’بلیک بیوٹی‘ نامی شہابی پتھر سے متعلق دلچسپ انکشاف
320 گرام وزنی ’بلیک بیوٹی‘ 2011 میں مغربی صحارا صحرا سے دریافت ہوا
ISLAMABAD:
سائنس دانوں نے NWA 7034 المعروف 'بلیک بیوٹی' نامی شہابی پتھر کے متعلق مزید انکشافات کردیئے ہیں۔
محققین نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مریخ کے مطالعے کے لیے بھیجے گئے متعدد مشنز کی جانب سے عکس بند کی گئی مریخی سرزمین کی ہزاروں اعلیٰ ریزولوشن کی حامل تصاویر کا جائزہ لیا۔
محققین کو معلوم ہوا کہ 'بلیک بیوٹی' خلاء میں تب نکلا جب 50 لاکھ سے 1 کروڑ سال قبل ایک سیارچہ مریخ سے ٹکرایا اور اس کے نتیجے میں چھ میل چوڑا گڑھا پڑا تھا۔
320 گرام وزنی 'بلیک بیوٹی' 2011 میں مغربی ریگستان صحارا سے دریافت ہوا اور اس کی دریافت کے بعد ایک نئے قسم کے شہابی پتھر کی درجہ بندی شروع ہوئی۔ اس پتھر میں قدیم ترین مریخی معدنیات موجود ہیں جو 4ارب 48 کروڑ سال قبل وجود میں آئے۔ بلیک بیوٹی مریخ کا واحد ٹوٹی چٹان کا نمونہ ہے جو اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ اس میں متعدد اقسام کی چٹانوں کے ٹکرے یکجا ہیں۔
محققین کے مطابق یہ خصوصیت اسے دیگر مریخی پتھروں سے ممتاز بناتی ہے جوایک قسم کی چٹان کے ہوتے ہیں۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کرٹِن سے تعلق رکھنے والے ماہر اور تحقیق کے مصنف ڈاکٹر اینتھونی لیگین کا کہنا تھا کہ مریخ پر بھیجے گئے ناسا کے مشن کے نمونے واپس دنیا میں لانے سے 10 سال قبل ہم پہلی بار مریخ کے ارضیاتی سیاق و سباق کو اس پتھر کے ٹکڑے کی وجہ سے جانتے ہیں۔
محققین کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہوئی ہیں۔
سائنس دانوں نے NWA 7034 المعروف 'بلیک بیوٹی' نامی شہابی پتھر کے متعلق مزید انکشافات کردیئے ہیں۔
محققین نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مریخ کے مطالعے کے لیے بھیجے گئے متعدد مشنز کی جانب سے عکس بند کی گئی مریخی سرزمین کی ہزاروں اعلیٰ ریزولوشن کی حامل تصاویر کا جائزہ لیا۔
محققین کو معلوم ہوا کہ 'بلیک بیوٹی' خلاء میں تب نکلا جب 50 لاکھ سے 1 کروڑ سال قبل ایک سیارچہ مریخ سے ٹکرایا اور اس کے نتیجے میں چھ میل چوڑا گڑھا پڑا تھا۔
320 گرام وزنی 'بلیک بیوٹی' 2011 میں مغربی ریگستان صحارا سے دریافت ہوا اور اس کی دریافت کے بعد ایک نئے قسم کے شہابی پتھر کی درجہ بندی شروع ہوئی۔ اس پتھر میں قدیم ترین مریخی معدنیات موجود ہیں جو 4ارب 48 کروڑ سال قبل وجود میں آئے۔ بلیک بیوٹی مریخ کا واحد ٹوٹی چٹان کا نمونہ ہے جو اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ اس میں متعدد اقسام کی چٹانوں کے ٹکرے یکجا ہیں۔
محققین کے مطابق یہ خصوصیت اسے دیگر مریخی پتھروں سے ممتاز بناتی ہے جوایک قسم کی چٹان کے ہوتے ہیں۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کرٹِن سے تعلق رکھنے والے ماہر اور تحقیق کے مصنف ڈاکٹر اینتھونی لیگین کا کہنا تھا کہ مریخ پر بھیجے گئے ناسا کے مشن کے نمونے واپس دنیا میں لانے سے 10 سال قبل ہم پہلی بار مریخ کے ارضیاتی سیاق و سباق کو اس پتھر کے ٹکڑے کی وجہ سے جانتے ہیں۔
محققین کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہوئی ہیں۔