شہر ابھی ڈوبا نہیں ہے

اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم کرے۔ وزیر اعلیٰ کا کام نالوں کی صفائی کا نہیں ہے

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
کراچی بارشوں میں ڈوبا ہوا ہے۔کئی اموات ہوئی ہیں ۔ بلدیہ کراچی کے اہلکار اس دفعہ زیادہ متحرک نظر آئے مگرفرسودہ سیوریج سسٹم کی بناء پر شہر کا آدھا علاقہ پانی میں ڈوبا۔ ہمیشہ کی طرح کورنگی کاز وے پر ملیر ندی کا پانی اوور فلو ہو گیا۔

آئی آئی چندریگر روڈ جس کو سابق ناظم مصطفی کمال کے دورِ نظامت میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا اور اس شاہراہ کے نیچے دبے ہوئے کئی پرانے نالے فعال کیے گئے تھے مگر ان نالوں کی صفائی نہ ہونے کی بناء پر آئی آئی چندریگر روڈ ، کراچی کی بندرگاہ جانے والا تاریخی ٹاور اور اطراف کے علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا رہا۔ سپریم کورٹ رجسٹری، سندھ ہائی کورٹ، سندھ سیکریٹریٹ اور کمشنر ہاؤس جانے والی سڑکیں پانی زیادہ ہونے کی بناء پر کئی کئی گھنٹے بند رہیں۔

شاہراہِ فیصل اس شدید پانی میں کئی دفعہ ڈوبی مگر بلدیہ کراچی کے اہلکاروں کی کوششوں سے شاہراہِ فیصل پر جمع ہونے والا پانی صاف ہوا۔ یہی صورتحال یونیورسٹی روڈ کی ہوئی۔ ناگن چورنگی اور نارتھ کراچی کی سڑک کئی دنوں تک بڑی نہر کا منظر پیش کرتی رہیں۔

اس دفعہ بارشوں کا زور کھیرتھر کی پہاڑیوں، بلوچستان میں خضدار اور لسبیلہ ڈویژن میں ہونے والی بارشوں سے کراچی بھی براہِ راست متاثر ہوا۔ کھیرتھر اور کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ سے آنے والے پانی نے لیاری ندی، ملیر ندی اور ملحقہ نالوں کو اتنا بھردیا کہ پانی قریبی بستیوں میں داخل ہوا۔ ملیر کے گوٹھوں کو بھی اس پانی نے شدید نقصان پہنچایا۔

گزشتہ سال ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد گجر نالہ ، محمود آباد نالہ اور دیگر نالوں سے تجاوزات کے خاتمہ کا منصوبہ شروع ہوا تھا۔ ان نالوں کے اندر اور اطراف میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کو مسمار کیا گیا۔ گجر نالہ اور محمود آباد نالہ میں آباد بستیوں کے مکینوں کو منتقل کیا گیا اور ان نالوں کے دونوں طرف سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس منصوبہ کے تحت جوبلی اور اردو بازار کے علاقوں میں نالہ پر تعمیر کی جانے والی عمارتیں مسمار کی گئیں۔ مگر بعض علاقوں میں قدیم نالوں کی دریافت اور ان سے مٹی نکال کر کارآمد بنانے کا کام رک گیا۔

گزشتہ سال بارش میں ڈی ایچ اے کے وہ سیکٹر جو سطح زمین سے نیچے ہیں وہاں عمارتوں میں پانی داخل ہوگیا تھاجس کی وجہ سے کروڑوں روپے کی اشیاء تباہ ہوئیں۔اس دفعہ بھی ڈیفنس کی کئی سڑکیں بھی پانی میں ڈوبی رہیں۔ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں پرانے نالوں پر بلند عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ اس دفعہ جب بارشیں ہوئیں تو چودھویں کی رات تھی۔ چاند مکمل تھا اور سمندر میں بڑی لہریں پیدا ہورہی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ سمندر نے بارش کے پانی کو قبول نہیں کیا جس کی بناء پر بھٹہ ولیج، مبارک ولیج، کیماڑی، شیریں جناح کالونی اور ڈیفنس کے علاقے بارش کے پانی سے شدید متاثر ہوئے' کئی انڈرپاس بند ہوگئے اور لوگوں کو ایک دفعہ پھر اسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ گزشتہ سال ہوا تھا۔ بجلی کا بحران پورے شہر میں شدید ہوا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، بلدیہ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب اور دیگر افسروں کی مختلف علاقوں کے دوروں کی وڈیوز وائرل ہوئیں مگر پہلے سے منصوبہ بندی نہ ہونے کی بناء پر صورتحال میں فرق نہیں آیا۔ اس دفعہ عیدالاضحی کے موقع پر بارشوں کا سیزن آیا۔


شہری اپنے شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ صاحبِ ثروت لوگوں نے اپنے گھروں کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے رکھے جن میں کئی دنوں تک جانوروں کو لاکر رکھا گیا۔اس سے آنے جانے والوں کو پریشانی ہوئی، شہریوں کو جانورکی نفسیات کی کوئی سمجھ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اجنبی ماحول اوررش کی وجہ سے جانور گھبرا جاتے ہیں، اسی گھبراہٹ میں جانور بپھر جاتے ہیں، کراچی میں کئی حادثے ہوئے ہیں۔ ہر گلی اور سڑک پر جانوروں خون اور آلائشیں موجود رہیں اور اوپر سے بارش ہوگئی، سڑکیں اور گلیاں اس خون ملے پانی سے بھرگئیں۔

جانوروں کے جسم سے نکلنے والی غلاظتیں، اوجڑی، کھالیں اور آلائشیں سڑکوں اور گلیوں میں چاروں طرف پھیل گئیں۔ عیدالاضحی کی رات سے بارش کا نیا اسپیل آیا۔ عید کے دوسرے دن مسلسل بارش ہوتی رہی۔ جن لوگوں نے پہلے دن قربانی کا فریضہ انجام نہیں دیا تھا، ان کے رات بھر گیلے ہوئے جانور ذبح ہوئے اور پھر جانور کے خون اور بارش کے پانی کی آمیزش نے فضاء کو مکدر کردیا۔

ایک ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک قصائی کی جان گائے پر قابو پانے کی کوشش میں چلی گئی۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ عید کے موقع پر بہت سے افراد چند ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے قصائی کا روپ دھار لیتے ہیں، یوں جانور کی اذیت کے ساتھ ان کی اپنی جانیں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔

اگر عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی کے تناظر میں اسلامی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق سامنے آتے ہیں۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور متحدہ عرب امارات وغیرہ میں سڑکوں اور گلیوں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان ممالک میں لوگ قربانی کے جانوروں کی گلیوں اور سڑکوں پر نمائش کرتے نظر نہیں آتے۔ حکومتی سطح پر جانوروں کی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے۔

جس فرد کو قربانی کرنی ہوتی ہے وہ متعلقہ ادارہ میں مطلوبہ رقم جمع کراتا ہے اور عید کے دن مقررہ وقت پر قربانی کے جانور کا گوشت اس کو ملتا ہے، یوں ایک مقدس فریضہ کی ادائیگی اس کی روح کے مطابق انجام پاتی ہے۔ نہ تو سڑکوں اور گلیوں میں جانور کا خون بہتا ہے نہ قربانی دینے والے دکھاوا کرسکتے ہیں ہوتی ہے۔ قربانی کا یہ فریضہ انتہائی خاموشی سے انجام پاجاتا ہے۔ پھر اسلامی ممالک نے عیدالاضحی کے تہوار کو مہذب انداز میں منانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔

دنیا بھر میں بارش کے پانی کو محفوظ کر کے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر کراچی میں ایک طرف پانی کی قلت ہمیشہ سے ہے اور دوسری طرف یہ پانی ضایع ہورہا ہے۔ کراچی میں 24جولائی کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوںگے۔ یہ انتخابات ایک ایسے قانون کے تحت منعقد ہورہے ہیں جس میں کونسلر کا ادارہ مفلوج ہے۔ میئر کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سارا بوجھ سیکریٹری بلدیات کے سر پر ہوگا۔

اس نظام میں ترقی کے نچلی سطح تک اختیارات کے سائنسی طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بیوروکریسی کے ذریعہ شہر کا نظام چلانا چاہتی ہے۔ کراچی شہر میں بلدیہ کراچی کی حدود محدود ہیں۔ کنٹونمنٹ، ڈی ایچ اے، کے پی ٹی، بحریہ ٹاؤن اور دیگر ادارے بلدیاتی امور انجام دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بناء پر مزید بارشوں کا خاصا امکان ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرح کراچی سمیت سندھ کے دورہ پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بارش نے پورے سندھ میں تباہی مچائی ہے۔ وزراء کے نکلنے اور بھاگ دوڑ کرنے سے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔

اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم کرے۔ وزیر اعلیٰ کا کام نالوں کی صفائی کا نہیں ہے۔ یونین کونسل کی سیورج کے نظام کی نگرانی ،پانی کی فراہمی اور پانی کو محفوظ رکھنے کی ذمے داری ہے، اگر یہ نظام قائم ہوتا ہے تو کونسلر سے لے کر میئر تک سارے معاملات کے ذمے دار قرار پاتے ہیں۔ کراچی شہر کو بچانے کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ شہر ابھی ڈوبا نہیں۔
Load Next Story