انسانی دماغ لاشعور میں ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تحقیق
ڈیپ فیکس وہ ویڈیوز، تصاویر یا آڈیو ہوتے ہیں جو بظاہر حقیقی دِکھتےہیں لیکن اصل میں یہ کمپیوٹر سے تخلیق شدہ ہوتے ہیں
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے انسانی دماغ اپنے لاشعورمیں ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تحقیق کے بعد گمراہ کن معلومات کے پھیلنے سے روکنے کے لیے آلات بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
ڈیپ فیکس وہ ویڈیوز، تصاویر، آڈیو یا پیغام ہوتے ہیں جو بظاہر حقیقی دِکھتےہیں لیکن اصل میں یہ کمپیوٹر سے بنائے گئے ہوتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کی آراء بدلتے ہیں۔
جرنل ویژن ریسرچ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ تحقیق میں شرکاء نے ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی اور ان کے دماغ کے الیکٹرو اینسیفیلوگرافی اسکین کا استعمال کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیا گیا۔
سائنس دانوں کی ٹیم، جن میں یونیورسٹی آف سِڈنی کے سائنس دان بھی شامل ہیں، کا کہنا تھا کہ ان افراد کے دماغوں کی جانب سے ان ڈیپ فیکس کی کامیابی کے ساتھ نشان دہی کی شرح 54 فی صد تھی۔ البتہ جب پہلے ایک گروپ سے زبانی طور پر ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرائی گئی تو ان کی کامیابی کی شرح 37 فی صد تھی۔
یونیورسٹی آف سِڈنی کے تھامس کارلسن، جو تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مطالعے میں دماغ کی درستی کی شرح کم ہے لیکن یہ شماریاتی حساب سے معتبر ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ دماغ ڈیپ فیکس اور حقیقی تصاویر کے درمیان فرق کی نشان دہی کر سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سائنس دان ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس نئی تحقیق کے حوالے سے محققین کا کہنا تھا کہ حاصل ہونے والے نتائج سے گمراہ کن آن لائن کانٹینٹ کے خلاف لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈیپ فیکس وہ ویڈیوز، تصاویر، آڈیو یا پیغام ہوتے ہیں جو بظاہر حقیقی دِکھتےہیں لیکن اصل میں یہ کمپیوٹر سے بنائے گئے ہوتے ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کی آراء بدلتے ہیں۔
جرنل ویژن ریسرچ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ تحقیق میں شرکاء نے ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی اور ان کے دماغ کے الیکٹرو اینسیفیلوگرافی اسکین کا استعمال کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیا گیا۔
سائنس دانوں کی ٹیم، جن میں یونیورسٹی آف سِڈنی کے سائنس دان بھی شامل ہیں، کا کہنا تھا کہ ان افراد کے دماغوں کی جانب سے ان ڈیپ فیکس کی کامیابی کے ساتھ نشان دہی کی شرح 54 فی صد تھی۔ البتہ جب پہلے ایک گروپ سے زبانی طور پر ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرائی گئی تو ان کی کامیابی کی شرح 37 فی صد تھی۔
یونیورسٹی آف سِڈنی کے تھامس کارلسن، جو تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مطالعے میں دماغ کی درستی کی شرح کم ہے لیکن یہ شماریاتی حساب سے معتبر ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ دماغ ڈیپ فیکس اور حقیقی تصاویر کے درمیان فرق کی نشان دہی کر سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سائنس دان ڈیپ فیکس کی نشان دہی کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس نئی تحقیق کے حوالے سے محققین کا کہنا تھا کہ حاصل ہونے والے نتائج سے گمراہ کن آن لائن کانٹینٹ کے خلاف لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔