میڈیا صحافت اور حقیقت
میں اس موضوع پرلکھنےسےپہلےایک بات لکھناضروری سمجھتاہوں کہ میڈیامیراشوق ہے،صحافت میرامشن ہے، حقیقت میرامقصدہے...
میں اس موضوع پر لکھنے سے پہلے ایک بات لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میڈیا میرا شوق ہے، صحافت میرا مشن ہے، حقیقت میرا مقصد ہے۔ اب کوئی اس بات سے اتفاق کرے یا اختلاف۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میڈیا اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک صحافی نہ ہو اور صحافی اس وقت تک اپنی آواز نہیں اٹھا سکتے جب تک میڈیا نہ ہو۔ میڈیا اور صحافت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کا مقصد حقیقت بیان کرنا ہے۔ یہ بات لکھنا میرے لئے مشکل ہے کہ میڈیا اور صحافیوں کو آج کے جدید دور میں بھی حقیقت اور سچ لکھنے پر کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں تو صحافی کو جری اور بہادر مجاہد بھی کہتا ہوں اگر کوئی صحافی سچ اور حق کیلئے قلم اٹھاتا ہے یا آواز بلند کرتا ہے وہ غیر جانبدار ہے، اگر اس کا مقصد حقیقت بیان کرنا ہے تو اس کا شمار مجاہدوں کی صفوں میں ہوتا ہے۔
آج سے دس سال پہلے کا دور دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں میڈیا بہت کمزور اور نہ ہونے کے برابر تھا۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں لوگ لاعلم تھے لیکن آج کے دور میں دیکھا جائے تو ہر شخص سیاسی، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں جانتا ہے یہ شعور عوام الناس کو میڈیا اور صحافیوں نے دیا۔ آج کسی بازار یا دیہات میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو میڈیا کے نمائندے اور صحافی بروقت وہاں پہنچتے ہیں اور تمام تر صورتحال کو براہ راست نشر کر کے پاکستان کے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم بھی صحافیوں سے پیار کرتے تھے۔ صحافت کے متعلق بانی پاکستان کا ارشا دہے۔
ایک اور جگہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ارشاد فرمایا ۔
صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسا شخص بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتا تھا۔ قیام پاکستان میں بھی صحافیوں کا ایک نمایاں کردار ہے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے نامور صحافیوں نے اپنے اخباروں کے اداریوں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ان کا ذہن کھولا اور آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق میں ان صحافیوں کے قلم کا مثبت ہاتھ ہے۔
چونکہ صحافت کا تعلق عام قارئین سے ہوتا ہے اس لئے ہر صحافی کو سیاست سے دور اور غیر جانبدارہ کہ بات کرنی چاہیئے۔ دس سال پہلے قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی اور تشدد کے واقعات کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں ، بلوچستان کے دور دراز علاقوں اور اندرون سندھ کے علاقوں میں پنچائت کے غلط فیصلے، عورتوں پر تشدد اور عورتوں کو ونی کرنے کے واقعات کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا۔ جہالت کا دور دورہ تھا لیکن اس صحافت اور میڈیا نے ہی وڈیروں اور جاگیرداروں کے غلط اور پر تشدد فیصلوں سے پردہ اٹھایا۔ موقع پر جا کر متاثرہ خاندانوں کے احوال قلمبند کئے۔ متاثرہ خاندانوں کی آواز ایوان بالا تک پہنچائی۔
اگر میڈیا اور صحافت کو صحیح مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو یہی میڈیا اور صحافت غریب اور بے بس عوام کی آواز کہلائے گا آج بھی کئی نیوز چینلز کے نمائندگان اور صحافی حقیقت کی تلاش میں سرگرم ہیں۔ ان نمائندوں اور صحافیوں نے ایسے ایسے واقعات سے پردہ اٹھایا کہ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد ہر انسانی دل رکھنے والے شخص کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان واقعات کو دکھانے والے صحافی اور نمائندگان خراج تحسین کے لائق ہیں۔
آج کے دور میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میڈیا بہت طاقتور ہے ہر چیز منظر عام پر لے آتا ہے اگر دیکھا جائے تو میڈیا کو طاقتور بنانے والے یہ صحافی ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کاوشوں اور بھرپور محنت سے اس میڈیا کو طاقتور بنایا۔ آمریت ہو یا جمہوریت، میڈیا اور صحافیوں کو ہر دور میں سچ اور حقیقت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔
رات ہو یا دن، آندھی ہو یا طوفان ، سردی ہو یا گرمی، صحافیوں نے کبھی ان چیزوں کی پروا نہیں کی کیونکہ ان کا کام عوام الناس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے عوام الناس کو حقیقت سے آگاہ کرنا برائی کے زمرے میں نہیں آتا۔ میڈیا کے شوق، صحافتی مشن اور حقیقت بیان کرنے کے مقصد پر ہر صحافی کو پورا اتر نا چاہیئے۔ ہر وہ صحافی جس کا تعلق پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا سے ہو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور محب وطن بنائے۔ ہر صحافی کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو سچا پاکستانی بنائے۔
آج پاکستان کے وزیر اعظم اور صدر مختلف تقریبات میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم صحافیوں کو تمام تر سہولیات دیں گے ان کے مسائل حل کریں گے۔ لیکن یہ اعلانات تقریبات اور سیمینار ز تک محدود ہوتے ہیں۔ میں پاکستان کے حکمران طبقہ بالخصوص صدر اور وزیر اعظم سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ صحافیوں کو تمام تر سہولیات سے نوازا جائے۔ ان کے تمام تر مسائل حل کئے جائیں۔ انہیں علاج معالجہ اور سفری سہولیات فراہم کی جائیں۔
اور تمام پاکستانی صحافیوں سے عرض کرتا جائوں کہ وہ حق اور سچ کا دامن نہ چھوڑیں حقیقت اور سچائی کے پرچم کو بلند رکھیں اسی میں ہماری فلاح اور بقا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج سے دس سال پہلے کا دور دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں میڈیا بہت کمزور اور نہ ہونے کے برابر تھا۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں لوگ لاعلم تھے لیکن آج کے دور میں دیکھا جائے تو ہر شخص سیاسی، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں جانتا ہے یہ شعور عوام الناس کو میڈیا اور صحافیوں نے دیا۔ آج کسی بازار یا دیہات میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو میڈیا کے نمائندے اور صحافی بروقت وہاں پہنچتے ہیں اور تمام تر صورتحال کو براہ راست نشر کر کے پاکستان کے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم بھی صحافیوں سے پیار کرتے تھے۔ صحافت کے متعلق بانی پاکستان کا ارشا دہے۔
''قوم کی ترقی اور بہبود کیلئے صحافت ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ صحافت ہی وہ ذریعہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے جو قوم کی راہنمائی کرتا ہے اور رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے''۔
ایک اور جگہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ارشاد فرمایا ۔
''صحافت ایک عظیم قوت ہے یہ فائدہ بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی ۔ اگر یہ صحیح طرح چلائی جائے تو رائے عامہ کی راہنمائی اور ہدایت کا فرض سر انجام دے سکتی ہے''۔
صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسا شخص بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتا تھا۔ قیام پاکستان میں بھی صحافیوں کا ایک نمایاں کردار ہے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے نامور صحافیوں نے اپنے اخباروں کے اداریوں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ان کا ذہن کھولا اور آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق میں ان صحافیوں کے قلم کا مثبت ہاتھ ہے۔
چونکہ صحافت کا تعلق عام قارئین سے ہوتا ہے اس لئے ہر صحافی کو سیاست سے دور اور غیر جانبدارہ کہ بات کرنی چاہیئے۔ دس سال پہلے قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی اور تشدد کے واقعات کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں ، بلوچستان کے دور دراز علاقوں اور اندرون سندھ کے علاقوں میں پنچائت کے غلط فیصلے، عورتوں پر تشدد اور عورتوں کو ونی کرنے کے واقعات کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا۔ جہالت کا دور دورہ تھا لیکن اس صحافت اور میڈیا نے ہی وڈیروں اور جاگیرداروں کے غلط اور پر تشدد فیصلوں سے پردہ اٹھایا۔ موقع پر جا کر متاثرہ خاندانوں کے احوال قلمبند کئے۔ متاثرہ خاندانوں کی آواز ایوان بالا تک پہنچائی۔
اگر میڈیا اور صحافت کو صحیح مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو یہی میڈیا اور صحافت غریب اور بے بس عوام کی آواز کہلائے گا آج بھی کئی نیوز چینلز کے نمائندگان اور صحافی حقیقت کی تلاش میں سرگرم ہیں۔ ان نمائندوں اور صحافیوں نے ایسے ایسے واقعات سے پردہ اٹھایا کہ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد ہر انسانی دل رکھنے والے شخص کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان واقعات کو دکھانے والے صحافی اور نمائندگان خراج تحسین کے لائق ہیں۔
آج کے دور میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میڈیا بہت طاقتور ہے ہر چیز منظر عام پر لے آتا ہے اگر دیکھا جائے تو میڈیا کو طاقتور بنانے والے یہ صحافی ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کاوشوں اور بھرپور محنت سے اس میڈیا کو طاقتور بنایا۔ آمریت ہو یا جمہوریت، میڈیا اور صحافیوں کو ہر دور میں سچ اور حقیقت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔
رات ہو یا دن، آندھی ہو یا طوفان ، سردی ہو یا گرمی، صحافیوں نے کبھی ان چیزوں کی پروا نہیں کی کیونکہ ان کا کام عوام الناس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے عوام الناس کو حقیقت سے آگاہ کرنا برائی کے زمرے میں نہیں آتا۔ میڈیا کے شوق، صحافتی مشن اور حقیقت بیان کرنے کے مقصد پر ہر صحافی کو پورا اتر نا چاہیئے۔ ہر وہ صحافی جس کا تعلق پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا سے ہو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور محب وطن بنائے۔ ہر صحافی کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو سچا پاکستانی بنائے۔
آج پاکستان کے وزیر اعظم اور صدر مختلف تقریبات میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم صحافیوں کو تمام تر سہولیات دیں گے ان کے مسائل حل کریں گے۔ لیکن یہ اعلانات تقریبات اور سیمینار ز تک محدود ہوتے ہیں۔ میں پاکستان کے حکمران طبقہ بالخصوص صدر اور وزیر اعظم سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ صحافیوں کو تمام تر سہولیات سے نوازا جائے۔ ان کے تمام تر مسائل حل کئے جائیں۔ انہیں علاج معالجہ اور سفری سہولیات فراہم کی جائیں۔
اور تمام پاکستانی صحافیوں سے عرض کرتا جائوں کہ وہ حق اور سچ کا دامن نہ چھوڑیں حقیقت اور سچائی کے پرچم کو بلند رکھیں اسی میں ہماری فلاح اور بقا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔