تیسری قوت کی ناکامی
میڈیا نے بھی عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا جب کہ سوشل میڈیا میں اس حکومت کے گن گانے والے مسلسل اپنا کام کرتے رہے
تحریک انصاف کو تیسری سیاسی قوت کے طور پر لانچ کیا گیا اور پھر اسے حکومت بھی دے دی گئی، عمران خان کی پونے چار سالہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت سے زیادہ مدد ملی۔
میڈیا نے بھی عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا جب کہ سوشل میڈیا میں اس حکومت کے گن گانے والے مسلسل اپنا کام کرتے رہے۔چھوٹی جماعتوں کی مدد سے قائم کرائی گئی تیسری قوت کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ہر شعبے کے ماہر لوگ موجود ہیں۔
ماضی کی حکمران جماعتوں سے مقتدر حلقے ہی نہیں عوام بھی مایوس تھے اور تیسری قوت کی سیاسی حکومت کے خواہاں تھے اور اسی لیے بالاتروں اور عوام کو عمران خان سے بڑی توقعات تھیں کیونکہ انھوں نے اپنی پارٹی اس منشور پر بنائی تھی کہ ملک میں ہر ایک کو انصاف ملے گا۔ امیر غریب کے لیے ملکی قانون برابر ہوگا۔ کسی صوبے سے ناانصافی یا زیادتی نہیں ہوگی۔ عوام سمیت تمام صوبوں سے یکساں سلوک روا رکھا جائے گا۔
عمران خان اقتدار ملنے تک اپنی سیاست میں عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے تھے کہ باری باری اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں، ان کے قائدین، وزیر، مشیر اور پارٹی عہدیدار سب کرپٹ ہیں۔
سابق حکمرانوں نے بیرون ملک جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور ملکی خزانے کو لوٹ کر اربوں روپیے بیرون ملک بینکوں میں جمع کرا رکھے ہیں۔ عمران خان کے یہ الزامات غلط بھی نہیں تھے۔ سابق حکمران ان الزامات کو غلط قرار دیا کرتے تھے اور بیرونی جائیدادوں کی تردید کرتے تھے مگر عمران خان نے بڑی پراثر تقاریر اور بیانات سے عوام کو یقین دلا دیا تھا اور لوگوں کی بڑی تعداد سابق حکمرانوں کو کرپٹ اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کبھی اقتدار میں نہ رہنے والے عمران خان درست کہہ رہے ہیں اور ایماندار ہیں۔ ملک کے کرپٹ سیاست سے مایوس نوجوانوں کو عمران خان نے متحرک کیا اور خود ان کی آواز بنے۔
انھیں ووٹ دینے پر آمادہ کیا، قوم کو سنہری خواب دکھائے کہ ملک میں غربت کے ذمے دار کرپٹ حکمران تھے جن سے میں اقتدار میں آ کر لوٹی ہوئی رقم واپس لا کر ملک سے غیر ملکی قرضے اتاروں گا اور پی ٹی آئی حکومت ملک میں خوشحالی لائے گی ملک ترقی کرے گا۔ قوم کی طرح بالاتروں کو بھی یہی امید اور توقعات تھیں کہ عمران خان واقعی تبدیلی لائیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں کرپٹ نہیں بلکہ ملک و قوم سے مخلص ہوں اور ملک میں تبدیلی لانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔ عمران خان کے سیاست میں آنے سے قبل کے کردار پر ان کے مخالفین تنقید کرتے تھے مگر عوام اور بالاتر عمران خان سے بے حد متاثر تھے اور انھیں اقتدار میں لانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
باری باری اور سالوں اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں نے عمران خان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر ان کے پروپیگنڈے کے جواب میں عمران خان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ کامیاب رہا اور اپنے مخالفین کی کوششوں کے باوجود عمران خان اپنا سیاسی قد بڑھاتے رہے اور وہ عوام اور بالاتروں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ پی ٹی آئی ماضی کی جماعتوں سے یکسر مختلف ثابت ہوگی اور ملک و قوم کی تقدیر بدل دے گی۔
2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی تاہم کے پی کے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی جب کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنیں جب کہ بلوچستان ماضی کی طرح رہا۔ عمران خان کی کے پی حکومت نے دوسروں کے مقابلے میں ایک مثالی حکومت بننے کی کوشش کی۔ پولیس سمیت دیگر محکموں میں کچھ تبدیلیاں بھی نظر آئیں اور کے پی کے کے عوام حکومت سے مطمئن ہوئے ہوں گے اس لیے انھوں نے پی ٹی آئی کو دوبارہ منتخب کیا مگر اچھی کارکردگی کے باوجود عمران خان نے پرویز خٹک کو دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنایا ۔
بالاتروں نے (ق) لیگ، پی ٹی آئی کا اتحاد کرایا اور پنجاب کے اقتدار کی خاطر اس پرویز الٰہی کو اسپیکر بنانا پڑا جسے وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ چکے تھے۔ عمران خان نے راولپنڈی کے گیٹ 4 سے تعلق کے دعوے دار شیخ رشید کو وزیر ریلوے بنایا جو ان کے نزدیک چپڑاسی رکھے جانے کے قابل بھی نہیں تھا۔
شاہ محمود قریشی اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انھیں ملتان کی صوبائی نشست پر خود پی ٹی آئی والوں نے ہروایا تاکہ میں وزیر اعلیٰ نہ بن سکوں۔ عمران خان نے پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بنایا جن میں کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ ان میں صرف یہ صلاحیت تھی کہ وہ وزیر اعظم کا کہنا ٹالنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے اور لاہور کی بجائے اسلام آباد کے ہر حکم پر یس سر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے جنھوں نے اپنی بیڈ گورننس سے پنجاب کا بیڑا غرق کردیا مگر عمران خان ان کی تعریف کرتے رہے ۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے انھوں نے اچانک بزدار سے استعفیٰ لے لیا اور پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے پر تیار ہو گئے۔
بالاتروں اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی بجائے عمران خان اپوزیشن کو کچلنے اور اپنے مخالف رہنماؤں کو گرفتار کرانے اور جمہوری وزیر اعظم کی بجائے من مانی کرنے والا بااختیار حکمران بننے میں مصروف رہے اور بالاتروں پر بھی حکم چلانے لگے۔
انھوں نے اپنی انتقامی کارروائیوں سے اپوزیشن کو متحد ہونے پر مجبور کردیا۔ ان کی حکومت میں کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھی، مہنگائی، بے روزگاری سے عوام بے زار ہوئے، غلط خارجہ پالیسی سے دوست ممالک ناراض ہوئے ، جس کی وجہ سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی،اب اقتدار ختم ہونے کے بعد سے وہ فوج اور عدلیہ کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے کہنے پر ان کے چاہنے والے ٹینکوں کے آگے لیٹنے کو تیار ہوجائیں لیکن اگر وہ ایسے جانباز کارکنوں کی اچھی تربیت کرتے، ان کی صلاحتیں نکھارتے تو ملک و قوم کی ترقی ممکن تھی مگر عمران خان نے انھیں اچھا، باصلاحیت اور باشعور سیاسی ورکر بنانے کے بجائے ٹائیگر بنا دیا گیا۔ ملک کی سیاست میں گالیاں، جھگڑے بڑھائے گئے جس کے نتیجے میں عمران خان کو اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑا جس کی عوام اور بالاتروں کو کوئی توقع ہی نہیں تھی۔