مولانا کی علمی حیثیت
بد قسمتی سے دورِ عمرانی کی تباہ کاریوں میں سب سے بڑی تباہ کاری یہ رہی کہ اس دور نے نسل نو سے اخلاق کی دولت چھین لی
فی زمانہ سوشل میڈیا ابلاغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے، جس کے بے شمار فوائد ہیں تو ان گنت نقصانات بھی ہیں۔ آج فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس کا عنوان تھا،''کیا مولانا فضل الرحمان یقیناً ایک عالم دین ہیں؟'' یہ فضول سوال تھا، اس قسم کی پوسٹ یا سوال کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، سردست آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس پوسٹ کے کمنٹس کے خانے میں مختلف حضرات نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق رائے زنی اور تبصرے کیے تھے۔
کسی ساتھی نے پوسٹ ہی کے ذریعے اپنی ذاتی معلومات کی حد تک بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''میں نے 2011 میں دورہ حدیث ( عالم کورس) جامعہ دارالعلوم کراچی سے کیا ہے۔ اس کے بعد دار الافتاء والتحقیق ڈیفنس فیز 2 کراچی سے جناب مفتی عبدالرحمن سے تخصص فی الافتاء (مفتی کورس) کیا۔ میرے استاد محترم ایک مستند مفتی ہیں۔
ان کی اپنی تصنیف فتاویٰ عباد الرحمٰن کے نام سے علماء میں مشہور و معروف ہیں، جو چودہ جلدوں میں منظر عام پر آچکا ہے۔ مفتی عبد الرحمن صاحب نے آج سے تقریباً چالیس سال پہلے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب سے ھدایہ پڑھی۔ اگر آپ عالم دین نہیں ہیں، تو پھر اپنی مسجد کے امام صاحب سے ھدایہ کے مقام کے بارے میں ضرور پوچھ لیجیے۔
اس کتاب کے بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں ''بھائی! ہم تو مولوی صرف اس شخص کو مانتے ہیں، جس کو ھدایہ کی سمجھ آتی ہو''۔ کہنے کا مقصد اور کلام کا خلاصہ یہ ہے، کہ جو شخص آج سے چالیس سال پہلے ھدایہ جیسی مشکل ترین کتاب پڑھاتا تھا، وہ عالم دین نہیں تو اور کیا ہوگا ؟ اور آج جب قائد جمعیت کے شاگردوں میں مستند علماء و مفتیان کرام موجود ہیں تو ان کی اپنی علمی استعداد کا کیا مقام ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب، شیخ الحدیث مولانا منظور مینگل، مفتی زرولی خان مرحوم جیسے سیکڑوں اہل علم ان کو مستند عالم دین اور اپنا قائد مانتے ہیں، تو ایسی شخصیت کا اپنا علمی مقام کیا ہوگا۔ بس اتنی سی بات ہے۔
''قدرِ زر زرگر شناست، قدرِ جوھر جوھری''
اس کا ترجمہ ہے کہ سونے کی اہمیت سنار اور ہیرے کا مقام جوہری ہی جانتا ہے"۔
بد قسمتی سے دورِ عمرانی کی تباہ کاریوں میں سب سے بڑی تباہ کاری یہ رہی کہ اس دور نے نسل نو سے اخلاق کی دولت چھین لی، وہ اخلاق جس کے بارے میں اسلام بار بار تلقین کرتا رہا۔ ہم جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں وہ اخلاق حسنہ کا عملی نمونہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دنیا کی واحد ریاست مدینہ بنائی تھی اس سے جڑا ایک ایک مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تربیت یافتہ تھا اور اخلاق حسنہ کا پیکر تھا۔
اس جیسی ریاست انسانی تاریخ میں اس سے پہلے تھی نہ قیامت تک بن سکتی ہے۔ ہمارے کچھ نامعقول سیاستدان اپنے دور کوریاست مدینہ کا نام دیتے رہے اور اس دور میں ایک ایسی نسل تیار کر ڈالی جو ناصرف بڑوں کا احترام بھول گئی بلکہ اس دور کے علماء کے گریبانوں تک پہنچ گئی۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے اس بدتمیزی کو بڑھاوا دینے میں سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور علماء کرام کے خلاف ہتک آمیز مہم کا حصہ بنتے رہے۔ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
سب سے زیادہ تنقید مولانا فضل الرحمان پر کی جاتی ہے۔ ان کا نام بگاڑنے سے لے کر ان کی کردار کشی تک، ان کے خلاف کوئی محاذ نہ چھوڑا گیا۔ اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ علماء کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور بروز حشر ان کے درجات بہت اعلیٰ و ارفع ہوں گے۔قرآن مجید میںارشاد ہے ''اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا''۔ (سورہ مجادلہ، آیت: 11)۔دوسری جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں'' اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں''(سورہ فاطر، آیت 28)۔ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے، ''اے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں''۔ (سورۃ الزمر، آیت: 9)
متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے۔بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا : جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں۔ (بخاری)ایک جگہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے، وہ میری اْمت میں سے نہیں ہے۔
(صَحیح التَّریغبِ وَالتَّرھیب : 101)ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (شعب الایمان للبیھقی، 1709)حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔
مذکورہ بالاآیات و احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے لیکن ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک ٹولے کی طرف سے عوام الناس کے دلوں میں لاکھوں علماء کے امام مولانا فضل الرحمان کی خلاف توہین آمیز مہم میں تیزی آرہی ہے۔
مولانا کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اس ملک کی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ عمران خان اس ملک میں جس ایجنڈے کو نافذ کرنے آئے تھے مولانا فضل الرحمان سب سے پہلے اس کے خلاف میدان عمل میں نکلے، پاکستان کی بڑی بڑی دینی و سیاسی جماعتوں اور قائدین مولانا کے موقف کو درست ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں، اور ان کی اقتداء میں تبدیلی سرکار کے خلاف صف بندی کی اور ملک و قوم کو اس بھیانک تبدیلی سے نجات دلائی۔
مولانا کے بارے میں ایک عالم دین کی گفتگو آپ نے پڑھ لی ، آئیے اب ایک روشن خیال، قوم پرست لیڈر میر حاصل خان بزنجو کے تاثرات بھی پڑھ لیں، وہ کہتے ہیں، ''میں نے اس وقت مولانا فضل الرحمان صاحب کو دور حاضر کا ولی اور نڈر لیڈر مان لیا تھا جب عمران خان کی طرف سے آنے والی مذاکراتی ٹیم نے کہا کہ مولانا صاحب! دھرنا ختم کرو اور بدلے میں ڈپٹی پرائم منسٹر کی سیٹ، چار وفاقی وزیر اور صوبہ خیبر پختو نخوا کی حکومت لے لیں۔ تو مولانا فضل الرحمان نے بغیر سکوت کے کہا کہ ''تمہاری ڈیل منظور نہیں، ہم اس حکومت کے خلاف اعلان جہاد کرچکے ہیں اور یہ جہاد اس حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا ''۔ مذاکراتی ٹیم کے ایک ممبر نے کہا مولانا صاحب سوچ لیں اتنی بڑی آفر دینے والا پھر کبھی نہیں ملے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ ''آفر دینے والے تو مل جائیںگے لیکن اتنی بڑی آفر کو ٹھکرانے والا کوئی نہیں ملے گا''۔اﷲ اکبر۔
مولانا فضل الرحمان صرف جمعیت کے ہی سربراہ نہیں ہیں، وہ پاکستان کے طول و ارض میں آباد ہزاروں مدارس، لاکھوں مساجد، ان مدارس و مساجد کے لاکھوں آئمہ، خطبا و مدرسین اور لاکھوں طلباء کے ناصرف امام بلکہ وارث بھی ہیں۔ مولانا صرف دیوبند مکتب فکر کے لیڈر نہیں، بریلوی اہلحدیث سمیت تمام مکاتب فکر کے نمایندہ ہیں۔
ختم نبوت تحریک کے سالار ہیں، وفاق المدارس کے سرپرست ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت خواجہ خان محمد رحمہ اللہ، عالمی تبیلغی جماعت کے سربراہ حاجی عبدالوہاب رحمہ اللہ، شیخ الحدیث والقرآن حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ، انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اللہ، مفتی زر ولی رحمہ اللہ ایسے اپنے دور کے جید علماء اور عظیم روحانی شخصیات ناصرف مولانا کی سیاسی بصیرت کے معترف تھے، بلکہ سیاست میں انھیں اپنا امیر مانتے تھے۔ انھی بزرگوں کی تربیت اور دعاؤں کی بدولت مولانا فضل الرحمان عرب و عجم کے علماء کی آنکھوں کا تارا بنے۔
دور حاضر میں جتنے بھی بڑے بڑے علماء ہیں چاہے مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی، پیر ذوالفقار نقشبندی، مولانا زاہد الراشدی، حافظ ناصر الدین خاکوانی، مولانا فضل الرحیم، قاری حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مفتی رضا الحق شاہ منصوری یا شاہ منصور کے صاحب حق صاحب، مولانا شاہ اویس نورانی، پروفیسر ساجد میر ، علماہ ساجد نقوی ہوں، تمام مکاتب فکر کے مستند جید علماء مولانا فضل الرحمان کو اپنا امام مانتے ہیں۔
لہٰذا اگر کوئی شخص کسی جلسے میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرتا ہے کہ میں مولانا کو مولانا نہیں مانتا، تو اس کے اس اعلان کی کوئی وقعت نہیں۔ مولانا کی علمی حیثیت کو منوانے کے لیے کسی یوتھئے ، جیالے، متوالے اور ان کے لیڈران کی سند کی ضرورت نہیں البتہ انھیں مولانا کے کی مستند شاگرد کی شاگردی کی ضرورت ہے تاکہ وہ دین سیکھ سکیں۔