فرخند اقبال نے اپنے ناجائزاثاثے چھپانے کیلیے2006سے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے بندکردیے تھے لیکن ایف آئی اے نے اربوں روپے مالیت کے اثاثے بے نقاب کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ سے ظاہرہوتا ہے کہ فرخند اقبال اور ان کی اہلیہ نیلم فرخند اقبال کے نام اسلام آباد کے پوش علاقوں میں10پلاٹ اورمکانات ہیں، فرخند اقبال نے زیادہ تر جائیداد2011ء سے 2013ء کے درمیان خریدی تھی۔ انھوں نے مبینہ طور پر ابوظبی ٹاور سمیت کئی کمرشل عمارتوں کی منزلوں میں غیرقانونی اضافہ کرنے پر بطور کک بیک درجنوں پرتعیش اپارٹمنٹ بھی حاصل کیے ہیں۔ کم ازکم ابوظبی ٹاورکیس میں ایف آئی اے ٹیم کو یقین ہے کہ فرخند اقبال نے ملک صادق کے ذمے5 کروڑ کے واجبات غیرقانونی طور پرمعاف کرائے۔ ایف آئی اے پہلے ہی ملک صادق کوبیان ریکارڈ کرانے کیلیے نوٹس جاری کرچکی ہے۔ فرخند اقبال کی اہلیہ نیلم فرخند کو بھی شوہر کے غیرقانونی اثاثے رکھنے کے الزام میں نوٹس جاری کیاگیا ہے۔ کیس کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ نیلم اقبال اور اس کے سگے بھائی سلیم کاکراچی کے سامبا بینک میں اکاؤنٹ نمبر6406504933 ہے جس میں10کروڑکی رقم جمع ہے۔
سرکاری ریکارڈ جس کی ایک نقل ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کودستیاب ہوئی ہے سے پتہ چلتا ہے کہ بدعنوانی کے مختلف کیسوں میں ملوث ہونے کے کافی ثبوت ملنے پر ایف آئی اے نے گزشتہ برس گریڈ20 کے افسر فرخند اقبال کو حراست میں لیا۔ ان کے خلاف الزامات میں قواعد کے برعکس اسلام آباد میں کئی بلند عمارتوں کی منزلوں میں اضافے کی اجازت دینا اور اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں کی مشکوک نیلامی کرنا شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے2011ء میں فرخند اقبال کے خلاف ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنے پر انکوئری شروع کی تھی اور انھیں انکوائری افسر کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی لیکن گزشتہ جنوری میں اپنی گرفتاری تک انھوں نے ایف آئی اے کی ہدایت کو خاطر میں نہ لائے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ سی ڈی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے مقدمات میں انکوائری بھگتنے کے ساتھ فرخند اقبال کو 870 کنال اراضی کی خریداری کے اسکینڈل کی ایک الگ تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔1997ء میں فتح جنگ میں 870کنال اراضی خریدنے کا انکشاف ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران سامنے آیا۔ تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ فتح جنگ کے شعبہ ریونیو کے پاس فرخند اقبال یا اس کے کسی شریک ملزم کو اراضی کی خریداری کے لیے رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ تفتیشی افسروں کا خیال ہے کہ فرخند اقبال نے فتح جنگ میں یہ وسیع قطعہ اراضی زمین کے مالکان کو1997ء میں پنجاب محکمہ زراعت میں تعیناتی کے دوران کوئی فائدہ پہنچانے کے عوض بطور کک بیک حاصل کیا۔ فرخند اقبال 1998ء تک پنجاب میں تعینات رہے اور بعدازاں ان کی خدمات وفاق کو واپس کردی گئیں۔
فرخند اقبال نے 2010ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سی ڈی اے کی پرکشش پوسٹ حاصل کی اور مبینہ طور پر اس عہدے کو ذاتی پیسہ بنانے کیلیے استعمال کیا۔ انھوں نے اپنے دور میں سی ڈی اے میں لوٹ مار کا نیا کلچر متعارف کرایا۔ سی ڈی اے بورڈ کوقومی مفادات کے تحفظ کیلیے بطور مانیٹر بہت کم کردار ادا کرنے دیا گیا بلکہ بورڈ کے ارکان مبینہ طور پرکئی کیسوں میں فرخند اقبال کے شریک جرم بھی بنے رہے۔ ایف11سیکٹر میں ابوظبی ٹاور کے مالک ملک صادق کے5کروڑ معاف کرنا فرخند اقبال دورکی سی ڈی اے کی بدعنوانی اور بورڈ کی ناقص کارکردگی کی واضح مثال ہے۔ سرکاری ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ سی ڈی اے نے ملک صادق کے ذمے واجب الادا رقم اس وقت معاف کرنے کی منظوری دی جب عدالت پہلے ہی ابوظبی ٹاور کے مالک سے فوری وصولی کا حکم جاری کرچکی تھی۔ ایف آئی اے کے ایک تفتیشی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کیس میں بورڈ کے کردار کا تعین کرنے کے لیے ایف آئی اے نے سی ڈی اے کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ فرخند اقبال کے ناجائز اثاثوں کی تفصیل ایف آئی اے کیلیے عدالت میں سابق چیئرمین سی ڈی اے کو کرپٹ ظاہر کرنے کیلیے کافی ہے۔اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ فرخند اقبال کے پاس1999میں 59ہزار روپے کے اثاثے تھے جو 2006میں بڑھ کر21لاکھ روپے ہوگئے۔
مختلف سرکاری محکموں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ فرخند اقبال نے اپنے ناجائزاثاثے چھپانے کیلیے2006سے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے بندکردیے تھے لیکن ایف آئی اے نے اربوں روپے مالیت کے اثاثے بے نقاب کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ سے ظاہرہوتا ہے کہ فرخند اقبال اور ان کی اہلیہ نیلم فرخند اقبال کے نام اسلام آباد کے پوش علاقوں میں10پلاٹ اورمکانات ہیں، فرخند اقبال نے زیادہ تر جائیداد2011ء سے 2013ء کے درمیان خریدی تھی۔ انھوں نے مبینہ طور پر ابوظبی ٹاور سمیت کئی کمرشل عمارتوں کی منزلوں میں غیرقانونی اضافہ کرنے پر بطور کک بیک درجنوں پرتعیش اپارٹمنٹ بھی حاصل کیے ہیں۔ کم ازکم ابوظبی ٹاورکیس میں ایف آئی اے ٹیم کو یقین ہے کہ فرخند اقبال نے ملک صادق کے ذمے5 کروڑ کے واجبات غیرقانونی طور پرمعاف کرائے۔ ایف آئی اے پہلے ہی ملک صادق کوبیان ریکارڈ کرانے کیلیے نوٹس جاری کرچکی ہے۔ فرخند اقبال کی اہلیہ نیلم فرخند کو بھی شوہر کے غیرقانونی اثاثے رکھنے کے الزام میں نوٹس جاری کیاگیا ہے۔ کیس کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ نیلم اقبال اور اس کے سگے بھائی سلیم کاکراچی کے سامبا بینک میں اکاؤنٹ نمبر6406504933 ہے جس میں10کروڑکی رقم جمع ہے۔