جھوٹے وعدے جھوٹی تسلیاں
حصول اقتدار کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا
کراچی:
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ایران کا بادشاہ ارطغرل ایک مرتبہ موسم سرما کی سرد ترین رات میں کسی کام کے سلسلے میں اپنے محل سے باہر نکلا تو اس بادشاہ نے دیکھا کہ محل کے مرکزی دروازے پر ایک حبشی پہرے دار سخت سردی کے باعث کانپ رہا ہے۔
بادشاہ نے جب اس پہرے دار کو اس کیفیت میں دیکھا تو اس بادشاہ کو اس حبشی پہرے دار پر رحم آ گیا، تب بادشاہ نے اس پہرے دار سے کہا ''تم پریشان نہ ہو، میں ابھی تمہارے لیے پوستین بھیجتا ہوں، جوکہ تجھے سردی سے محفوظ رکھے گی'' یہ کہہ کر بادشاہ محل میں واپس آگیا اور پہرے دار سے کیا ہوا پوستین بھیجنے کا وعدہ بھول گیا۔ دوسری جانب حبشی پہرے دار دہرے عذاب میں مبتلا ہو گیا ایک سردی دوسری انتظار کی اذیت۔ اب وہ پہرے دار سوچنے لگا کہ بادشاہ خود تو جا کر گرم بستر میں سو گیا میں اگرچہ پہلے ہی سردی سے پریشان تھا کہ بادشاہ نے ایک اور اذیت انتظار کی بھی دے دی۔
شیخ سعدی اس حکایت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ جو مسافر اپنے خیموں میں آرام کر رہے ہوں، انھیں اپنے ان دوستوں کی کیا فکر جو ابھی سفر کی تکلیف برداشت کر رہے ہوں، اے کشتی والے تو کھڑا رہ کہ پانی کمزوروں کے سر سے گزر گیا۔ اے قافلے کے چست سوارو! آرام سے چلو کہ قافلے میں بوڑھے وکمزور بھی محو سفر ہیں، جو پیدل چل رہا ہے اس کی تکلیف کا اندازہ اونٹ پر سوار کو کیسے ہو سکتا ہے، جو شب کھلے آسمان کے نیچے بسر کرتے ہیں ،سرد راتوں میں ان کی تکلیف کا اندازہ گھر میں گرم بستروں میں سونے والوں کو کیسے ہو سکتا ہے۔
شیخ سعدیؒ نصیحت کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ پس یاد رکھو کہ اگر تم کسی کو مصیبت کا ازالہ کرنے کی کوشش کرو، محض جھوٹے وعدوں سے اس کو تسلی نہ دو کہ پھر اسے دہری اذیت کا سامنا کرنا ہوگا، ایک تو وہ پہلے ہی مصیبت میں مبتلا ہے دوسرا تم اسے جھوٹی تسلیاں دے کر اس کی تکلیف کو مزید بڑھا رہے ہو۔ شیخ سعدیؒ کی اس حکایت کو پڑھ کر اگر ہم کوئی سبق آموز بات کرنا چاہیں تو دو باتیں معلوم ہوں گی۔
اول وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو، اسے دوسرے کی تکلیف کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تکلیف میں مبتلا شخص کس کرب سے گزر رہا ہے دوم یہ کہ اگر ایک انسان دوسرے انسان کے برے وقتوں میں کام نہیں آ سکتا تو بھی احسن طریقے سے معذرت کرلے، یہ چھوٹی تکلیف ہوگی، جوکہ کسی کو جھوٹی تسلی دے کر ایک انسان دوسرے کسی انسان کو دیتا ہے، جھوٹی تسلیاں دینا یا جھوٹے وعدے تو ہمارے سماج میں عام سی بات ہے بلکہ اب تو یہ عمل روایت بن چکا ہے -
اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں قتل کردیا گیا اور حصول اقتدار کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔پاکستان کی اولین اپوزیشن جماعت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی، اقتدار کی یہ رسہ کشی کی جنگ آج بھی جاری ہے۔پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ قیام پاکستان سے عصر حاضر تک 23 وزرائے اعظم آئے یا دوسرے الفاظ میں منتخب ہوئے، مگر اولین وزیر اعظم سے لے کر آج تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکا جب کہ ان 23 وزرا ئے اعظم کے علاوہ چھ نگران وزرا اعظم بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے جب کہ موجودہ صدر پاکستان عارف علوی سمیت 13 صدور بھی مسند اقتدار کی زینت بنے۔
اگر حکمرانوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو پاکستان مسلم لیگ کے 17 وزرائے اعظم نے اس ملک پر حکومت کی اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا تعلق بھی پاکستان مسلم لیگ سے بلکہ شریف خاندان وہ خاندان ہے جس خاندان کو چار بار وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل ہوا، مزید یہ کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ شریف خاندان کو سات بار نصیب ہوئی۔
پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ میاں حمزہ شہباز بھی شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ موجودہ وزیر اعظم پاکستان کے صاحب زادے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ وزرا ئے اعظم نے اس ملک کا نظم و نسق سنبھالا ،اس کے ساتھ ساتھ اس سیاسی جماعت کے بھی چھ وزرا اعلیٰ نے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ پر حکمرانی کی، جب کہ 14 برس سے اسی سیاسی جماعت کی مسلسل حکومت جاری ہے جب کہ ایک بار عمران خان جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے نے اس وطن پر حکومت کی، عمران خان صاحب کی حکومت ابھی برطرف ہوئے تین ماہ کا عرصہ ہوا ہے چنانچہ اس جماعت و خان صاحب کی حکومت کی کارکردگی ہم سب کے سامنے ہے، اس حکومت کے بارے میں ہر کوئی اپنی اچھی یا بری رائے قائم کرسکتا ہے۔
خوش نصیبی یہ ہے کہ اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے تمام قسم کی نباتات و تمام قسم کی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ ان وسائل کی عدم مساوات کی تقسیم کے باعث چند خاندان ان وسائل پر قابض ہیں یوں کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ ملک کی اکثریت عوام زیادہ تر مسائل کا شکار ہیں ان مسائل میں اول مسئلہ ہے روزگاری کا، وطن عزیز میں پہلے ہی روزگار کے مواقع کم ہیں مگر موجودہ سیاسی بے یقینی کی صورت حال میں روزگار کے مواقع مزید کم ہو رہے ہیں۔
بڑی چھوٹی انڈسٹریز تواتر کے ساتھ مسلسل بند ہو رہی ہیں اور سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل ہو رہا ہے، خدشہ یہ ہے کہ آیندہ چند مہینوں میں بے روزگاری کا مسئلہ ایک بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے دوم مسئلہ ہے روز بروز اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا۔ حد تو یہ ہے کہ اب خور و نوش کی اکثر اشیا ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ سوم مسئلہ ہے تعلیم کا۔ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں ملک کی اکثریت آبادی اپنے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے سے قاصر ہے۔ یوں بھی نجی شعبے میں دیے جانے کے بعد حصول تعلیم مشکل تر مرحلہ بن چکا ہے۔
چہارم مسئلہ ہے علاج کی سہولیات کا۔ اس شعبے کی کیفیت بھی حصول تعلیم جیسی ہے کیونکہ اس شعبے کو بھی نج کاری کے عمل کے باعث عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے یوں تو سرکاری شعبہ بھی علاج کی سہولیات فراہم کر رہا ہے مگر ملک کی دیہی آبادی سرکاری طور پر علاج کی سہولیات سے ہنوز محروم ہے۔
باعث تشویش امر یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہماری ملکی سیاست میں عمل دخل ہے اس طبقے کے لوگوں کو عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہی نہیں کیونکہ اس طبقے کے لوگوں کا نہ تو ان مسائل سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہ مراعات یافتہ طبقہ ان مسائل سے دوچار ہے۔ موجودہ کیفیت یہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہا ہے، جھوٹے وعدے کر رہا ہے ، گویا عوام کو دو طرح کی اذیت کا شکار کردیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ وعدے ہیں جنھیں کسی بھی صورت میں موجودہ حالات میں پورا نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر یہ حکمران اپنے یہ وعدے پورے کرنے کا عزم رکھتے ہیں پھر انھیں اپنی حاصل تمام مراعات واپس کرنا ہوں گی تمام غیر ترقیاتی منصوبے ختم کرنا ہوں گے۔
وزیر اعظم سمیت تمام وزرا کو تمام غیر ملکی دورے ختم کرنا ہوں گے تمام قسم کی بدعنوانی کو ختم کرنا ہوگا، قانون کی بالادستی کو مکمل نافذ کرنا ہوگا۔ یہ تمام کام ہو سکتے ہیں مگر موجودہ حالات میں لازمی بات ہے یہ سب ناممکنات میں سے ہے۔ ان تمام حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ ایسی سیاسی قیادت سامنے لائیں جوکہ عوام کے مسائل سے آگاہ بھی ہو، عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، جو خود بھی ان مسائل سے دوچار ہو، جو نہ تو جھوٹے وعدے کرے نہ جھوٹی تسلیاں دے کیونکہ یہ جھوٹی تسلیاں و جھوٹے وعدے مسائل سے دوچار عوام کو مزید اذیت سے دوچار کر دیتے ہیں۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ایران کا بادشاہ ارطغرل ایک مرتبہ موسم سرما کی سرد ترین رات میں کسی کام کے سلسلے میں اپنے محل سے باہر نکلا تو اس بادشاہ نے دیکھا کہ محل کے مرکزی دروازے پر ایک حبشی پہرے دار سخت سردی کے باعث کانپ رہا ہے۔
بادشاہ نے جب اس پہرے دار کو اس کیفیت میں دیکھا تو اس بادشاہ کو اس حبشی پہرے دار پر رحم آ گیا، تب بادشاہ نے اس پہرے دار سے کہا ''تم پریشان نہ ہو، میں ابھی تمہارے لیے پوستین بھیجتا ہوں، جوکہ تجھے سردی سے محفوظ رکھے گی'' یہ کہہ کر بادشاہ محل میں واپس آگیا اور پہرے دار سے کیا ہوا پوستین بھیجنے کا وعدہ بھول گیا۔ دوسری جانب حبشی پہرے دار دہرے عذاب میں مبتلا ہو گیا ایک سردی دوسری انتظار کی اذیت۔ اب وہ پہرے دار سوچنے لگا کہ بادشاہ خود تو جا کر گرم بستر میں سو گیا میں اگرچہ پہلے ہی سردی سے پریشان تھا کہ بادشاہ نے ایک اور اذیت انتظار کی بھی دے دی۔
شیخ سعدی اس حکایت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ جو مسافر اپنے خیموں میں آرام کر رہے ہوں، انھیں اپنے ان دوستوں کی کیا فکر جو ابھی سفر کی تکلیف برداشت کر رہے ہوں، اے کشتی والے تو کھڑا رہ کہ پانی کمزوروں کے سر سے گزر گیا۔ اے قافلے کے چست سوارو! آرام سے چلو کہ قافلے میں بوڑھے وکمزور بھی محو سفر ہیں، جو پیدل چل رہا ہے اس کی تکلیف کا اندازہ اونٹ پر سوار کو کیسے ہو سکتا ہے، جو شب کھلے آسمان کے نیچے بسر کرتے ہیں ،سرد راتوں میں ان کی تکلیف کا اندازہ گھر میں گرم بستروں میں سونے والوں کو کیسے ہو سکتا ہے۔
شیخ سعدیؒ نصیحت کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ پس یاد رکھو کہ اگر تم کسی کو مصیبت کا ازالہ کرنے کی کوشش کرو، محض جھوٹے وعدوں سے اس کو تسلی نہ دو کہ پھر اسے دہری اذیت کا سامنا کرنا ہوگا، ایک تو وہ پہلے ہی مصیبت میں مبتلا ہے دوسرا تم اسے جھوٹی تسلیاں دے کر اس کی تکلیف کو مزید بڑھا رہے ہو۔ شیخ سعدیؒ کی اس حکایت کو پڑھ کر اگر ہم کوئی سبق آموز بات کرنا چاہیں تو دو باتیں معلوم ہوں گی۔
اول وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو، اسے دوسرے کی تکلیف کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تکلیف میں مبتلا شخص کس کرب سے گزر رہا ہے دوم یہ کہ اگر ایک انسان دوسرے انسان کے برے وقتوں میں کام نہیں آ سکتا تو بھی احسن طریقے سے معذرت کرلے، یہ چھوٹی تکلیف ہوگی، جوکہ کسی کو جھوٹی تسلی دے کر ایک انسان دوسرے کسی انسان کو دیتا ہے، جھوٹی تسلیاں دینا یا جھوٹے وعدے تو ہمارے سماج میں عام سی بات ہے بلکہ اب تو یہ عمل روایت بن چکا ہے -
اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں قتل کردیا گیا اور حصول اقتدار کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔پاکستان کی اولین اپوزیشن جماعت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی، اقتدار کی یہ رسہ کشی کی جنگ آج بھی جاری ہے۔پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ قیام پاکستان سے عصر حاضر تک 23 وزرائے اعظم آئے یا دوسرے الفاظ میں منتخب ہوئے، مگر اولین وزیر اعظم سے لے کر آج تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کرسکا جب کہ ان 23 وزرا ئے اعظم کے علاوہ چھ نگران وزرا اعظم بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے جب کہ موجودہ صدر پاکستان عارف علوی سمیت 13 صدور بھی مسند اقتدار کی زینت بنے۔
اگر حکمرانوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو پاکستان مسلم لیگ کے 17 وزرائے اعظم نے اس ملک پر حکومت کی اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا تعلق بھی پاکستان مسلم لیگ سے بلکہ شریف خاندان وہ خاندان ہے جس خاندان کو چار بار وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل ہوا، مزید یہ کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ شریف خاندان کو سات بار نصیب ہوئی۔
پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ میاں حمزہ شہباز بھی شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ موجودہ وزیر اعظم پاکستان کے صاحب زادے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ وزرا ئے اعظم نے اس ملک کا نظم و نسق سنبھالا ،اس کے ساتھ ساتھ اس سیاسی جماعت کے بھی چھ وزرا اعلیٰ نے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ پر حکمرانی کی، جب کہ 14 برس سے اسی سیاسی جماعت کی مسلسل حکومت جاری ہے جب کہ ایک بار عمران خان جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے نے اس وطن پر حکومت کی، عمران خان صاحب کی حکومت ابھی برطرف ہوئے تین ماہ کا عرصہ ہوا ہے چنانچہ اس جماعت و خان صاحب کی حکومت کی کارکردگی ہم سب کے سامنے ہے، اس حکومت کے بارے میں ہر کوئی اپنی اچھی یا بری رائے قائم کرسکتا ہے۔
خوش نصیبی یہ ہے کہ اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے تمام قسم کی نباتات و تمام قسم کی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ ان وسائل کی عدم مساوات کی تقسیم کے باعث چند خاندان ان وسائل پر قابض ہیں یوں کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ ملک کی اکثریت عوام زیادہ تر مسائل کا شکار ہیں ان مسائل میں اول مسئلہ ہے روزگاری کا، وطن عزیز میں پہلے ہی روزگار کے مواقع کم ہیں مگر موجودہ سیاسی بے یقینی کی صورت حال میں روزگار کے مواقع مزید کم ہو رہے ہیں۔
بڑی چھوٹی انڈسٹریز تواتر کے ساتھ مسلسل بند ہو رہی ہیں اور سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل ہو رہا ہے، خدشہ یہ ہے کہ آیندہ چند مہینوں میں بے روزگاری کا مسئلہ ایک بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے دوم مسئلہ ہے روز بروز اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا۔ حد تو یہ ہے کہ اب خور و نوش کی اکثر اشیا ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ سوم مسئلہ ہے تعلیم کا۔ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں ملک کی اکثریت آبادی اپنے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے سے قاصر ہے۔ یوں بھی نجی شعبے میں دیے جانے کے بعد حصول تعلیم مشکل تر مرحلہ بن چکا ہے۔
چہارم مسئلہ ہے علاج کی سہولیات کا۔ اس شعبے کی کیفیت بھی حصول تعلیم جیسی ہے کیونکہ اس شعبے کو بھی نج کاری کے عمل کے باعث عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے یوں تو سرکاری شعبہ بھی علاج کی سہولیات فراہم کر رہا ہے مگر ملک کی دیہی آبادی سرکاری طور پر علاج کی سہولیات سے ہنوز محروم ہے۔
باعث تشویش امر یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہماری ملکی سیاست میں عمل دخل ہے اس طبقے کے لوگوں کو عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہی نہیں کیونکہ اس طبقے کے لوگوں کا نہ تو ان مسائل سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہ مراعات یافتہ طبقہ ان مسائل سے دوچار ہے۔ موجودہ کیفیت یہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہا ہے، جھوٹے وعدے کر رہا ہے ، گویا عوام کو دو طرح کی اذیت کا شکار کردیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ وعدے ہیں جنھیں کسی بھی صورت میں موجودہ حالات میں پورا نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر یہ حکمران اپنے یہ وعدے پورے کرنے کا عزم رکھتے ہیں پھر انھیں اپنی حاصل تمام مراعات واپس کرنا ہوں گی تمام غیر ترقیاتی منصوبے ختم کرنا ہوں گے۔
وزیر اعظم سمیت تمام وزرا کو تمام غیر ملکی دورے ختم کرنا ہوں گے تمام قسم کی بدعنوانی کو ختم کرنا ہوگا، قانون کی بالادستی کو مکمل نافذ کرنا ہوگا۔ یہ تمام کام ہو سکتے ہیں مگر موجودہ حالات میں لازمی بات ہے یہ سب ناممکنات میں سے ہے۔ ان تمام حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ ایسی سیاسی قیادت سامنے لائیں جوکہ عوام کے مسائل سے آگاہ بھی ہو، عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، جو خود بھی ان مسائل سے دوچار ہو، جو نہ تو جھوٹے وعدے کرے نہ جھوٹی تسلیاں دے کیونکہ یہ جھوٹی تسلیاں و جھوٹے وعدے مسائل سے دوچار عوام کو مزید اذیت سے دوچار کر دیتے ہیں۔