ڈوبتا شہر

کراچی کی 70 فیصد ڈیفنس اور کلفٹن کی زمین کو 13کنٹونمنٹ بورڈ بھی ڈوبنے سے بچا سکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں

Warza10@hotmail.com

آج میں اپنے پرانے صحافی ساتھی اور حساس جذبے رکھنے کے جرم میں مبتلا پیرزادہ سلمان کے شہر کی تباہی و بربادی کے دکھوں کے سنگ چلنا چاہتا ہوں، اس کا بانھ بیلی بن کر اس کی جانب سے رپورٹ کردہ حسن ظفر کی نظم سے اس شہر کے ابتلا و مصائب کے چند دریچے کھولنا چاہتا ہوں، نظم کہتی ہے کہ ؎

حکمرانوں کا قہر و غضب کا نشان

تیرے سر پر نہیں اب کوئی سائبان

کون دیکھے بھلا تیری محرومیاں

بس بہت ہو چکا میری جان ڈوب جا

اے کراچی میری جان جاں ڈوب جا

اس شہر نا پرساں کا نوحہ لکھتے لکھتے انگلیاں فگار ہو رہی ہیں، صفحے پر منتقل تحریر بے اثر ہوتی جا رہی ہے، مگر مجال کے ملک کے حکمرانوں کے کان پر جوں رینگ جائے، افراد بلک رہے ہیں، روڈ رستے کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔


شہریوں کی آہ وبکا کو بڑ کی آواز سمجھا جا رہا ہے، صحافی، رپورٹر اور لکھاری اپنے رمز پر خود کو بے وقعت سا سمجھ رہے ہیں تو برکھا سہانے موسم کی راگنی دیتے دیتے افراد کے ناگہانی ڈوبنے سے لہو رنگ ہو رہی ہے، جب کہ دوسری جانب حکمرانوں کے اعلیٰ ترین طبقے کی بھاری بھرکم گاڑیاں برسات کے پانی کو چیرتی بے حسی مانند عوام کا مذاق اڑاتی گذر رہی ہیں، جب کہ فوٹو سیشن کے طلبگار ذمے داران اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیاستدان اپنی کارکردگی کی وڈیو بنا رہے ہیں تو کہیں قومیت کی چادر میں شہر کو لپیٹ کر پریس کانفرنس میں اپنی لوٹنے کھسوٹنے کی داستان کو ''بے بسی''اور الزام تراشی کے ذریعے خود کو مظلوم کہا جارہا ہے۔

کراچی کی 70 فیصد ڈیفنس اور کلفٹن کی زمین کو 13کنٹونمنٹ بورڈ بھی ڈوبنے سے بچا سکنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں جب کہ شہر کے برساتی نالوں اور نکاسی آب کا بلدیاتی نظام جگہ جگہ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا منہ چڑا رہا ہے،دوسری جانب قربانی کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کی سردمہری صحت کے ممکنہ مسائل پیدا کرنے کے لیے منہ پھاڑے کھڑی ہے اور اس ناپرساں شہر کے ذمے داران اسے ڈوبنے سے بچانے میں بے دست و پا کھڑے ہونقوں کی مانند ایک دوسرے کا صرف منہ تک رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آج کے اس ''شہر نا پرساں''کو عالمی طور سے قیام پاکستان سے پہلے پارسی میئر کراچی جمشید نوسروانجی نے عالمی طور سے صاف ستھرا اور بہترین بلدیاتی نظام کا شہر بنا دیا تھا،تو کیا وجہ ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی دن رات محنت کے طفیل ''روشنیوں کے شہر''،کو 75 برس بعد اندھیروں کا شہر اور ناقص بلدیاتی نظام کا مسکن کر دیا گیا ہے،اس کی وجوہات میں سب سے اہم غیر جمہوری آمرانہ نظام اور جنرل ایوب کی وہ عوام دشمن پالیسیاں ہیں جن کو برقرار رکھنے میں بعد والوں نے اپنا مجرمانہ حصہ ڈالا اور اس روشنیوں اور بہترین بلدیات کے نظام کو اپنے مفاد کے لیے تہس نہس کیا۔

تقسیم کے چند سال بعد ہی عوام کے جمہوری حقوق پر شب خون مارنے والے آمر ایوب خان کے عوام دشمن اقتدار نے سب سے پہلے کراچی کی جمہوری سوچ اور سوشلسٹ تحریک کو کچلنے کے لیے منصوبہ بند دارالحکومت کو گروہی مقاصد کے تحت اسلام آباد منتقل کیا تاکہ جمہوری آزادی کی تحریکوں کو پسپا کیا جائے اور اس کے بعد آمر ایوب خان نے اس جمہوری شہر کے بلدیاتی نظام کو ''بی ڈی'' نظام کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہا،جس نے فطرتی بہاؤ کے برساتی نالوں ،گجر،محمود آباد، اورنگی اور قیوم آبادکے نالوں میں سیوریج کے گندے نالوں کو ضم کیا اور ان کی صفائی کے بہانے مفاداتی ٹھیکے دیے۔

جنھوں نے کراچی کے بلدیاتی منصوبوں کو ناکام بنا کر پورے بلدیاتی نظام اور برساتی نالوں پر ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت قبضے کروائے اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کروا کر بلڈرز کے مفاداتی مقاصد کو پورا کیا۔ بلدیاتی نظام اور بجلی کے بہترین نظام کی بدولت عالمی پہچان بنانے والے ان اداروں کو آمر جنرل ضیا نے اپنے غیر جمہوری مقاصد کے حصول واسطے اس شہر کے جمہوری نظام اور مشترکہ جمہوری سوچ میں ''قومیت''کا زہر داخل کیا اور متحدہ کو استعمال کرکے کراچی کے برساتی نالوں اور نکاسی آب کے منصوبوں کی زمینوں پر اپنی اتحادی جماعت ''متحدہ'' ذریعے کھیل کے معروف میدانوں پر قبضے کروائے اور کراچی کے ماسٹر پلان کو تہس نہس کرنے کے لیے ''چائنا کٹنگ''کا نیا ٹرینڈ متعارف کروا کر پورے بلدیاتی نظام کو ''طاقت''کی بنیاد پر کھڑا کیا اور نہ صرف کراچی کا پورا بلدیاتی نظام برباد کیا بلکہ بجلی کی بہترین ترسیل اور ماسٹر پلان کو نیست و نابود کرنے کے لیے طاقت کی بنیاد پر بجلی کے بہترین نظام کو نجی کمپنی کے حوالے کیا۔

جس نے آج تک وعدے کے مطابق نہ کراچی کی ضرورت کی بجلی پیدا کی اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے کی جانب کوئی کام کیا،بلکہ بجلی فراہم کرنے والے عالمی طور سے مانے جانے والے ادارے کے تانبے کی تار کو سلور میں تبدیل کرکے اربوں روپے کے تاروں کو بیچا گیا اور آج تک اس ترقی یافتہ شہر کے واسی لوڈ شیڈنگ اور ناقص نظام کی وجہ سے بجلی کی آسان ترسیل سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کے ہم سب کے،پیرزادہ سلمان اور میری نسل کے اس شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کے مطالبے پر بھی کیا پروین رحمان کی مانند دن دہاڑے قتل ہونا پڑے گا،پروین کا قصور یہی تو تھا نا کہ وہ چاہتی تھی کہ دریائے سندھ اور حب ریور سے 65کروڑ گیلن آنے والا پینے کا پانی کراچی کو ملنا چاہیے،اس نے یہی تو کہا تھا نا کہ کراچی کو ملنے والے 41% پانی پر با اثر مافیا قابض ہیں،جو پانی بیچ کر کراچی کے عوام کے حق کو حکمرانوں کے ساتھ مل کر کھا رہا ہے اور یہ کہ لینڈ مافیا دراصل حکومتی اہلکار ہیں ۔

میرے،پیرزادہ سلمان اور پروین رحمان کے دکھوں کا مداوا کرنے میں نجانے سندھ حکومت اور قوم پرست اتحادی جماعت کیوں لیت و لعل کا شکار ہیں،شاید اس کی وجہ سیاسی مفادات ہو مگر سب کے اس جمہوری شہر کو ڈوبنے اور بہتر بلدیاتی نظام دینے سے کیوں قاصر ہیں،یہ وہ گتھی ہے جس کاجواب اس شہر کے جمہوری ذہن عوام ضرور جاننا چاہتے ہیں۔
Load Next Story