عذرِ گناہ۔۔۔

ہر شخص کے سامنے صرف اپنا مقصد ہے اور وہ اسے ہر صورت حاصل کرنا چاہتا ہے

mjgoher@yahoo.com

مکان کی تعمیر کا آغاز بنیاد سے ہوتا ہے۔ ایک انجینئر کو اگر ''اسکائی اسکریپر'' بنانا ہو تب بھی وہ بنیاد ہی سے آغاز کرے گا۔ بنیاد سے ابتدا کرنا دوسرے الفاظ میں اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہے اور وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے وہ اپنے سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ یہاں ایک طرف قدرت ہے جو ہم انسانوں سے الگ خود اپنے قوانین پر قائم ہے۔ دوسری طرف سارے انسان ہیں۔

ان میں ہر شخص کے سامنے صرف اپنا مقصد ہے اور وہ اسے ہر صورت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں لازم ہے کہ ہم ان حقیقتوں کو جانیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے ''ہے'' کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے ''نہیں'' سے بھی واقف ہے۔ وہ ایک طرف اگر یہ چاہتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اس کے ساتھ وہ اس حقیقت سے بھی باخبر ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ وہ آغاز اور انجام کے فرق کو جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اسے اپنا پہلا قدم کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے آپ کو پہچانا چاہتا ہے۔ اعتراف بزدلی نہیں بلکہ سب سے بڑی بہادری ہے۔ اعتراف کرکے آدمی بے عزت نہیں ہوتا بلکہ وہ عزت کے سب سے بلند مقام کو پا لیتا ہے۔

جو شخص اعتراف نہ کرے وہ گویا فرضی خیالات میں جی رہا ہے اس کے برعکس جو شخص اعتراف کرے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس نے فرضی تخیلات کے طلسم کو توڑ دیا ہے اور وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ چیزوں کو اصل صورت میں دیکھنا دانش مندی کی علامت ہے جس آدمی میں یہ صلاحیت نہ ہو وہ یا تو اپنا سفر شروع نہ کرسکے گا اور اگر سفر شروع ہو گیا تب بھی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا، وہ کبھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا، اس کا سفر ادھورا ہی رہ جائے گا۔

آدمی ایک مکمل مجموعہ ہے۔ جیسے برتن کا پانی ایک مکمل مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی آدمی سے ایک کمزوری ظاہر ہو تو وہ اس کی شخصیت کا انفرادی یا استثنائی واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ اس کی پوری شخصیت کا اظہار ہوگا۔ وہ ایک عکس ہوگا جس میں اس کی پوری شخصیت جھلک رہی ہوگی۔ کوئی آدمی اگر کسی معاملے میں کمزور ثابت ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ہر معاملے میں کمزور ہے۔ آدمی ایک معاملے میں ناقابل اعتماد ثابت ہونے کے بعد ہر معاملے میں اپنے آپ کو ناقابل اعتماد ثابت کردیتا ہے۔ اس کلیہ میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ اس انسان کا ہے جو اپنا محاسبہ کرتا ہو۔ جس کے اندر احتساب کی صلاحیت زندہ ہو۔


جو بار بار اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہو کہ اس نے کب کہاں کیا صحیح کیا ہے اور کیا غلط کیا ہے۔ اس کی زبان نے کس موقع پر انصاف و حق کی بات بولی اور کس موقع پر وہ انصاف سے ہٹ گئی۔ ایک شخص تجربے میں غلط ثابت ہو۔

اس کے بعد اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ آپ سے معافی مانگے تو سمجھ لیجیے کہ وہ صحیح انسان ہے۔ وہ غلطی کرکے اس کی تصحیح کرنا جانتا ہے، مگر جس کا حال یہ ہو کہ اس سے قول یا فعل کی غلطی صادر ہو اس کے بعد بھی اس کا ضمیر اسے نہ تڑپائے۔ اس کے اندر خود احتسابی کا جذبہ بیدار نہ ہو، اس کی زبان اپنے غلط عمل پر معافی مانگنے پر آمادہ نہ ہو تو ایسا انسان بالکل بے قیمت ہے۔ وہ اس قابل نہیں ہو سکتا کہ اس پر کسی بھی معاملے میں بھروسہ کیا جائے۔

اس پر کلی اعتبار کرکے اہم ذمے داریاں اس کے حوالے کردی جائیں۔ آدمی اگر اپنی غلطی نہ مانے تو وہ ہمیشہ دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دوسروں کو برا ظاہر کرکے اپنی برائیوں، خامیوں اور کمزوریوں و کوتاہیوں پر پردہ ڈال سکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، لغزشوں، خطاؤں اور کمزوریوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ ہم بغیر ٹھوس منصوبہ بندی کے اور بنیادی عوامل کا ادراک کیے بغیر اپنے سفر کا آغاز کردیتے ہیں۔ ذہن میں ایک مقصد کا صرف حصول ہوتا ہے۔

اس کے پیش منظر اور پس منظر سے کماحقہ آگاہی نہیں رکھتے۔ ہمارے ارباب اختیار اور قوم کی رہنمائی کے دعویدار اس عمل میں یکتا و یگانہ ہیں۔ قومی زندگی کے نمایاں ادارے کہ جن کے کاندھوں پر ملک و قوم کو ہر قسم کے بحرانوں، مشکلات اور مسائل سے بحفاظت نکال کر درست سمت میں آگے بڑھانے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ان کی اجتماعی کارکردگی 75 سال گزرنے کے بعد آج بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ جمہوریت سے لے کر سیاست تک، ایوان عدل سے لے کر ایوان نمایندگان تک اور ایوان حرب سے لے کر ایوان تجارت و معیشت تک ہر شعبے کے ذمے داران اپنی خامیوں، کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کا اعتراف کرنے سے گریزاں اور حالات کی خرابی کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

کسی ادارے میں خود احتسابی کی درخشاں صلاحیت نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی تابندہ مثال دی جاسکتی ہے۔ سقوط بنگال کے دل خراش سانحے کا کون ذمے دار ہے؟ بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر کی شہادت کس کے نامہ اعمال میں لکھی جائے؟ سیاست دانوں کی نااہلیاں اور ایوان عدل کے نظریہ ضرورت کے فلسفے کا بوجھ کون اٹھائے گا؟ معیشت کی تباہی، قومی وسائل کی لوٹ مار اور عوام کی زندگی کی تباہی و بربادی کا کون ذمے دار ہے؟ کس میں جرأت اظہار ہے، کون آگے بڑھ کر جمہوریت پر شب خون مارنے کا اعتراف کرے گا؟ ہر سوال سے جڑے کئی ضمنی سوالات ہیں۔ جواب کون دے گا؟ سچائی کون قبول کرے گا! الزامات کا باب کون ختم کرے گا؟ یہاں ہر شخص کی دلیل ''عذرِ گناہ بدتر از گناہ'' کے مصداق ہے۔
Load Next Story