عدلیہ میں اصلاحات ناگزیر

لوگ کھلم کھلا آئین وقانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور عدالتی نظام کی کمزوری اور سقم کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں


مزمل سہروردی July 16, 2022
[email protected]

کراچی: دنیا بھر میں آئین و قانون کی حکمرانی ایک مضبوط اور فعال عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک مضبوط اور فعال عدلیہ ہی آئین کا تحفظ کر سکتی ہے تاہم کمزور عدالتی نظام ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے۔

لوگ کھلم کھلا آئین وقانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور عدالتی نظام کی کمزوری اور سقم کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب تک یکساں انصاف فراہم نہیں کیا جائے گا تب تک آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی مضبوطی ممکن نہیں ہے۔ عدلیہ کا سیاسی جھکاؤ آئین وقانون کی حکمرانی کی راہ میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے۔ عدلیہ میں اصلاحات کا نہ ہونا بھی اس نظام کی کمزوری کا باعث ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ملک میں ایک بحث شروع ہے۔ تحریک انصاف کے ذمے داران نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے عدلیہ کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی ہے جس کی آئین وقانون اجازت نہیں دیتا۔ ماضی میں دیکھا ہے کہ عدلیہ پر تنقید پر نہال ہاشمی اور طلال چوہدری جیسے اراکین پارلیمنٹ کو توہین عدالت پر نہ صرف سزائیں سنائی گئیں بلکہ انھیں نااہل بھی کیا گیا۔

اسی طرح ماضی میں ایک وزیر اعظم کو بھی توہین عدالت پر سزاسنا کر نا اہل کیا گیا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا توہین عدالت کے قانون کا استعمال عدلیہ کی صوابدید پر ہے۔ اگر عدلیہ چاہے تو کسی بیان پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دے اور اگر نہ چاہے تو بڑی سے بڑی بات نظر اندازکر دے۔

کیا توہین عدالت کے قانون کا نفاذ یکساں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پیمانہ کیسے طے کیا جائے گا کہ کونسی بات توہین عدالت ہے اور کس بات کو استثنا حاصل ہے۔

عدالتی نظام میں اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی کمزور سے کمزور ہوتی جائے گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ سنیئر ترین جج ہی چیف جسٹس پاکستان بنے گا یہ بات بھی عدلیہ نے خود ہی طے کی جس سے چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی پر سیاست ختم ہوئی، اس نے عدلیہ کو سیاسی معاملات سے کافی حد تک پاک کیا۔ لیکن ابھی مزید معاملات پر بھی توجہ دینی ہے، وقت نے ثابت کیا ہے کہ نا مکمل اصلاحات مکمل نتائج نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے جب تک باقی اصلاحات نہیں کی جائیں گی نتائج نہیں آسکتے۔

اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سنیئر کو نظر انداز کر کے جونیئر ججز کی تعیناتی عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جو اصول چیف جسٹس کے لیے طے کیا گیا وہی اصول سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے ہونا چاہیے۔ جو ہائی کورٹ کا جج ہو سکتا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج کیوں نہیں ہو سکتا۔ جو جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہو سکتا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج کیوں نہیں ہو سکتا۔

ویسے تو ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی میں تاخیر اور آسامیوںکا لمبے عرصہ تک خالی رہنا بھی توجہ طلب ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی میں تاخیر کیوں ہے۔ اس حوالے سے بھی اصلاحات ہونا چاہیے۔ عدالتوں میں پہلے ہی مقدمات التوا کا شکار ہیں۔

ایسے میں ججز کی تعیناتی میں تاخیر مزید التوا کا باعث بنتی ہے۔ ماتحت عدلیہ سے ہائی کورٹس میں تعیناتی کا کوٹہ بڑھایا جانا چاہیے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز ہائی کورٹس میں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ ہائی کورٹس میں براہ راست ججز کی تعیناتی نے وکیلوں کی سیاست کو بھی اہم کر دیا ہے۔ وکلا جج بننے کے لیے نہ صرف لابنگ کرتے ہیں بلکہ سیاسی اثرو رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس راستہ کو بند ہونا چاہیے۔ ججز کی بھرتی صرف ماتحت عدلیہ میں ہونی چاہیے اور وہیں سے ججز کو اعلیٰ عدلیہ تک پہنچنا چاہیے۔

یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جب دنیا کے کئی ممالک میں براہ راست تعیناتیاں ہو رہی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ وہاں ان تعیناتیوں کا مکمل اختیار عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔ پارلیمان اور حکومت کا کلیدی کردار ہے۔ یہاں حکومت اور پارلیمان کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کی جیوڈیشل کمیٹی کو مزید فعال کیا جانا چاہیے۔ نام عدلیہ سے آنے چاہیے، دنیا میں نام عدلیہ سے نہیں آتے، اس لیے کام نہیں چل رہا۔ کیوں عدلیہ میں بروقت ججز کی تعیناتی نہیں ہو رہی ہے۔

اسی طرح بنچ کے قیام اور سوموٹو کے اختیار پر بھی ملک میں ایک بحث جاری ہے۔ ایک چیف جسٹس کے نزدیک سوموٹو کا استعمال ضروری اور دوسرے کی اس کے بارے میں رائے مختلف ہے۔ ایک کے نزدیک سو موٹو انصاف کا بہترین ذریعہ اور دوسرے کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک واضح پالیسی ہونی چاہیے۔ سوموٹو کا اختیار کب اور کیسے استعمال کیا جائے گا اس حوالے سے اصلاحات کرنی چاہیے۔

عوام اور حکومت کو بھی واضح ہونا چاہیے کب سوموٹو ہوگا اور کب نہیں ہوگا۔ اسی طرح کونسا مقدمہ کونسا بنچ سنے گا۔ اس پر بھی آجکل بہت بحث ہو رہی ہے۔ یہ جیوڈیشل نہیں ایک انتظامی نوعیت کا اختیارہے۔ اس لیے یہ اختیار بھی تقسیم کرنے اور اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس حوالے سے ابہام اور سوالات کو ختم کیا جا سکے۔ بہرحال عدالتی نظام میں سقم ہونے یا کمزور ہونے کا تاثر اچھا نہیں۔ اس لیے عدلیہ کو اصلاحات کرنی بھی چاہیے اور ان کا راستہ کھولنا بھی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔