معیشت کا استحکام
زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھتی ہے
وفاقی وزیر ِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹر پر آئی ایم ایف کا اعلامیہ شیئر کیا ہے، ان کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کو ساتویں اور آٹھویں قسط کی مد میں ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز فراہم کرے گا، جب کہ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو طلب ورسد پر مبنی ایکسچینج کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا ، اس کے ساتھ مستعد مانیٹری پالیسی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی ۔عالمی مہنگائی اور اہم فیصلوں میں تاخیر سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، زائد طلب کے سبب معیشت اتنی تیز تر ہوئی کہ بیرونی ادائیگیوں میں بڑا خسارہ ہوا۔
بلاشبہ پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی امکان نہیں رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پاکستانی معیشت کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دوسری جانب گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے پر پاکستان کو عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے نہیں گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری میں آسانی ہوگی اور ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو عالمی مارکیٹ تک رسائی آسان ہوجائے گی۔ ملک کو اس وقت آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی سمیت خود مختار معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا رہا، موجودہ حکومت کا بیانیہ ہے کہ سابق حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکیج کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے سبسڈی پر کنٹرول اور ٹیکس وصولیوں میں نمایاں بہتری لانے میں ناکامی کی وجہ سے یہ معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اس کا خمیازہ ملکی معیشت کو بھگتنا پڑا، یہ بات سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ناموافق بیرونی عوامل کی موجودگی میں توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے، ٹیکسوں میں کٹوتی اور چھوٹ دینے یا روپے کی شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پرکم کرنے سے ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ ہم آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر بیرونی ذمے داریوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے یہ سب کے مفاد میں ہے کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے کم از کم ایجنڈے پر اتفاق کیا جائے۔ سری لنکا کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ پاپولسٹ اقدامات ملکی معیشت کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے بلاتاخیر آئی ایم ایف کا دروازا کھٹکھٹایا جب کہ سری لنکا دیوالیہ ہونے کے بعد بین الاقوامی ادارے کے پاس گیا۔ ہمارے بعض معاشی و اقتصادی ماہرین اور تجزیہ کارپاکستان کی معاشی صورتحال کا موازنہ سری لنکا سے کر رہے ہیں، حالانکہ سری لنکا اور پاکستان کے معاشی تقابل کا کوئی جوڑ نہیں بنتا ہے، پاکستانی معیشت کا حجم سری لنکن معیشت کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
سری لنکا کی معیشت کا تمام تر انحصار سیاحت کی صنعت پر تھا، پھر اوورسیز سری لنکنز کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ پر انحصار تھا۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے دوران دو سالہ پابندیوں نے سری لنکا کی سیاحت کو بری متاثر کیا۔ بیرون ملک سے زرمبادلہ آنا بھی کم ہوگیا، پھر روس اور یوکرین کی جنگ کے موقع پر سری لنکا کی خارجہ پالیسی وافع نہ رہی، سری لنکا امریکا اور یورپی یونین کی ہمدردی کھو بیٹھا، روس اور چین بھی کسی کام نہیں آئے جس کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت زمین بوس ہوگئی۔
پاکستان کافی حد تک اپنی غذائی ضروریات اندرون ملک سے ہی پوری کرتا ہے جب کہ سری لنکا کو خوراک بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، البتہ دونوں معیشتوں میں مشترکہ عناصر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بے ہنگم غیرملکی قرضے شامل ہیں جب کہ پاکستان میں زیادہ بڑا بل گندم اور تیل کی درآمد کا بنتا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اور چین جیسے دوست ہیں، جو مشکل وقت میں مدد کرتے ہیں جب کہ سری لنکا اس معاملے میں تہی دامن ہے ۔
پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، اس میں سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ہوئی ہے، اگر ہم دنیا کی تاریخ اور معاشی طور پر ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے سیاسی استحکام اور ریاست کے مفادات کے گرد گھومتی خارجہ پالیسی۔ وہ تمام ممالک جو سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکے۔ یور پ، امریکا، کینیڈا، روس اور چین کی مثال لیجیے اِن سب کا سیاسی نظام مستحکم ہے۔
پسماندہ اور غریب ممالک میں سیاسی اتفاق رائے اور مضبوط سیاسی نظام کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکے۔ پاکستان کو ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے منشور کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کا منشور زیادہ اہم ہے۔ سیاسی استحکام اور نتیجتاً معاشی خوشحالی کے لیے تمام اداروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست سمت بڑھنے کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع ملا ہے، چین، سعودی عرب کی پاکستانی بینکوں میں جو رقوم رکھی ہوئی ہیں، ان کے د گنا ہونے کی صورت میں حالات مزید بہتری کی طرف جائیں گے، ہمیں معاشی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ ہمارا جغرافیائی محل وقوع اور جغرافیائی اقتصادی طاقت ہمارا اثاثہ ہے اور اگر اسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہماری معاشی بحالی کے لیے تزویراتی ثابت ہوسکتا ہے۔
صنعتکاری کو فروغ دینا، جارحانہ نجکاری کا انتخاب، برآمدی اہداف میں اضافہ، غیرملکی ترسیلات زر کو چینلائز کرنا، زراعت اور زرعی کاروباروں کو فروغ دینا، خدمات کے شعبوں کو معیشت بنانا اور انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ملک کی ترقی کے لیے لازم ہے۔ تعلیم، خاص طور پر تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم، سب سے زیادہ اہم ہے اور اسے دس برس میں سوفیصد شرح خواندگی حاصل کرنے کے لیے ترجیح دی جانی چاہیے۔
بنیادی صحت کی دیکھ بھال ایک اور نظر انداز شعبہ ہے جسے ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ میں ہماری درجہ بندی کو قومی ترجیح اور فرض کے طور پر پائیدار اہداف کے حصول کے لیے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس نیک مقصد کے لیے عالمی وسائل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اپنے وسائل کی نئی تعریف اور تشکیل نو کے ساتھ معاشی ترقی کے لیے مراعات کے ذریعے معیشت بہتر بنانے کے لیے اقتصادی تبدیلی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی فریم ورک سماجی اور انسانی سرمائے کے اشاریوں کو بہتر بنا کر پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ میکرو اکنامک ٹرانسفارمیشن فریم ورک سرمایہ کاری کو فروغ دینے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ، برآمدات میں اضافہ ، توانائی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے جیسے کچھ اہم اقدامات کے گرد گھومے گا۔
پاکستان میں معیشت پر حکومت کا اختیار اور عمل داری زیادہ ہے جو ملک کی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی کا بائیس فیصد) ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور بہت سے سرکاری ادارے خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
تقریباً 200 سرکاری ادارے، پاکستان کی معیشت کا قریب 67فیصد ہیں۔ موجودہ حکومت معیشت کو متحرک کرنے اور سرکاری خزانے پر اداروں کا بوجھ کم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت اپنی اِس کوشش میں کامیاب ہوگی؟ جب تک حکومت نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری نہیں کرے گی اُس وقت تک بوجھ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے 67.5% افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سخت گرمی میں کھلے آسمان کے نیچے اور یخ بستہ سردی میں ستاروں کی روشنی میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے ملک کے لیے زرِ مبادلہ اکٹھا کر تے ہیں، ملکی صنعت کی لیے خام مال پیدا کرتے ہیں۔ زرعی پیدا وار میں اضافہ ہی ملکی معیشت کی حالت بہتر کر سکتا ہے۔
اس وقت حکومت مکمل طور پر ملکی معیشت کا سہارا IMF اور ورلڈ بینک کو مانے ہوئے ہے، لیکن اگر زراعت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تو پاکستان ہر قسم کے قرضوں سے آزاد ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے جب کہ ضرورت تیزی کی ہے تاکہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے اور آمدنی کے قومی وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے ساتھ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔ قومی ترقی اور قومی معیشت کے حجم پر بدعنوانی کا بھی گہرا اثر ہے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مستقبل کے لیے معاشی ماڈل کی وضاحت کرنے والی ایک طویل مدتی منصوبہ بندی دستاویز کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اگلے دس برس میں پاکستان کہاں ہونا چاہیے ۔
بلاشبہ پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی امکان نہیں رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پاکستانی معیشت کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دوسری جانب گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالے جانے پر پاکستان کو عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے نہیں گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری میں آسانی ہوگی اور ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو عالمی مارکیٹ تک رسائی آسان ہوجائے گی۔ ملک کو اس وقت آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی سمیت خود مختار معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا رہا، موجودہ حکومت کا بیانیہ ہے کہ سابق حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکیج کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے سبسڈی پر کنٹرول اور ٹیکس وصولیوں میں نمایاں بہتری لانے میں ناکامی کی وجہ سے یہ معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اس کا خمیازہ ملکی معیشت کو بھگتنا پڑا، یہ بات سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ناموافق بیرونی عوامل کی موجودگی میں توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے، ٹیکسوں میں کٹوتی اور چھوٹ دینے یا روپے کی شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پرکم کرنے سے ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ ہم آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر بیرونی ذمے داریوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے یہ سب کے مفاد میں ہے کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے کم از کم ایجنڈے پر اتفاق کیا جائے۔ سری لنکا کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ پاپولسٹ اقدامات ملکی معیشت کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے بلاتاخیر آئی ایم ایف کا دروازا کھٹکھٹایا جب کہ سری لنکا دیوالیہ ہونے کے بعد بین الاقوامی ادارے کے پاس گیا۔ ہمارے بعض معاشی و اقتصادی ماہرین اور تجزیہ کارپاکستان کی معاشی صورتحال کا موازنہ سری لنکا سے کر رہے ہیں، حالانکہ سری لنکا اور پاکستان کے معاشی تقابل کا کوئی جوڑ نہیں بنتا ہے، پاکستانی معیشت کا حجم سری لنکن معیشت کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
سری لنکا کی معیشت کا تمام تر انحصار سیاحت کی صنعت پر تھا، پھر اوورسیز سری لنکنز کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ پر انحصار تھا۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے دوران دو سالہ پابندیوں نے سری لنکا کی سیاحت کو بری متاثر کیا۔ بیرون ملک سے زرمبادلہ آنا بھی کم ہوگیا، پھر روس اور یوکرین کی جنگ کے موقع پر سری لنکا کی خارجہ پالیسی وافع نہ رہی، سری لنکا امریکا اور یورپی یونین کی ہمدردی کھو بیٹھا، روس اور چین بھی کسی کام نہیں آئے جس کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت زمین بوس ہوگئی۔
پاکستان کافی حد تک اپنی غذائی ضروریات اندرون ملک سے ہی پوری کرتا ہے جب کہ سری لنکا کو خوراک بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، البتہ دونوں معیشتوں میں مشترکہ عناصر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بے ہنگم غیرملکی قرضے شامل ہیں جب کہ پاکستان میں زیادہ بڑا بل گندم اور تیل کی درآمد کا بنتا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اور چین جیسے دوست ہیں، جو مشکل وقت میں مدد کرتے ہیں جب کہ سری لنکا اس معاملے میں تہی دامن ہے ۔
پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، اس میں سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ہوئی ہے، اگر ہم دنیا کی تاریخ اور معاشی طور پر ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے سیاسی استحکام اور ریاست کے مفادات کے گرد گھومتی خارجہ پالیسی۔ وہ تمام ممالک جو سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکے۔ یور پ، امریکا، کینیڈا، روس اور چین کی مثال لیجیے اِن سب کا سیاسی نظام مستحکم ہے۔
پسماندہ اور غریب ممالک میں سیاسی اتفاق رائے اور مضبوط سیاسی نظام کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکے۔ پاکستان کو ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے منشور کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کا منشور زیادہ اہم ہے۔ سیاسی استحکام اور نتیجتاً معاشی خوشحالی کے لیے تمام اداروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات درست سمت بڑھنے کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع ملا ہے، چین، سعودی عرب کی پاکستانی بینکوں میں جو رقوم رکھی ہوئی ہیں، ان کے د گنا ہونے کی صورت میں حالات مزید بہتری کی طرف جائیں گے، ہمیں معاشی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ ہمارا جغرافیائی محل وقوع اور جغرافیائی اقتصادی طاقت ہمارا اثاثہ ہے اور اگر اسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہماری معاشی بحالی کے لیے تزویراتی ثابت ہوسکتا ہے۔
صنعتکاری کو فروغ دینا، جارحانہ نجکاری کا انتخاب، برآمدی اہداف میں اضافہ، غیرملکی ترسیلات زر کو چینلائز کرنا، زراعت اور زرعی کاروباروں کو فروغ دینا، خدمات کے شعبوں کو معیشت بنانا اور انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ملک کی ترقی کے لیے لازم ہے۔ تعلیم، خاص طور پر تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم، سب سے زیادہ اہم ہے اور اسے دس برس میں سوفیصد شرح خواندگی حاصل کرنے کے لیے ترجیح دی جانی چاہیے۔
بنیادی صحت کی دیکھ بھال ایک اور نظر انداز شعبہ ہے جسے ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ میں ہماری درجہ بندی کو قومی ترجیح اور فرض کے طور پر پائیدار اہداف کے حصول کے لیے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس نیک مقصد کے لیے عالمی وسائل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اپنے وسائل کی نئی تعریف اور تشکیل نو کے ساتھ معاشی ترقی کے لیے مراعات کے ذریعے معیشت بہتر بنانے کے لیے اقتصادی تبدیلی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی فریم ورک سماجی اور انسانی سرمائے کے اشاریوں کو بہتر بنا کر پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ میکرو اکنامک ٹرانسفارمیشن فریم ورک سرمایہ کاری کو فروغ دینے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ، برآمدات میں اضافہ ، توانائی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے جیسے کچھ اہم اقدامات کے گرد گھومے گا۔
پاکستان میں معیشت پر حکومت کا اختیار اور عمل داری زیادہ ہے جو ملک کی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی کا بائیس فیصد) ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور بہت سے سرکاری ادارے خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
تقریباً 200 سرکاری ادارے، پاکستان کی معیشت کا قریب 67فیصد ہیں۔ موجودہ حکومت معیشت کو متحرک کرنے اور سرکاری خزانے پر اداروں کا بوجھ کم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت اپنی اِس کوشش میں کامیاب ہوگی؟ جب تک حکومت نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری نہیں کرے گی اُس وقت تک بوجھ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے 67.5% افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سخت گرمی میں کھلے آسمان کے نیچے اور یخ بستہ سردی میں ستاروں کی روشنی میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے ملک کے لیے زرِ مبادلہ اکٹھا کر تے ہیں، ملکی صنعت کی لیے خام مال پیدا کرتے ہیں۔ زرعی پیدا وار میں اضافہ ہی ملکی معیشت کی حالت بہتر کر سکتا ہے۔
اس وقت حکومت مکمل طور پر ملکی معیشت کا سہارا IMF اور ورلڈ بینک کو مانے ہوئے ہے، لیکن اگر زراعت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تو پاکستان ہر قسم کے قرضوں سے آزاد ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے جب کہ ضرورت تیزی کی ہے تاکہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے اور آمدنی کے قومی وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے ساتھ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔ قومی ترقی اور قومی معیشت کے حجم پر بدعنوانی کا بھی گہرا اثر ہے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مستقبل کے لیے معاشی ماڈل کی وضاحت کرنے والی ایک طویل مدتی منصوبہ بندی دستاویز کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اگلے دس برس میں پاکستان کہاں ہونا چاہیے ۔