سیاسی استحکام کے ثمرات۔۔۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش ایک ترقی کرتا صنعتی ملک بن گیا ہے، وہاں غربت کم ہو رہی ہے
ISLAMABAD:
آج کل پاکستانی سوشل میڈیا میں بنگلہ دیش کی روز افزوں ترقی کے چرچے ہیں اور طنز کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہو کر ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے جب کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نرغے میں ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پاکستان سے بہت زیادہ ہوگئے ہیں، بنگلہ دیشی کرنسی، پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں زیادہ قدر والی ہے۔ بنگلہ دیش ایک ترقی کرتا صنعتی ملک بن گیا ہے، وہاں غربت کم ہو رہی ہے۔ بہتر معاشی پالیسیوں کے سبب وہاں کی اکانومی مسلسل کئی دہائیوں سے 5.0 سے اوپر گروتھ ریٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی بین الاقوامی اسٹینڈنگ بہتر سے بہتر ہو رہی ہے۔
بنگلہ دیش نے کوئی ایٹم بم نہیں بنایا لیکن اس کو پاکستان کے مقابلے میں کم بیرونی خطرات در پیش ہیں۔ بنگلہ دیش نے بڑھتی آبادی کے عفریت پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ عجیب بات یہ ہے کہ طنز کرنے والے پاکستانی ہیں اور بحیثیت پاکستانی، پاکستان کی ترقی ان کا نصب العین ہونا چاہیے جس کے لیے انھیں یہ تہیہ کرنا چاہیے کہ آج کے بعد ہم نے پاکستان کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ عزم مفقود نظر آیا۔
ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سیاسی استحکام جہاں حکومتی پالیسیوں کو ضروری دوام بخشتا ہے وہاں یہ کاروبار کے حوالے سے بھی بہت مددگار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیاسی عدم استحکام ملک میں غیر یقینی کی فضا پیدا کرتا ہے جس سے معیشت کا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی روز افزوں ترقی کے لیے سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم بیگم حسینہ واجد کو حکومت کرتے ہوئے 18سال سے زیادہ ہو چلے ہیں۔
بیگم حسینہ واجد کو ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ بھی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے بانی صدر جناب شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں، کوئی انھیں غدار کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ وہ 1996 سے لے کر 2001 تک وزیرِ اعظم رہیں اور اب 2009سے مسلسل اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی چوتھی میعاد پوری کر رہی ہیں۔ اُن کے شوہر سائنسدان ہیں۔ اس بنا پر وہ بنگلہ دیش کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنی بیگم اور وزیرِ اعظم کی خاصی مدد کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کا اپنے کسی ہمسائے سے ایسا کوئی تنازعہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے دفاع پر بے پناہ اخراجات اٹھانے پڑیں۔
بنگلہ دیش اپنے قیام کی پہلی چار دہائیوں تک ایک بہت ہی غریب ملک تھا۔ 2010سے پہلے بین الاقوامی جریدے بنگلہ دیش کی معیشت کے مختلف اعشاریوں کو سامنے رکھ کر ایک انٹرنیشنل باسکٹ کیس یعنی بھکاری ملک گردانتے تھے۔ بنگلہ دیش میں کبھی فوج اقتدار سنبھال لیتی تھی اور کبھی عدلیہ سیاسی اقتدار کا مزہ لینے لگتی تھی لیکن 2009 میں برسرِاقتدار آنے کے بعد بیگم حسینہ واجد نے سیاسی، عسکری، معاشی، معاشرتی غرضیکہ ہر میدان میں کامیابی حاصل کی اور نہ صرف لانگ ٹرم پالیسیاں دیں بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا۔بنگلہ دیش میں لیبر بہت سستی ہے، محنتی اور ایماندار بھی ہے۔
ہمارے لوگوں کے مقابلے میں بنگلہ دیشی بہت دلجمعی سے کام بھی کرتے ہیں اور شور بھی نہیں مچاتے۔ اگر کوئی بنگلہ دیشی پروفشنل ہے تو اسے اپنے پروفیشن میں مہارت حاصل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے ہنر مند اپنے کام میں ماہر اور محنتی ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام ہے۔ کاروبار کے لیے موافق حالات ہیں، قوانین انوسٹمنٹ اور بزنس فرینڈلی ہیں اور محنت و لگن سے کام کرنے والی سستی لیبر موجود ہے اس لیے دوسرے ملکوں خاص کر پاکستان سے صنعتیں وہاں منتقل ہو گئی ہیں۔
بنگلہ دیش کے لوگوں کو وہاں قائم ہونے والی انڈسٹری خاص کر گارمنٹ اور فارما سوٹیکل انڈسٹری میں کام کرنے اور اپنی مہارت کو بہتر بنانے کے بہت موقع ملے ہیں۔ وہاں کی خواتین نے انڈسٹری میں بہت بڑے پیمانے پر ملازمتیں حاصل کر کے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ عام لوگوں کو روزگار ملا، اچھی تربیت ملی۔یوں غربت کم ہوئی۔ مڈل کلاس کا سائز بڑھا، لوگوں کی پرچیزینگ پاور بڑھنے کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی معیشت نے مثبت پلٹا کھایا۔ معیشت ٹیک آف کر گئی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کے استعمال کا معمولی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کو بیگم حسینہ واجد نے بھارت کے ساتھ واٹر شیئرنگ کا 30سالہ معاہدہ کر کے حل نکال لیا اور اپنی پوری توجہ معاشی ترقی کی جانب مبذول کر لی۔ بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ کشمیر جیسا کوئی تنازعہ نہیں جس کو حل کیے بغیر حالات معمول پر نہ لائے جا سکیں۔ خطے میں بھارت سب سے بڑا اور طاقتور ملک ہے۔ بنگلہ دیش نے اس حقیقت کو کھلم کھلا قبول کیا ہوا ہے۔ اس نے کبھی بھارت کو دشمن نہیں جانا بلکہ بھارت کی طرف احسان مندانہ نظروں سے ہی دیکھا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر بھارت نے علاقے اور بین الاقوامی میدان میں بنگلہ دیش کو حریف نہیں جانا۔ بھارت کو یہ یقین ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش اس کے عالمی مفادات کے خلاف نہیں جائے گا۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بنگلہ دیش کو تختہ مشق نہیں بنایا۔ بنگلہ دیش ان حالات میں پورے سکون کے ساتھ ساری توجہ معیشت کی بہتری پر مرکوز کیے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ بنگلہ دیش ایک Cohesiveاکائی ہے، سارے ملک میں ایک زبان بولی جاتی ہے، ایک ہی کلچر ہے، ایک ہی قوم ہے، قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی بنگالیوں نے اپنی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے تحریک شروع کر دی تھی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ مل گیا۔ یوں ایک مضبوط وحدت وجود میں آ گئی۔ تقریباً تمام بنگلہ دیشی مرد ایک جیسا لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ بنگالی خواتین بھی عمومی طور پر ایک ہی طرح کا لباس پہنتی ہیں۔ ایک زبان، ایک ثقافت، ایک ادب کے حامل معاشرے میں وحدت کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ ایک زبان اور ایک لباس کے ساتھ ملک کے اکثر علاقوں کی ٹوپوگرافی ایک جیسی ہے۔
رہنا سہنا اور کھانا پینا ایک طرح کا ہے۔ سارا ملک ایک جغرافیائی و سیاسی وحدت ہے۔ یہ ملک سیاسی لحاظ سے بٹا ہوا نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں کوئی صوبہ نہیں اور نہ ہی صوبے بنانے کی ڈیمانڈ ہے۔ اس لیے صوبائی خود مختاری، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا کوئی جھگڑا نہیں۔ مختلف ذرایع سے حاصل ہونے والے محاصل کی تقسیم کا بھی کوئی جھگڑا نہیں۔ بنگلہ دیش میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ہندو، عیسائی اور بودھ اقلیت میں ہیں لیکن سب بنگلادیشی اور برابر کے شہری ہیں۔ اکثریت اور اقلیت محض اعداوشمار کی حد تک ہے۔ یہ کہنے میں شاید کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ بنگلہ دیش ایک آئیڈیل سیاسی، معاشی اور معاشرتی اکائی ہے۔
چونکہ بنگلہ دیش کا کسی دوسرے پڑوسی ملک کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں اس لیے بظاہر اس کے وجود کو کوئی Existantial threat نہیں ہے۔ اسے بہت بڑی فوج اور نیوکلر ہتھیار بھی نہیں چاہیئیں۔ ایسے میں جب بھی ملک کو مخلص اور ذہین لیڈر شپ میسر آئی، سیاسی استحکام ملا اور لانگ ٹرم پالیسیاں تکمیل پانے لگیں تو ملک کی کایا پلٹ گئی،معاشرہ مضبوط ہوا اور معیشت ترقی کی راہ پر چل پڑی۔ بنگلہ دیش کو سیاسی استحکام کی ضرورت تھی جو بیگم حسینہ واجد کے دوسری بار اقتدار میں آنے سے اس ملک کو نصیب ہو گیا۔
سیاسی استحکام حاصل ہوتے ہی دنیا بھر سے بزنس مینوں اور صنعت کاروں نے بنگلہ دیش کا رخ کر لیا اور تھوڑے ہی عرصے میں بہت بڑی صنعت پیدا ہو گئی۔ بزنس مین اور صنعت کار کو پیسہ کمانے اور اپنی من چاہی جگہ پر منتقل کرنے سے غرض ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں یہ سہولت موجود ہے۔پاکستان کے حالات، تنازعات، جغرافیہ، کلچر،ثقافت اور سیاست اس کو ایک مضبوط وحدت نہیںبننے دیتی۔ اگر کبھی ہم ایک ملی وحدت بن جائیں تو ہم بھی بہت تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں، خدا کرے جلد ایسا ہو جائے۔