بیرونی مداخلت کا ثبوت نہیں دکھایا گیا ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کا تفصیلی فیصلہ

وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کے اقدام سے اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے، سپریم کورٹ


فوٹو فائل

PARIS: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کا 111 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں 12 ججز نے از خود نوٹس کی سفارش کی اور پھر سپریم کورٹ نے آئین کو مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کیلئے ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر از خود نوٹس لیا۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت نے اسمبلی توڑی جس پر اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے۔

تحریری فیصلے میں جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا کہ از خود نوٹس کی کاروائی کے دوران بیرونی دھمکی آمیز مراسلہ (سائفر) عدالت کو نہیں دکھایا گیا تاہم فریقین نے اس حوالے سے دلائل دیے اور عدالت کو بنیادی نکات (اجزا) سے آگاہ کیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سائفر کے حوالے سے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اعلامیہ میں بیرونی مداخلت جانچنے کیلئے سائفر پر تحقیقات کا نہیں کہا گیا، سیکورٹی کونسل اعلامیے میں اپوزیشن جماعتوں کے بیرون طاقتوں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد لانے کا ذکر بھی موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ سائفر سپریم کورٹ یا کسی اپوزیشن جماعت کے رکن کو نہیں دکھایا گیا، عدالت کو عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بیرون مداخلت کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، بیرونی سازش میں شامل کسی شخص کا نام بھی حتمی طور پر سامنے نہیں لایا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے بھی رولنگ میں مزید تحقیقات کا کہا، 7 مارچ کو دھمکی آمیز مراسلہ موصول ہونے کے بعد بھی اس وقت کی حکومت نے تحقیقات نہیں کروائیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اس معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی تھی، کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ اس وقت کی حکومت کے پاس نامناسب شواہد کا اشارہ دیتی ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ عدم شواہد کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی حکومت کے سائفر کے نیشنل سیکورٹی سے منسلک ہونے کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا، سائفر پر از خود نوٹس لینے کے پی ٹی آئی کے مطالبہ کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، مسلم لیگ ن کے دور میں انتخابات کی تحقیقات کیلئے صدر کی جانب سے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا راستہ اپنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے معزز ججز جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اضافی نوٹ تحریر کیے۔

جسٹس (ر) مظہر عالم میاں خیل کا اضافی نوٹ

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں جسٹس (ر) مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نام نہاد رولنگ بدنیتی پر مشتمل تھی، اسپیکر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی کیوں چلائی اسکا جواز نہیں بتایا گیا اور قاسم سوری نے پہلے سے تیار کردہ رولنگ پڑھ کر سنائی۔

اضافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ اگلے منٹ میں عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہا جس پر صدر مملکت نے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔

اضافی نوٹ میں لکھا گیا اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی قانونی خلاف ورزی پہ عدالتیں جائزہ لے سکتی ہیں، جب عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا لازم ہے، اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ رولنگ کے زریعے عدم اعتماد کی تحریک کو رد کرے۔

رکن پارلیمنٹ اسپیکر کا حلف لیتے وقت غیرجانبدار (نیوٹرل) رہنے کا عہد کرتا ہے جس کے تحت اُسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے لکھا کہ پارلیمنٹ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے، ووٹنگ کے حق سے محروم کرنا آئینی انحراف ہے، ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا وہ پارلیمانی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہونے کے دائرے میں نہیں آتا۔

ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کے حوالے اہم جسٹس جمال خان کی آبزرویشن

جسٹس جمال مندو خیل نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ کسی شخص کی خواہش پہ ملک میں عام انتخابات نہیں کرائے جاسکتے، ملک میں انتخابات کب کرانے ہیں یہ پارلیمنٹ اجتماعی فیصلہ کرے، ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا مطالبہ نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے لکھا کہ عام انتخابات صرف اسمبلی مدت پوری ہونے پہ ہی کرائے جاسکتے ہیں، عدالتوں کو نظریہ ضرورت سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ماضی میں غیر جمہوری قوتوں نے نظریہ ضرورت کا غلط استعمال کیا، نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے سے ہمیشہ جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے لکھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعظم کے مفاد کا تحفظ کیا، غیر ملکی مراسلے کو بغیر تحقیق کیے سازش کہنا حیران کن ہے، سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کے باوجود پارلیمانی کارروائی میں تاخیر کرنے کی قوم گواہ ہے، غیر آئینی اور غیر قانونی رویہ اس شخص نے اپنایا جو انتہائی اہم عہدے پر فائز تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں