درس عبرت
ایسا لگتا ہے کہ گویا کوئی جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے جسے پہچاننا بھی مشکل ہے
CHAK JHUMRA:
لاریب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ لاشریک ہے، رحمٰن ہے، غفور الرحیم ہے۔ اس کی اپنی مرضی ہے جسے چاہے معاف کر دے لیکن اس کا انتباہ ہے کہ شرک کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ شدید ناپسند ہے لیکن حیرت اور افسوس ہے کہ ہم بندگان خدا اس بات کا اپنی انا کے نشہ میں مست ہوکر اکثر اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ غرور اور تکبر سب سے بڑا شرک ہے کیونکہ کبریائی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تکبر اس کے سوا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ذرا اپنے قلب و ذہن کو ٹٹولیے تو معلوم ہوگا کہ ہم اکثر اس گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
حالانکہ قرآن حکیم میں فراعین کے حوالہ سے غرور و تکبر کرنے والوں کا حشر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ہم میں سے کسی کو اپنے حسن و جمال، اپنی دھن دولت کسی کو اپنے جاہ و منصب پر اور کسی کو اپنی عقل و دانش پر غرور ہوتا ہے۔غرور اور تکبر کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں۔سوال یہ ہے کہ غرور کس چیز پر کیا جائے اور کیوں کیا جائے جب کہ ہر کمال کو زوال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ غرور کا سر نیچا۔تکبر کے انجام کی بہت سی مثالیں ہیں سب سے بڑی مثال ابلیس کی ہے جسے تکبر ہی لے ڈوبا اور وہ راندہ درگاہ ہوکر ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا اور اس پر ہمیشہ لاحول بھیجی جاتی رہے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مثال نمرود کی ہے جس کے لیے ایک مچھر نے اس کی زندگی حرام کردی اور وہ تڑپ تڑپ کر اپنے کیفر کردار تک پہنچا۔
''میری کرسی بہت مضبوط ہے'' کہنے والے کا انجام بھی سب کے سامنے ہے جو نہ صرف قابل افسوس بلکہ درس عبرت بھی ہے۔
یگانہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے:
خودی کا نشہ چڑھا،آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا
سرمایہ داروں ، امراء اور رؤسا خصوصاً برسر اقتدار حکمرانوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے جو طاقت کے نشہ میں اندھے ہوکر اپنے آگے کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور جن کے آگے ملک کی عوام کی حیثیت محض کیڑے مکوڑوں سے کچھ زیادہ نہیں۔
غرور اور تکبر کے حوالہ سے میر کا کہا ہوا یادآرہا ہے:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جوآ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا احوال پڑھ کر بہت افسوس اور نہایت دکھ ہوا کہ وہ اپنی عمرعزیز کے آخری مراحل میں سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ کل کی سی بات لگتی ہے کہ جب وہ پاکستان کے بے تاج بادشاہ تھے اور خود کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے تھے اور جن کا نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا۔
ان کی طویل علالت کی تفصیلات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ وہ شخص جو کبھی نہایت دبنگ اور رعب دار تھا اب اس نحیف و نزار ہوچکا ہے کہ منہ سے آواز نکلنا بھی مشکل ہے۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور خود سے چلنا پہاڑ سا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا کوئی جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے جسے پہچاننا بھی مشکل ہے۔ سینہ زوری کی جگہ کمزوری نے لے لی ہے اور زندگی اور موت کی کشمکش شدت سے جاری ہے۔ یقین نہیںآتا کہ یہ وہی شیر ہے جس کی دھاڑ سے سب گھبراتے تھے۔
جنرل موصوف کی بیماری کوئی عام بیماری نہیں۔ یہ وہ موذی مرض ہے جو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں میں سے کسی بدقسمت شخص کو ہی لاحق ہوتا ہے اور جس کا سبب اور علاج ابھی تک کسی کو بھی معلوم نہیں۔ہمیں انسان ہونے کے ناتے جنرل صاحب سے انتہائی ہمدردی ہے اور ہم ان کے لیے دعاگو بھی ہیں۔ ہماری یہ دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غرور اور تکبر سے ہمیشہ محفوظ رکھے کیونکہ کبریا صرف اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔