بے مثل مزاحیہ اداکار لہری انتقال کرگئے
ان کی آخری فلم دھنک تھی جو 1985میں ریلیز ہوئی
پاکستان فلم انڈسٹری کے بے مثل مزاحیہ اداکار لہری جمعرات کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
انھیں پھیپھڑوں اور گردے کی بیماریاں لاحق تھیں۔ وہ سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تکلیف کی وجہ سے کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے ۔ اداکار لہری فلمی صنعت کے بزرگ ترین فن کار تھے، انھیں برصغیر کے نامور مزاحیہ اداکار یعقوب کا جانشین قرار دیا جاتا تھا ۔
انھوں نے مزاحیہ اداکاری کو نیا رنگ دیا۔ خوبصورت، برجستہ اور چبھتے ہوئے جملوں سے طنز و مزاح پیدا کرنا اورشاندار انداز سے ادا کرنا ان کا حسن کمال و فن تھا۔ لہری بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے۔انھوں سرکاری ادارے میں اسٹینو ٹائپسٹ کی ملازمت اختیار کی، شام کے اوقات میں کراچی میں ہوزری کی اشیاء بھی بیچیں، ان کا اصل نام سفیر اللہ تھا۔ 1956ء کے اوائل میںفلم انوکھی ریلیز ہوئی، یہ ان کی پہلی فلم تھی۔
لہری نے اپنے منفرد اسلوب سے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت اور مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کا انھوں نے چند سال قبل تصور بھی نہ کیا تھا۔ منور ظریف، نذر اور آصف جاہ کے ہوتے ہوئے لہری کے لیے فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔
لہری نے کم و بیش سوا دو سو فلموں میں کام کیا، جن میں انسان بدلتا ہے، توبہ، تم ملے پیار ملا، بہادر ، پھول میرے گلشن کا، پرنس، ضمیر، صائمہ، دل لگی، آگ کا دریا، ہمراز، دیور بھابھی، داغ، بندھن، تہذیب، زنجیر، نیا انداز، انہونی، ننھا فرشتہ، ایثار، دامن، آنچل، پیغام، کنیز ان کی معروف فلموں میں شامل ہوتی ہیں۔ لہری پر 1985ء میں بیرون ملک فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔
ان کی آخری فلم دھنک تھی جو 1985میں ریلیز ہوئی۔ لہری پاکستان کے وہ پہلے کامیڈین ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کئے، ان کا آخری ایوارڈ بھی نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں ان کی فلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲمرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
انھیں پھیپھڑوں اور گردے کی بیماریاں لاحق تھیں۔ وہ سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تکلیف کی وجہ سے کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے ۔ اداکار لہری فلمی صنعت کے بزرگ ترین فن کار تھے، انھیں برصغیر کے نامور مزاحیہ اداکار یعقوب کا جانشین قرار دیا جاتا تھا ۔
انھوں نے مزاحیہ اداکاری کو نیا رنگ دیا۔ خوبصورت، برجستہ اور چبھتے ہوئے جملوں سے طنز و مزاح پیدا کرنا اورشاندار انداز سے ادا کرنا ان کا حسن کمال و فن تھا۔ لہری بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے۔انھوں سرکاری ادارے میں اسٹینو ٹائپسٹ کی ملازمت اختیار کی، شام کے اوقات میں کراچی میں ہوزری کی اشیاء بھی بیچیں، ان کا اصل نام سفیر اللہ تھا۔ 1956ء کے اوائل میںفلم انوکھی ریلیز ہوئی، یہ ان کی پہلی فلم تھی۔
لہری نے اپنے منفرد اسلوب سے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت اور مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کا انھوں نے چند سال قبل تصور بھی نہ کیا تھا۔ منور ظریف، نذر اور آصف جاہ کے ہوتے ہوئے لہری کے لیے فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔
لہری نے کم و بیش سوا دو سو فلموں میں کام کیا، جن میں انسان بدلتا ہے، توبہ، تم ملے پیار ملا، بہادر ، پھول میرے گلشن کا، پرنس، ضمیر، صائمہ، دل لگی، آگ کا دریا، ہمراز، دیور بھابھی، داغ، بندھن، تہذیب، زنجیر، نیا انداز، انہونی، ننھا فرشتہ، ایثار، دامن، آنچل، پیغام، کنیز ان کی معروف فلموں میں شامل ہوتی ہیں۔ لہری پر 1985ء میں بیرون ملک فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔
ان کی آخری فلم دھنک تھی جو 1985میں ریلیز ہوئی۔ لہری پاکستان کے وہ پہلے کامیڈین ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کئے، ان کا آخری ایوارڈ بھی نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں ان کی فلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲمرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔